غزل
( سمپورن سنگھ کلرا، گلزار)
جب بھی یہ دل اُداس ہوتا ہے
جانے کون آس پاس ہوتا ہے
آنکھیں پہچانتی ہیں آنکھوں کو
درد چہرہ شناس ہوتا ہے
گو برستی نہیں سدا آنکھیں
ابر تو بارہ ماس ہوتا ہے
چھال پیڑوں کی سخت ہے لیکن
نیچے ناخن کے ماس ہوتا ہے
زخم کہتے ہیں دل کا گہنہ ہے
درد دل کا لباس ہوتا ہے
ڈس ہی...
غزل
(محمود شام - کراچی)
کوئی دستار سلامت نہ گریباں اب کے
کیسے آغاز ہوئی صبحِ بہاراں اب کے
روز ملتا ہے نیا رقصِ جنوں دیکھنے کو
فارغ اک لمحہ نہیں دیدہء حیراں اب کے
وحشتیں توڑ کے ہر بند نکل آئی ہیں
نادم انسان کی حرکت پہ ہے حیواں اب کے
فیصلے زور سے اور جبر سے کرتے ہیں ہجوم
یہ ہے سلطانی جمہور کا...
غزل
(مُنشی بشیشور پرشاد منوّر لکھنوی)
بیدار اِس خیال سے اب ہو رہا ہوں میں
آنکھیں کھُلی ہیں لاکھ مگر سو رہا ہوں میں
شاید مری طرح یہ نہیں واقفِ مآل
گو پھُول ہنس رہے ہیں مگر رو رہا ہوں میں
کیا ہو مآلِ سعی مجھے کچھ خبر نہیں
کشتِ عمل میں بیج مگر بو رہا ہوں میں
کرنی کی راہ اور ہے، بھرنی کی راہ اور...
غزل
(مُنشی بشیشور پرشاد منوّر لکھنوی)
یہ کس فضا میں نامِ خدا جا رہا ہوں میں
مانندِ جبرئیل اُڑا جا رہا ہوں میں
منزل مری کہاں ہے، مجھے کچھ خبر نہیں
دریا ہوں اپنی رَو میں بہا جا رہا ہوں میں
پردے سے لاؤں کیا تمہیں باہر نکال کر
اپنی نظر سے آپ چھپا جا رہا ہوں میں
نو واردانِ محفلِ ہستی، خوش آمدید...
غزل
(مُنشی بشیشور پرشاد منوّر لکھنوی)
فکر کی کون سی منزل سے گزرتا ہوں میں
اب تو اک شعر بھی کہتے ہوئے ڈرتا ہوں میں
حوصلہ دل کا بڑھاتی ہے عزائم کی شکست
خونِ جذبات سے کچھ اور نکھرتا ہوں میں
کس کے پَرتو سے مری رُوح کو ملتا ہے جمال
کس کی تہذیب کے صدقے میں سنورتا ہوں میں
میری فن کار طبیعت کا یہ...
غزل
(مُنشی بشیشور پرشاد منوّر لکھنوی)
رُخ تو میری طرف سے پھیرے ہیں
پھر بھی مدِّنظر وہ میرے ہیں
جس طرف میں نگاہ کرتا ہوں
کچھ اُجالے ہیں، کچھ اندھیرے ہیں
آپ کی مُسکراہٹوں کے نثار
پُھول چاروں طرف بکھیرے ہیں
کروٹیں وقت کی انہیں کہیئے
نہ ہیں شامیں نہ یہ سویرے ہیں
میں ہوں اُن کے سلوک کا کشتہ
جو...
غزل
(مُنشی بشیشور پرشاد منوّر لکھنوی)
رفتہ رفتہ دُنیا بھر کے رشتے ناتے ٹوٹ رہے ہیں
بیگانوں کا ذکر ہی کیا جب اپنے ہم سے چُھوٹ رہے ہیں
اُن کی غیرت کو ہم روئیں یا روئیں اپنی قسمت کو
جن کو بچایا تھا لُٹنے سے اب وہ ہم کو لُوٹ رہے ہیں
ساقی تیری لغزشِ پیہم ختم نہ کر دے میخانے کو
کتنے ساغر ٹُوٹ چکے...
غزل
(مُنشی بشیشور پرشاد منوّر لکھنوی)
تُو میرے ہر راز سے محرم
پھر بھی مجھ سے واقف کم کم
سب کے لب پر تیرا نغمہ
سب کے ہاتھ میں تیرا پرچم
تجھ میں گنگا، تجھ میں جمنا
تُو ہی تربینی کا سنگم
اور نہیں کچھ خواہش میری
دے دے بخشش میں اپنا غم
موت آئی کس وقت منوّر
ہر گھر میں ہے تیرا ماتم
غزل
(مرزا محمد رفیع دہلوی سودا)
باتیں کِدھر گئیں وہ تِری بھولی بھالِیاں؟
دِل لے کے بولتا ہَے، جو اَب تو، یہ بولِیاں
ہر بات ہَے لطیفہ و ہر یک سُخن ہَے رمز
ہر آن ہَے کِنایہ و ہر دم ٹھٹھولِیاں
حَیرت نے، اُس کو بند نہ کرنے دیں پِھر کبھو
آنکھیں، جب آرسی نے، تِرے مُنہ پہ کھولِیاں
کِس نے کیا...
غزل
(مرزا محمد رفیع دہلوی متخلص بہ سوداؔ)
چہرے پہ نہ یہ نقاب دیکھا
پردے میں تھا آفتاب دیکھا
کُچھ مَیں ہی نہیں ہوں، ایک عالم
اُس کے لیے یاں خراب دیکھا
بے جُرم و گناہ، قتلِ عاشِق
مذہب میں تِرے ثواب دیکھا
جِس چشم نے مُجھ طرف نظر کی
اُس چشم کو میں پُرآب دیکھا
بھوَلا ہے وہ دِل سے لُطف اُس کے...
غزل
(شمس ولی اللہ ولی دکنی)
عاشِقاں پر ہمیشہ رَوشن ہے
کہ فنِ عاشِقی، عجب فن ہے
دُشمنِ دیں کا، دین دُشمن ہے
راہ زن کا چِراغ رہزن ہے
سفرِ عِشق کیوں نہ ہو مُشکِل؟
غمزہء چشمِ یار رہزن ہے
مُجھ کوں رَوشن دِلاں نے دی ہے خبر
کہ سُخن کا چِراغ رَوشن ہے
عِشق میں شمع رو کے جلتا ہوں
حال میرا سبھوں پہ...
غزل
(خاطر غزنوی)
انساں ہوں گھِر گیا ہوں زمیں کے خداؤں میں
اب بستیاں بساؤں گا جا کر خلاؤں میں
یادوں کے نقش کندہ ہیں ناموں کے روپ میں
ہم نے بھی دن گزارے درختوں کی چھاؤں میں
دوڑا رگوں میں خوں کی طرح شور شہر کا
خاموشیوں نے چھین لیا چین گاؤں کا
یوں تو رواں ہیں میرے تعاقب میں منزلیں
لیکن میں...
غزل
(حمایت علی شاعر)
بدن پہ پیرہنِ خاک کے سوا کیا ہے
مرے الاؤ میں اب راکھ کے سوا کیا ہے
یہ شہرِ سجدہ گزاراں دیارِ کم نظراں
یتیم خانہء اداک کے سوا کیا ہے
تمام گنبد و مینار و منبر و محراب
فقیہِ شہر کی املاک کے سوا کیا ہے
کھلے سروں کا مقدر بہ فیض جہلِ خرد
فریب سایہء افلاک کے سوا کیا ہے
یہ میرا...