ہستی کو تیرے پیار نے بادل بنادِیا
نظروں میں لیکن اوروں کی پاگل بنادِیا
اعزاز یہ ازل سے ہے تفوِیضِ وقت کہ
ہر یومِ نَو کو گُذرا ہُوا کل بنادِیا
اب تشنگی کا یُوں مجھے احساس تک نہ ہو
دِل ہی تمھاری چاہ کا چھاگل بنادِیا
جا حُسنِ پُرشباب پہ ٹھہرے وہیں نِگاہ !
نظروں کو شوقِ دِید نے ،آنچل بنادِیا...
غزل
(عرفان صدیقی - لکھنؤ)
اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لیے
کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے
عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا
مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے
وہ مرحلہ ہے کہ اب سیل خوں پہ راضی ہیں
ہم اس زمین کو شاداب دیکھنے کے لیے
جو ہو سکے تو ذرا شہ سوار لوٹ کے آئیں
پیادگاں کو...
غزل
(فنا نظامی کانپوری)
ساقیا تو نے مرے ظرف کو سمجھا کیا ہے
زہر پی لوں گا ترے ہاتھ سے صہبا کیا ہے
میں چلا آیا ترا حسن تغافل لے کر
اب تری انجمن ناز میں رکھا کیا ہے
نہ بگولے ہیں نہ کانٹے ہیں نہ دیوانے ہیں
اب تو صحرا کا فقط نام ہے صحرا کیا ہے
ہو کے مایوس وفا ترک وفا تو کر لوں
لیکن اس ترک...
غزل
(فنا نظامی کانپوری)
تو پھول کی مانند نہ شبنم کی طرح آ
اب کے کسی بے نام سے موسم کی طرح آ
ہر مرتبہ آتا ہے مہِ نو کی طرح تو
اس بار ذرا میری شبِ غم کی طرح آ
حل کرنے ہیں مجھ کو کئی پیچیدہ مسائل
اے جانِ وفا گیسوئے پُر خم کی طرح آ
زخموں کو گوارا نہیں یک رنگیِ حالات
نِشتر کی طرح آ کبھی...
اب کی چلی وطن میں ہَوا کِس طرف کی ہے
پھیلی نویدِ صُبحِ جزا کِس طرف کی ہے
ہو احتساب اگر تو بِلا امتیاز ہو!
مغرب کی گر نہیں تو وَبا کِس طرف کی ہے
محفِل عدُو کے گھر سی ہے غُربت کدہ پہ بھی !
نیّت ، اے جانِ بزم! بتا کِس طرف کی ہے
احساس و عقل سے جو تِری بالا تر ہے تو
"مٹّی اُڑا کے دیکھ ہَوا کِس...
غزل
آہ و فریاد سے معمُور چمن ہے ،کہ جو تھا
مائلِ جَور ، وہی چرخ ِکُہن ہے، کہ جو تھا
حُسن پابندیٔ آدابِ جَفا پر مجبُور
عِشق ، آوارہ سَر ِکوہ و دَمن ہے،کہ جو تھا
لاکھ بدلا سہی منصوُر کا آئینِ حیات !
آج بھی سِلسِلۂ دار و رَسن ہے، کہ جو تھا
ڈر کے چونک اُٹھتی ہیں خوابوں سے نَویلی کلیاں
خندۂ گُل...
غزل
تاثیر پسِ مرگ دِکھائی ہے وفا نے
جو مجھ پہ ہنسا کرتے تھے، روتے ہیں سرہانے
کیا کہہ دیا چُپ کے سے، نہ معلوُم قضا نے
کروَٹ بھی نہ بدلی تِرے بیمارِ جفا نے
ہستی مِری، کیا جاؤں مَیں اُس بُت کو منانے
وہ ضِد پہ جو آئے تو فَرِشتوں کی نہ مانے
اَوراقِ گُلِ تر، جو کبھی کھولے صبا نے
تحرِیر تھے...
غزل.
مُمکن ہے اِلتجا میں ہماری اثر نہ ہو
ایسا نہیں کہ اُس کو ہماری خبر نہ ہو
خاک ایسی زندگی پہ کہ جس میں وہ بُت، مِرے
خواب و خیال میں بھی اگر جلوہ گر نہ ہو
وہ حُسن ہے سوار کُچھ ایسا حواس پر!
خود سے توکیا، اب اوروں سے ذکرِ دِگر نہ ہو
ہو پیش رفت خاک، مُلاقات پر ہی جب!
کھٹکا رہے یہ دِل میں...
غزل
ہمارے ہاتھ تھے سُورج نئے جہانوں کے
سو اب زمِینوں کے ہم ہیں، نہ آسمانوں کے
ہزار گِرد لگا لیں قد آور آئینے
حَسب نَسب بھی تو ہوتے ہیں خاندانوں کے
حرُوف بِیں تو سبھی ہیں، مگر کِسے یہ شعوُر
کِتاب پڑھتی ہے چہرے، کِتاب خوانوں کے
یہ کیا ضرُور کہ ناموں کے ہم مِزاج ہوں لوگ
بہار اور خِزاں نام...
غزل
راہ دُشوار جس قدر ہوگی
جُستُجو اور مُعتبر ہوگی
آدمی آدمی پہ ہنستا ہے
اور کیا ذِلَّتِ بشر ہوگی
پتّھروں پر بھی حرف آئے گا
جب کوئی شاخ بے ثمر ہوگی
جاگ کر بھی نہ لوگ جاگیں گے
زندگی خواب میں بسر ہوگی
حُسن بڑھ جائےگا تکلّم کا
جس قدر بات مُختصر ہوگی
اعجاز رحمانی
غزل
بے اعتناعی کی بڑھتی ہُوئی سی یہ تابی
کہیں نہ جھونک دے ہم کو بجنگِ اعصابی
گئی نظر سے نہ رُخ کی تِری وہ مہتابی
لیے ہُوں وصل کی دِل میں وہ اب بھی بیتابی
مَیں پُھول بن کے اگر بُت سے اِک لِپٹ بھی گیا
زیادہ دِن تو میّسر رہی نہ شادابی
مِری نمُود و نمائش ہے خاک ہی سے ، مگر
سکُھا کے خاک...
غزل
نہیں کہ پیار ، محبّت میں کاربند نہیں
بس اُس کی باتوں میں پہلے جو تھی وہ قند نہیں
نظر میں میری ہو خاطر سے کیوں گزند نہیں
خیال و فکر تک اُس کے ذرا بُلند نہیں
کب اپنے خواب و تمنّا میں کامیاب رہے
ہم ایک وہ جو کسی مد میں بہرہ مند نہیں
تمام زیور و پازیب ہم دِلا تو چکے!
ملال پِھر بھی ،کہ...
غزل
(فراق گورکھپوری)
زندگی درد کی کہانی ہے
چشمِ انجم میں بھی تو پانی ہے
بے نیازانہ سن لیا غمِ دل
مہربانی ہے مہربانی ہے
وہ بھلا میری بات کیا مانے
اس نے اپنی بھی بات مانی ہے
شعلۂ دل ہے یہ کہ شعلہ ساز
یا ترا شعلۂ جوانی ہے
وہ کبھی رنگ وہ کبھی خوشبو
گاہ گل گاہ رات رانی ہے
بن کے معصوم...
غزل
نشہ ہے، جہل ہے، شر ہے، اِجارہ داری ہے
ہماری جنگ، کئی مورچوں پہ جاری ہے
سَمیٹ رکّھا ہے جس نے تعیش دُنیا کے
سُکونِ دِل کا تو ، وہ شخص بھی بِھکاری ہے
یہ پُوچھنے کا تو حق ہے سب اہلِ خِدمت کو!
ہمارے دُکھ ہیں، خوشی کیوں نہیں ہماری ہے
اُس اِنتظار کا اب موت تو نہیں ہے جواز
جس اِنتظار میں، اِک...
غزل
رنگ و رَس کی ہَوَس اور بس
مسئلہ دسترس اور بس
یُوں بُنی ہیں رَگیں جِسم کی
ایک نس، ٹس سے مس اور بس
سب تماشائے کُن ختم شُد
کہہ دیا اُس نے بس اور بس
کیا ہے مابینِ صیّاد و صید
ایک چاکِ قفس اور بس
اُس مصوّر کا ہر شاہکار
ساٹھ پینسٹھ برس اور بس
عمار اقبال
کراچی، پاکستان
غزل
میرے ہر وصل کے دَوران مجھے گُھورتا ہے
اِک نئے ہجر کا اِمکان مجھے گُھورتا ہے
میرے ہاتھوں سے ہیں وابستہ اُمیدیں اُس کی
پُھول گرتے ہیں تو، گُلدان مجھے گُھورتا ہے
آئینے میں تو کوئی اور تماشہ ہی نہیں !
میرے جیسا کوئی اِنسان مجھے گُھورتا ہے
اب تو یُوں ہے کہ گُھٹن بھی نہیں ہوتی مجھ کو
اب...
غزل
تابِ لب حوصلہ وَروں سے گئی
خُوئے پُرسِش بھی، خود سروں سے گئی
کب سے لو تھی شُعاع ِ مہر اُترے
آخر اِک جُوئے خُوں سروں سے گئی
بنی ایذا ہی چارۂ ایذا
زخم کی آگ نشتروں سے گئی
شرمِ مِنقار، تشنگی کیا تھی
تشنگی وہ تھی جو پروں سے گئی
چھاؤں کیا دی نئی فصیلوں نے!
آشنا دُھوپ بھی گھروں سے گئی...
غزل
آئیں اگر وہ یاد تو مرتے نہیں ہیں ہم
حالت خراب دِل کی گو کرتے کہیں ہیں کم
دِل خُون ہے اگرچہ شب و روز ہجر میں
آنکھوں کو اپنی شرم سے کرتے نہیں ہیں نم
ایسا بُجھادِیا ہَمَیں فُرقت کی دُھوپ نے
کوشِش رہے ہزار نِکھرتے کہیں ہیں ہم
اِک پَل نہ ہوں گوارہ کسی طور یُوں ہَمَیں
دِل پر سوار ہو کے...
غزل
جُھوٹے اِقرار سے اِنکار اچھّا
تم سے تو مَیں ہی گُنہگار اچھّا
حبس چَھٹ جائے، دِیا جلتا رَہے!
گھر بس اِتنا ہی ہَوا دار اچھّا
عجز خواری ہے ، نہ ظاہر داری
عجز کو چاہئے معیار اچھّا
یہ عمارت ہے اِسی واسطے خُوب
اِس عمارت کا تھا معمار اچھّا
اب بھی اِک خدمتِ شہ خصلت میں!
شام کو جمتا ہے...