تم بیٹھے ہو ، لیکن جاتے دیکھ رہا ہوں
میں تنہائی کے دن ، آتے دیکھ رہا ہوں
آنے والے لمحے سے ، دل سہما ہے
تم کو بھی ڈرتےگھبراتے ، دیکھ رہا ہوں
کب یادوں کا زخم بھرے ، کب داغ مٹے
کتنے دن لگتے ہیں بھلاتے ، دیکھ رہا ہوں
اس کی آنکھوں میں بھی کاجل پھیلا ہے
میں بھی مڑ کے ، جاتے جاتے...
کچھ پاس نہیں، پھر بھی خزانہ تجھے دیتے
ملتا تو سہی، سارا زمانہ تجھے دیتے
چلنے کے لیے راہ بناتے تری خاطر
رہنے کے لیے کوئی ٹھکانہ تجھے دیتے
اک بات نہ کرنے کے لیے بھی تجھے کہتے
کرنے کے لیے کوئی بہانہ تجھے دیتے
سننے کے لیے ہم، ہمہ تن گوش ہی رہتے
کہنے کے لیے کوئی فسانہ تجھے دیتے
دن بھر تجھے تعبیر...
یہ سیلِ گریہ غبارِ عصیاں کو دھو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی
کوئی کہیں چھپ کے رونا چاہے تو رو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی
یہاں بکھرنے کا غم، سمٹنے کی لذّتیں منکشف ہیں جس پر
وہ ایک دھاگے میں سارے موتی پرو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی
جسے ہواؤں کی سرکشی نے بچا لیا دھوپ کی نظر سے
وہ ابرِ آوارہ، دامنِ دل...
یارو کہاں تک محبت نبھاؤں میں
دو مجھ کو بددعا کہ اسے بھول جاؤں میں
دل تو جلاگیا ہے وہ شعلہ سا آدمی
اب کس کو چھو کے اپنا ہاتھ جلاؤں میں
سنتا ہوں اب کسی سے وفا کررہا ہے وہ
اے زندگی خوشی سے کہیں مر نہ جاؤں میں
اک شب بھی وصل کی نہ مرا ساتھ دے سکی
عہد فراق آکہ تجھے آزماؤں میں
بدنام میرے قتل سے...
زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں
اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں
سچ گھٹے یا بڑے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں
اتنے حصّوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصّے میں کچھ بچا ہی نہیں
زندگی، موت تیری منزل ہے
دوسرا کوئی راستا ہی نہیں
جس کے کارن فساد ہوتے ہیں
اُس کا کوئی اتا پتا ہی نہیں
اپنی رچناؤں میں...
ابھی ابھی جناب سہیل غازی پوری صاحب کی کتاب " قرض سخن " ان کی ڈاک سے موصول ہوئی۔۔۔ا س میںسے ایک شعر آپ کی نذر کرتا ہوں۔
پچھلی قطار میں کھڑے ہیںساٹھ سال سے
شہر ہنر میںکون سے فن کار ہم ہوئے
دیار غیر میں کیسے تجھے سدا دیتے
تو مل بھی جاتا تو آخر تجھے گنوا دیتے
تمہی نے نہ سنایا اپنا دکھ ورنہ
دعا وہ دیتے کہ آسماں ہلا دیتے
وہ تیرا غم تھا کہ تاثیر میرے لہجے کی
کہ جسے حال سناتے اُسے رولا دیتے
ہمیں یہ زعم تھا کہ اب کہ وہ پکاریں گے
انہیں یہ ضد تھی کہ ہر بار ہم صدا دیتے
تمھیں...
اگر فرصت ملے تو۔۔۔
سُنا ہے تم بہت مصروف ہو
مصروف بھی اتنے کہ فرصت تم سے ملنے کو ترستی ہے
سُنو !
مصروفیت کے دائرے کو پاٹ کر
ٖفرصت سے ملنے کا کبھی موقع ملے تو
سب سے پہلے خود سے ملنا
پھر فراغت کا کوئی لمحہ بچے تو
غم کے نم آلود رستوں پر کہیں سے دھوپ لا رکھنا
بھٹکتی شام سے پُروا کے دھیمے...
ضبط اپنا شعار تھا، نہ رہا
دل پہ کچھ اختیار تھا، نہ رہا
دلِ مرحوم کو خدا بخشے
ایک ہی غم گسار تھا، نہ رہا
موت کا انتظار باقی ہے
آپ کا انتظار تھا، نہ رہا
اب گریباں کہیں سے چاک نہیں
شغلِ فصلِ بہار تھا، نہ رہا
آ، کہ وقتِ سکونِ مرگ آیا
نالہ نا خوش گوار تھا، نہ رہا
ان کی بے مہریوں کو کیا...
کبھی بول بھی
دلِ سوختہ
کبھی بول بھی
جو اسیر کہتے تھے خود کو تیری اداؤں کے وہ کہاں گئے
جو سفیر تھے تیر ی چاہتوں کی فضاؤں کے وہ کہاں گئے
وہ جو مُبتلائے سفر تھے تیرے خیال میں
وہ جو دعویدار تھے عمر بھی کی وفاؤں کے وہ کہاں گئے
کبھی کوئی راز تو کھول بھی
کبھی بول بھی
دلِ نا خدا
کبھی بول بھی...
http://www.divshare.com/download/4544020-59e
پوچھتے ہو تو سنو کیسے بسر ہوتی ہے
رات خیرات کی، صدقے کی سحر ہوتی ہے
سانس بھرنے کو تو جینا نہیں کہتے یا رب!
دل ہی دُکھتا ہے نہ اب آستیں تر ہوتی ہے
جیسے جاگی ہوئی آنکھوں میں چبھیں کانچ کے خواب
رات اس طرح دوانوں کی بسر ہوتی ہے
غم ہی دشمن ہے مرا،...
تھیں گلستاں میں رونقیں جن کے شباب سے
مرجھا کے رہ گئے ہیں وہ چہرے گلاب سے
جب کر چکا ہے باغباں آندھی سے ساز باز
کیسے بچیں گے پیڑ خزاں کے عذاب سے
کیوں بھیجتے ہو ہم کو بتاؤ تو زرد پھول
رشتہ اگر نہیں ہے ہمارا جناب سے
آنکھوں سے روح تک جو فروزاں ہیں ساقیا
کیسے مٹیں گے نقش بھلا وہ شراب سے...
متاعِ شیشہ کا پروردگار سنگ ہی سہی
متاعِ شیشہ پہ کب تک مدار کارگہی
بہار میں بھی وہی رنگ ہے وہی انداز
ہنوز اہلِ چمن ہیں شکار کم نگہی
فسردہ شبنم و بےنور دیدہء نرگس
دریدہ پیرہنِ گل، ایاغِ لالہ تہی
بلند بانگ بھی ہوتے گناہ کرتے اگر
نوائے زیرِ لبی ہے ثبوتِ بے گہنی
اُس ایک بات کے افسانے...
جو خیال تھے نا قیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جو محبتوں کی اساس تھے،وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جنہیں مانتا ہی نہیں یہ دل،وہی لوگ میرے ہیں ہمسفر
مجھے ہر طرح سے جو راس تھے،وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
مجھے لمحہ بھر کی رفاقتوں کے سراب اور ستایئں گے
میری عمر بھر کی جو پیاس تھے، وہی لوگ مجھ...
اک پریشاں سی روایت ہم ہیں
کچھ سہی پھر بھی غنیمت ہم ہیں
جب یہ سوچا ہے تو اور اُلجھے ہیں
اتنے کیوں سادہ طبیعت ہم ہیں
ہر قدم کہتے ہیں کچھ تازہ نقوش
اے مسافر تری ہمت ہم ہیں
کوئی قاتل ہو تو دیں اُس کا پتہ
کُشتہء تیغ شرافت ہم ہیں
چشمِ تحقیق سے دیکھا تو کُھلا
وقت کی ساری اذیت ہم ہیں...
ہر بے زباں کو شعلہ نوا کہہ لیا کرو
یارو سکوت ہی کو صدا کہہ لیا کرو
خود کو فریب دو کہ نہ ہو تلخ زندگی
ہر سنگ دل کو جانِ وفا کہہ لیا کرو
گر چاہتے ہو خوش رہیں کچھ بندگانِ خاص
جتنے صنم ہیں ان کو خدا کہہ لیا کرو
یارو یہ دور ضعفِ بصارت کا دور ہے
آندھی اُٹھے تو اِس کو گھٹا کہہ لیا کرو
انسان کا...
اس طرح دھڑکتا ہے کوئی دل مرے دل میں
ہو جیسے مرا مدمقابل مرے دل میں
ہاتھوں سے ترے غم کا سرا چھوٹ رہا ہے
یا ڈوب رہا ہے کوئی ساحل مرے دل میں
رہنا تھا مرے دل میں کسی غنچہ دہن کو
اور بس کیا اک شور سلاسل مرے دل میں
لپٹے رہے اک چاند کے دامن سے کنائے
اک درد سے ہوتی رہی جھلمل مرے دل میں...
طے ہوا "تو" سے "میں" تک کا یہ فاصلہ اے خدا الوداع
شکریہ مجھ کو مجھ تک جو پہنچایا اے خدا الوداع
اب اجازت کہ یہ زندگی ایک نیا موڑ مڑنے کو ہے
اب نئی زندگی ہے نیا سلسلہ اے خدا الوداع
اب اجازت کہ فطرت سے میں اک نیا حسن پیدا کروں
عشق کو اب ترا حسن کم پڑ گیا اے خدا الوداع
اب اجازت کہ فطرت...
یہ دعا ہے کوئی گلہ نہیں
میرے ہمنشین میری زندگی
وہ گلاب ہے جو کھلا نہیں
میں یہ سوچتا ہوں خدا کرے
تمہیں زندگی میں وہ سکھ ملے
جو مجھے کبھی ملا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ڈھونڈتے کیا ہو ان آنکھوں میں
خود میں گم رہنا تو عادت ہے پرانی میری
بھیڑ مین بھی تمہیں مل جاؤں گا آسانی سے
کھویا کھویا ہوا رہنا ہے نشانی میری
میں نے اک بار کہا تھا کہ بہت پیاسا ہوں
تب سے مشہور ہوئی تشنہ دہانی میری
یہی دیوار و درو بام تھے میرے ہم راز
انہی گلیوں میںبھٹکتی تھی جوانی...