غزل
(جگت موہن لال رواںؔ)
رواںؔ کس کو خبر عنوان آغاز ِجہاں کیا تھا
زمیں کا کیا تھا نقشہ اور رنگِ آسماں کیا تھا
یہی ہستی اسی ہستی کے کچھ ٹوٹے ہوئے رشتے
وگرنہ ایسا پردہ میرے اُن کے درمیاں کیا تھا
ترا بخشا ہوا دل اور دل کی یہ ہوسکاری
مرا اس میں قصور اے دسگیر عاصیاں کیا تھا
اگر کچھ روز زندہ رہ کے...
غزل
(شو رتن لال برق پونچھوی)
اک دامن میں پھول بھرے ہیں، اک دامن میں آگ ہی آگ
یہ ہے اپنی اپنی قسمت، یہ ہیں اپنے اپنے بھاگ
راہ کٹھن ہے، دور ہے منزل، وقت بچا ہے تھوڑا سا
اب تو سورج آگیا سر پر، سونے والے اب تو جاگ
پیری میں تو یہ سب باتیں زاہد اچھی لگتی ہیں
ذکر عبادت بھری جوانی میں، جیسے بےوقت کا...
غزل
(شو رتن لال برق پونچھوی)
جب ترا آسرا نہیں ملتا
کوئی بھی راستا نہیں ملتا
اپنا اپنا نصیب ہے پیارے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ملتا
تو نے ڈُھونڈا نہیں تہ دل سے
ورنہ کس جا خدا نہیں ملتا
لوگ ملتے ہیں پھر بچھڑتے ہیں
کوئی درد آشنا نہیں ملتا
ساری دنیا کی ہے خبر مجھ کو
صرف اپنا پتا نہیں ملتا
حسرتیں...
غزل
(شو رتن لال برق پونچھوی)
نہ رہبر نے نہ اس کی رہبری نے
مجھے منزل عطا کی گمرہی نے
بنا ڈالا زمانے بھر کو دشمن
فقط اک اجنبی کی دوستی نے
وہ کیوں محتاج ہو شمس و قمر کا
جلا بخشی ہو جس کو تیرگی نے
بدن کانٹوں سے کر ڈالا ہے چھلنی
ہمارا گُل رُخوں کی دوستی نے
بدل ڈالا مذاق گُل پرستی
چمن میں ادھ کھلی...
غزل
(خوشبیر سنگھ شادؔ)
سمندر یہ تری خاموشیاں کچھ اور کہتی ہیں
مگر ساحل پہ ٹوٹی کشتیاں کچھ اور کہتی ہیں
ہمارے شہر کی آنکھوں نے منظر اور دیکھا تھا
مگر اخبار کی یہ سُرخیاں کچھ اور کہتی ہیں
ہم اہلِ شہر کی خواہش کہ مِل جُل کر رہیں لیکن
امیرِ شہر کی دلچسپیاں کچھ اور کہتی ہیں
غزل
(بھارتیندو ہریش چندر - وارانسی، 1850-1885ء)
ہندی کی تجدیدِ نو کے مبلغ، کلاسیکی طرز میں اپنی اردو غزل گوئی کے لیے مشہور تھے۔
بُتِ کافر جو تو مجھ سے خفا ہے
نہیں کچھ خوف، میرا بھی خدا ہے
یہ درِ پردہ ستاروں کی صدا ہے
گلی کوچہ میں گر کہیے بجا ہے
رقیبوں میں وہ ہوں گے سُرخ رو آج
ہمارے قتل کا...
غزل
(بھارتیندو ہریش چندر - وارانسی، 1850-1885ء)
ہندی کی تجدیدِ نو کے مبلغ، کلاسیکی طرز میں اپنی اردو غزل گوئی کے لیے مشہور تھے۔
آگئی سر پر قضا لو سارا ساماں رہ گیا
اے فلک کیا کیا ہمارے دل میں ارماں رہ گیا
باغباں ہے چار دن کی باغِ عالم میں بہار
پھول سب مرجھا گئے، خالی بیاباں رہ گیا
اتنا احساں...
سلامِ حسرت قبول کر لو
مری محبت قبول کر لو
اُداس نظریں تڑپ تڑپ کر تمہارے جلوؤں کو ڈھونڈتی ہیں
جو خواب کی طرح کھو گئے، اُن حسین لمحوں کو ڈھونڈتی ہیں
اگر نہ ہو ناگوار تم کو، تو یہ شکایت قبول کر لو
مری محبت قبول کر لو
تمہی نگاہوں کی آرزو ہو، تمہی خیالوں کا مدّعا ہو
تمہی مرے واسطے صنم ہو، تمہی مرے...
غزل
(مصحفی غلام ہمدانی امروہوی)
یہ آنکھیں ہیں تو سر کٹا کر رہیں گی
کسو سے ہمیں یاں لڑا کر رہیں گی
اگر یہ نگاہیں ہیں کم بخت اپنی
تو کچھ ہم کو تہمت لگا کر رہیں گی
یہ سفاکیاں ہیں تو جوں مرغ بسمل
ہمیں خاک و خوں میں ملا کر رہیں گی
کیا ہم نے معلوم نظروں سے تیری
کہ نظریں تری ہم کو کھا کر رہیں گی...
غزل
(مصحفی غلام ہمدانی)
دل چیز کیا ہے، چاہئے تو جان لیجئے
پر بات کو بھی میری ذرا مان لیجئے
مریے تڑپ تڑپ کے دلا کیا ضرور ہے
سر پر کسی کی تیغ کا احسان لیجئے
آتا ہے جی میں چادر ابرِ بہار کو
ایسی ہوا میں سر پہ ذرا تان لیجئے
میں بھی تو دوست دار تمہارا ہوں میری جاں
میرے بھی ہاتھ سے تو کبھو پان...
غزل
(گوپال متل)
زبان رقص میں ہے اور جھومتا ہوں میں
کہ داستانِ محبت سنا رہا ہوں میں
نہ پوچھ مجھ سے مری بے خودی کا افسانہ
کسی کی مست نگاہی کا ماجرا ہوں میں
کہاں کا ضبطِ محبت، کہاں کی تاثیریں
تسلیاں دلِ مضطر کو دے رہا ہوں میں
پھر ایک شعلہء پر پیچ و تاب بھڑکے گا
کہ چند تنکوں کو ترتیب دے رہا ہوں...
غزل
(گیان چند)
پھرتا ہوں میں گھاٹی گھاٹی صحرا صحرا تنہا تنہا
بادل کا آوارہ ٹکڑا کھویا کھویا تنہا تنہا
پچھم دیس کے فرزانوں نے نصف جہاں سے شہر بسائے
ان میں پیر بزرگ ارسطو بیٹھا رہتا تنہا تنہا
کتنا بھیڑ بھڑکا جگ میں کتنا شور شرابہ لیکن
بستی بستی کوچہ کوچہ چپا چپا تنہا تنہا
سیر کرو باطن میں اس کے...
غزل
(گیان چند)
کیا بتائیں آپ سے کیا ہستیٔ انسان ہے
آدمی جذبات و احساسات کا طوفان ہے
اشتراکیت مرا دین اور مرا ایمان ہے
کاش موٹر لے سکوں میں یہ مرا ارمان ہے
آہ اس دانش کدے میں کس قدر ہے قحطِ حسن
جب سے آیا ہوں یہاں بزمِ نظر ویران ہے
یہ کتابیں ہر طرف ہوں یا بتانِ منتخب
برگزیدہ ہستیوں کا ایک ہی...
غزل
(غلام بھیک نیرنگ - 1876-1952)
کبھی صورت جو مجھے آ کے دکھا جاتے ہو
دن مری زیست کے کچھ اور بڑھا جاتے ہو
اک جھلک تم جو لبِ بام دکھا جاتے ہو
دل پہ اک کوندتی بجلی سی گِرا جاتے ہو
میرے پہلو میں تم آؤ یہ کہاں میرے نصیب
یہ بھی کیا کم ہے تصوّر میں تو آجاتے ہو
تازہ کر جاتے ہو تم دل میں پرانی یادیں...
غزل
(انعام اللہ خاں یقینؔ - 1727-1755، دہلی)
میر تقی میرؔ کے ہم عصر اور ان کے حریف کے طور پر مشہور۔ انہیں ان کے والد نے قتل کیا۔
حق مجھے باطل آشنا نہ کرے
میں بتوں سے پھروں، خدا نہ کرے
دوستی بد بلا ہے، اس میں خدا
کسی دشمن کو مُبتلا نہ کرے
ہے وہ مقتول کافرِ نعمت
اپنے قاتل کو جو دعا نہ کرے
رو...
غزل
(انور مرزا پوری)
میں تو سمجھا تھا جس وقت مجھ کو وہ ملیں گے تو جنت ملے گی
کیا خبر تھی رہِ عاشقی میں ساتھ اُن کے قیامت ملے گی
میں نہیں جانتا تھا کہ مجھ کو یہ محبت کی قیمت ملے گی
آنسوؤں کا خزانہ ملے گا، چاکِ دامن کی دولت ملے گی
پھول سمجھے نہ تھے زندگانی اس قدر خوبصورت ملے گی
اشک بن کر تبسم...
غزل
(انور مرزا پوری)
میں نظر سے پی رہا ہوں، یہ سما بدل نہ جائے
نہ جھکاؤ تم نگاہیں، کہیں رات ڈھل نہ جائے
مرے اشک بھی ہیں اس میں، یہ شراب اُبل نہ جائے
مرا جام چھونے والے، ترا ہاتھ جل نہ جائے
ابھی رات کچھ ہے باقی، نہ اُٹھا نقاب ساقی
ترا رند گرتے گرتے، کہیں پھر سنبھل نہ جائے
مری زندگی کے مالک،...
غزل
(انور مرزا پوری)
کسی صورت بھی نیند آتی نہیں، میں کیسے سو جاؤں
کوئی شے دل کو بہلاتی نہیں، میں کیسے سو جاؤں
اکیلا پا کے مجھ کو یاد اُن کی آ تو جاتی ہے
مگر پھر لوٹ کر جاتی نہیں، میں کیسے سو جاؤں
جو خوابوں میں مرے آ کر تسلّی مجھ کو دیتی تھی
وہ صورت اب نظر آتی نہیں، میں کیسے سو جاؤں
تمہیں تو...
غزل
(مصحفی غلام ہمدانی)
ہو چکا ناز، منہ دکھائیے بس
غصہ موقوف کیجے، آئیے بس
فائدہ کیا ہے یوں کھنچے رہنا
میری طاقت نہ آزمائیے بس
"دوست ہوں میں ترا" نہ کہیے یہ حرف
مجھ سے جھوٹی قسم نہ کھائیے بس
آپ کو خوب میں نے دیکھ لیا
تم ہو مطلب کے اپنے جائیے بس
مصحفی عشق کا مزہ پایا
دل کسی سے نہ اب لگائیے بس