شفیق خلش
غزل
سائے ہیں بادلوں کے وہ، چَھٹتے نہیں ذرا
لا لا کے غم سروں پہ یہ، تھکتے نہیں ذرا
کیسے قرار آئے دلِ بے قرار کو
گھر سے اب اپنے وہ، کہ نکلتے نہیں ذرا
کیا وہ بچھڑگئے، کہ خُدائی بچھڑ گئی
دُکھ اب ہماری ذات کے بٹتے نہیں ذرا
سُوجھے کوئی نہ بات ہَمَیں آپ کے بغیر
موسم تخیّلوں کے بدلتے نہیں...
غزل
گو دَورِ جام ِبزم میں، تا ختمِ شب رہا !
لیکن، میں تشنہ لب کا وہی تشنہ لب رہا
پروانہ میری طرح مُصِیبت میں کب رہا
بس رات بھر جَلا تِری محِفل میں جب رہا
ساقی کی بزم میں یہ نظامِ ادب رہا !
جس نے اُٹھائی آنکھ، وہی تشنہ لب رہا
سرکار ،پُوچھتے ہیں خفا ہو کے حالِ دل
بندہ نواز میں تو بتانے سے...
ابھی کُچھ ہیں مِلنے کو باقی سزائیں
وہ گِنتے ہیں بیٹھے ہماری خطائیں
نہیں آتے پل کو جو پہروں یہاں تھے
اثر کھو چُکی ہیں سبھی اِلتجائیں
زمانہ ہُوا چھوڑ آئے وطن میں
نظر ڈُھونڈتی ہے اب اُن کی ادائیں
مِرے خونِ ناحق پہ اب وہ تُلے ہیں
جو تھکتے نہ تھے لے کے میری بَلائیں
خَلِشؔ تم زمیں کے، وہ ہیں...
غزل
تمھاری، دِل میں محبّت کا یُوں جواب نہیں
کہ اِس سے، ہم پہ مؤثر کوئی عذاب نہیں
ہزاروں پُوجے مگر بُت کوئی نہ ہاتھ آیا
تمام عُمْر عبادت کا اِک ثواب نہیں
اُمیدِ وصْل سے قائم ہیں دھڑکنیں دِل کی
وگرنہ ہجر میں ایسا یہ کم کباب نہیں
سِوائے حُسن کسی شے کی کب اِسے پروا
ہمارے دِل سے بڑا دہرمیں...
غزل
(جگر مُراد آبادی)
وہ جو روٹھیں یوں منانا چاہیئے
زندگی سے رُوٹھ جانا چاہیئے
ہمّتِ قاتل بڑھانا چاہیئے
زیرِ خنجر مُسکرانا چاہیئے
زندگی ہے نام جہد و جنگ کا
موت کیا ہے بھول جانا چاہیئے
ہے انہیں دھوکوں سے دل کی زندگی
جو حسیں دھوکا ہو، کھانا چاہیئے
لذّتیں ہیں دشمن اوج کمال
کلفتوں سے جی لگانا...
غزل
(جگر مُراد آبادی)
آج کیا حال ہے یا رب سر ِمحفل میرا
کہ نکالے لیے جاتا ہے کوئی دل میرا
سوزِ غم دیکھ، نہ برباد ہو حاصل میرا
دل کی تصویر ہے ہر آئینہء دل میرا
صبح تک ہجر میں کیا جانیے کیا ہوتا ہے
شام ہی سے مرے قابو میں نہیں دل میرا
مل گئی عشق میں ایذا طلبی سے راحت
غم ہے اب جان مری درد ہے اب...
غزل
(علی جواد زیدی)
آنکھوں میں اشک بھر کے مجھ سے نظر ملا کے
نیچی نگاہ اُٹھی فتنے نئے جگا کے
میں راگ چھیڑتا ہوں ایمائے حسنِ پا کے
دیکھو تو میری جانب اک بار مُسکرا کے
دنیائے مصلحت کے یہ بند کیا تھمیں گے
بڑھ جائے گا زمانہ طوفاں نئے اُٹھا کے
جب چھیڑتی ہیں ان کو گمنام آرزوئیں
وہ مجھ کو دیکھتے ہیں...
لیڈر کی دُعا
(اسرار جامعی - کلاسکی روایت کے ممتاز مزاحیہ شاعر،اپنی مخصوص زبان اور طرزاظہار کے لیے مشہور)
ابلیس مرے دل میں وہ زندہ تمنّا دے
جو غیروں کو اپنا لے اور اپنوں کو ٹرخا دے
بھاشن کے لیے دم دے اور توند کو پھلوا دے
پایا ہے جو اوروں نے وہ مجھ کو بھی دلوا دے
پیدا دلِ ووٹر میں وہ شورشِ محشر...
غزل
(آتش بہاولپوری)
آپ کی ہستی میں ہی مستور ہو جاتا ہوں میں
جب قریب آتے ہو خود سے دور ہوجاتا ہوں میں
دار پر چڑھ کر کبھی منصور ہوجاتا ہوں میں
طور پر جا کر کلیمِ طور ہوجاتا ہوں میں
یوں کسی سے اپنے غم کی داستاں کہتا نہیں
پوچھتے ہیں وہ تو پھر مجبور ہوجاتا ہوں میں
اپنی فطرت کیا کہوں اپنی طبیعت کیا...
غزل
(آتش بہاولپوری)
مجھے ان سے محبت ہو گئی ہے
میری بھی کوئی قیمت ہوگئی ہے
وہ جب سے ملتفت مجھ سے ہوئے ہیں
یہ دنیا خوب صورت ہوگئی ہے
چڑھایا جا رہا ہوں دار پر میں
بیاں مجھ سے حقیقت ہوگئی ہے
رواں دریا ہیں انسانی لہو کے
مگر پانی کی قلت ہوگئی ہے
مجھے بھی اک ستم گر کے کرم سے
ستم سہنے کی عادت ہوگئی...
تسکینِ دلِ محزوں نہ ہوئی، وہ سعئ کرم فرما بھی گئے
اس سعئ کرم کو کیا کہیے، بہلا بھی گئے تڑپا بھی گئے
ہم عرضِ وفا بھی کر نہ سکے، کچھ کہہ نہ سکے کچھ سن نہ سکے
یاں ہم نے زباں ہی کھولی تھی، واں آنکھ جھکی شرما بھی گئے
آشفتگیِ وحشت کی قسم، حیرت کی قسم، حسرت کی قسم
اب آپ کہیں کچھ یا نہ کہیں، ہم رازِ...
غزل
(نظام رامپوری)
کبھی ملتے تھے وہ ہم سے زمانہ یاد آتا ہے
بدل کر وضع چھپ کر شب کو آنا یاد آتا ہے
وہ باتیں بھولی بھولی اور وہ شوخی ناز و غمزہ کی
وہ ہنس ہنس کر ترا مجھ کو رُلانا یاد آتا ہے
گلے میں ڈال کر بانہیں وہ لب سے لب ملا دینا
پھر اپنے ہاتھ سے ساغر پلانا یاد آتا ہے
بدلنا کروٹ اور تکیہ مرے...
غزل
(نظام رامپوری)
وہ بگڑے ہیں، رکے بیٹھے ہیں، جھنجلاتے ہیں، لڑتے ہیں
کبھی ہم جوڑتے ہیں ہاتھ گاہے پاؤں پڑتے ہیں
گئے ہیں ہوش ایسے گر کہیں جانے کو اُٹھتا ہوں
تو جاتا ہوں اِدھر کو اور اُدھر کو پاؤں پڑتے ہیں
ہمارا لے کے دل کیا ایک بوسہ بھی نہیں دیں گے
وہ یوں دل میں تو راضی ہیں مگر ظاہر جھگڑتے ہیں...
غزل
(بشیر بدر بھوپالی)
دل میں اک تصویر چھپی تھی آن بسی ہے آنکھوں میں
شاید ہم نے آج غزل سی بات لکھی ہے آنکھوں میں
جیسے اک ہریجن لڑکی مندر کے دروازے پر
شام دیوں کی تھال سجائے جھانک رہی ہے آنکھوں میں
اس رومال کو کام میں لاؤ اپنی پلکیں صاف کرو
میلا میلا چاند نہیں ہے دھول جمی ہے آنکھوں میں
پڑھتا...
غزل
اُس کے غم کو، غمِ ہستی تو مِرے دِل نہ بنا
زِیست مُشکل ہے اِسے اور بھی مُشکل نہ بنا
تُو بھی محدُود نہ ہو، مجھ کو بھی محدُود نہ کر
اپنے نقشِ کفِ پا کو مِری منزِل نہ بنا
اور بڑھ جائے گی وِیرانیِ دل جانِ جہاں !
میری خلوت گہہِ خاموش کو محفِل نہ بنا
دِل کے ہر کھیل میں ہوتا ہے بہت جاں کا...
غزل
(بشیر بدر بھوپالی)
نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی
بڑی آرزو تھی ملاقات کی
اُجالوں کی پریاں نہانے لگیں
ندی گُنگنائی خیالات کی
میں چُپ تھا تو چلتی ہوا رُک گئی
زباں سب سمجھتے ہیں جذبات کی
مقدر مری چشمِ پُر آب کا
برستی ہوئی رات برسات کی
کئی سال سے کچھ خبر ہی نہیں
کہاں دن گزارا کہاں رات کی