غزلِ
اِک جو لے دے کے ہمیں شیوۂ یاری آیا
وہ بھی کُچھ کام نہ خِدمت میں تمھاری آیا
اُن کے آگے لبِ فریاد بھی گویا نہ ہُوئے
چُپ رہے ہم، جو دَمِ شِکوہ گُزاری آیا
آرزُو حال جو اپنا اُنھیں لِکھنے بیٹھی
قلمِ شوق پہ نامہ نِگاری آیا
واں سے ناکام پِھرے ہم تو دَرِ یاس تلک
خونِ حرماں دلِ مجرُوح...
غزلِ
یہ حادثہ بھی تو کُچھ کم نہ تھا صبا کے لِیے
گُلوں نے کِس لِیے بوسے تِری قبا کے لِیے
وہاں زمِین پہ اُن کا قدم نہیں پڑتا
یہاں ترستے ہیں ہم لوگ نقش پا کے لِیے
تم اپنی زُلف بکھیرو، کہ آسماں کو بھی !
بہانہ چاہیے محشر کے اِلتوا کے لِیے
یہ کِس نے پیار کی شمعوں کو بَد دُعا دی ہے
اُجاڑ...
غزلِ
پُھونک ڈالے تپشِ غم تو بُرا بھی کیا ہے
چند یادوں کے سِوا دِل میں رہا بھی کیا ہے
بے نوا ہوگا نہ اِس شہر میں ہم سا کوئی
زندگی تجھ سے مگر ہم کو گِلہ بھی کیا ہے
کہِیں اِک آہ میں افسانے بَیاں ہوتے ہیں ؟
ہم نے اُس دشمنِ ارماں سے کہا بھی کیا ہے
کیا کرے، تھک کے اگر بیٹھ نہ جائے دِلِ زار...
غزلِ
بِچھڑا ہے جو اِک بار، تو مِلتے نہیں دیکھا
اِس زخم کو ہم نے کبھی سِلتے نہیں دیکھا
اِک بار جسے چاٹ گئی دُھوپ کی خواہش
پھر شاخ پہ اُس پھول کو کِھلتے نہیں دیکھا
یک لخت گِرا ہے، تو جڑیں تک نِکل آئیں
جس پیڑ کو آندھی میں بھی ہلتے نہیں دیکھا
کانٹوں میں گِھرے پُھول کو چُوم آئے گی، لیکن...
غزلِ
خُمار بارہ بنْکوی
دِل کو تسکینِ یار لے ڈوبی
اِس چمَن کو بہار لے ڈوبی
اشک تو پی گئے ہم اُن کے حضُور
آہِ بے اختیار لے ڈوبی
عِشق کے کاروبار کو اکثر
گرمئِ کاروبار لے ڈوبی
حالِ غم اُن سے بار بار کہا
اور ہنسی بار بار لے ڈوبی
تیرے ہر مشورے کو اے ناصح
آج پھر یادِ یار لے ڈوبی...
غزلِ
شفیق خلش
مِلنے کی آس میں یُوں کہِیں کے نہیں رہے
جس جس جگہ اُمید تھی، جا جا وہیں رہے
جوحال پُوچھنے پہ نہ کم چِیں جَبیں رہے
تھکتے نہیں یہ کہہ کے، مِرے ہمنشیں رہے
قابل ہم اُن کے ہجْر میں غم کے نہیں رہے
خود غم اب اُن کا دیکھ کے ہم کو حزیں رہے
زرخیزئ شباب سے پُہنچیں نہ عرش پر
زیرِ...
غزلِ
ناصر کاظمی
کہیں اُجڑی اُجڑی سی منزِلیں، کہیں ٹُوٹے پُھوٹے سے بام و در
یہ وہی دِیار ہے دوستو! جہاں لوگ پِھرتے تھے رات بھر
میں بھٹکتا پِھرتا ہُوں دیر سے ، یونہی شہر شہر، نگر نگر
کہاں کھو گیا مِرا قافلہ، کہاں رہ گئے مِرے ہمسفر
جنھیں زندگی کا شعُور تھا انھیں بے زری نے بِچھا دِیا
جو گراں...
غزلِ
شفیق خلش
اِظہارِ محبّت پہ جو انجانے ہُوئے ہیں
کہتے ہیں مجھے سب سے کہ، دِیوانے ہُوئے ہیں
ہر شخص لئے آتا ہے مضمون نیا اِک
کیا دِل کی کہی بات پہ افسانے ہوئے ہیں
سوچیں تو تحمّل سے ذرا بیٹھ کے لمحہ
کیوں عرضِ تمنّا پہ یُوں بیگانے ہُوئے ہیں
سمجھیں نہیں احباب قیامت سے نہیں کم
اب...
غزلِ
نالۂ غم، شُعلہ اثر چاہیے
چاکِ دِل اب تا بہ جگر چاہیے
کِتنے مہ و نجْم ہُوئے نذرِ شب
اے غمِ دِل اب تو سَحر چاہیے
یُوں تو نہ ہوگا کبھی دِیدارِ دوست
اب تو کوئی راہِ دِگر چاہیے
منزِلیں ہیں زیرِ کفِ پا، مگر
ایک ذرا عزمِ سفر چاہیے
تشنگئ لب کا تقاضہ ہے اب
بادہ ہو یا زہر مگر چاہیے...
غزلِ
حفیظ جالندھری
جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہُوں
وہیں ڈوبا ہُوا پایا گیا ہُوں
بہ حالِ گُمرہی پایا گیا ہُوں
حرَم سے دیر میں لایا گیا ہُوں
بَلا کافی نہ تھی اِک زندگی کی
دوبارہ یاد فرمایا گیا ہُوں
بَرنگِ لالۂ وِیرانہ بیکار
کِھلایا اور مُرجھایا گیا ہُوں
اگرچہ ابرِ گوہر بار ہُوں میں
مگر آنکھوں...
غزلِ
فِراق گورکھپُوری
لُطف نہیں کرَم نہیں
جور نہیں سِتم نہیں
اب نہیں رُوئے مہ چَکاں
گیسُوئے خم بہ خم نہیں
برسرِ عالمِ وجُود
کون سی شے عدم نہیں
یُوں ہی نِکل گئی اِک آہ
رنج نہیں، الَم نہیں
قائلِ حُسنِ دِلفریب
آپ نہیں کہ ہم نہیں
میں تِرا موردِ عتاب
اِس سے بڑا کرَم نہیں...
غزلِ
شفیق خلش
رحم و کرم پہ یاد کی ٹھہری قضا ہے آج
اِک کیفیت خیال سے طاری جُدا ہے آج
مانوس جس سے میں نہیں ایسی فضا ہے آج
کانوں میں پڑ رہی مِرے سب کی دُعا ہے آج
ہر درد و غم سے ہجر کا صدمہ جُڑا ہے آج
پیکِ اجَل لے جان، کہ مجھ پر سَوا ہے آج
نو خیزئ شباب سے وابستہ جو رہا
محکم نہ ہو یقین کہ،...
غزلِ
شفیق خلش
ذرا نہ ڈھلنے پہ راضی وہ تیرے فرق کی رات
جو ایک رات بھی ہو کر تھی بے حساب سی رات
تمھارے ہجر میں ٹھہری تھی مجھ پہ جیسی رات
کسی نے دہر میں دیکھی نہ ہو گی ویسی رات
عذاب اِک ایسا، نہ وعدے پہ تیرا آنا تھا
جِئے مَرے تھے کئی بار جس میں رات کی رات
اذیّتوں کا نہ جس سے کوئی شُمار...
غزلِ
فِراق گورکھپُوری
یہ شوخئ نِگاہ کسی پر عیاں نہیں !
تاثیرِ دردِ عِشق، کہاں ہے کہاں نہیں
عِشق اِس طرح مِٹا کہ عَدم تک نِشاں نہیں
آ سامنے، کہ میں بھی تو اب درمیاں نہیں
مُجھ کو بھی اپنے حال کا وہْم و گُماں نہیں
تم راز داں نہیں تو کوئی راز داں نہیں
صیّاد اِس طرح تو فریبِ سُکوں نہ دے
اِس...
غزلِ
فراق گورکھپوری
اُداسی، بے دِلی، آشفتہ حالی میں کمی کب تھی
ہماری زندگی! یارو ہماری زندگی کب تھی
علائق سے ہُوں بیگانہ ولیکن اے دلِ غمگِیں
تجھے کچھ یاد تو ہوگا، کسی سے دوستی کب تھی
حیاتِ چند روزہ بھی، حیاتِ جاوِداں نِکلی !
جو کام آئی جہاں کے، وہ متاعِ عارضی کب تھی
یہ دُنیا، کوئی پلٹا...
غزلِ
شفیق خلش
زندہ نہیں ہیں جوہر و انوار بیچ کر
اپنا قلم، نہ اپنے ہم اشعار بیچ کر
پُہنچے خود اپنے فکر و تدبّر سے ہیں یہاں
پردیس ہم نہ آئے ہیں گھربار بیچ کر
جاں کی سلامتی سے مقدّم ہے کوئی چیز
پردیس سب سِدھارے ہیں گھر یار بیچ کر
املاک کے فروخت کی مُہلت نہ تھی جنہیں
بیٹھیں ہیں مِلکیّت...
غزلِ
شفیق خلش
آئے ذرا نہ اُٹھ کے وہ بیمار کی طرف
بیٹھے رہے تھے منہ کئے دیوار کی طرف
کھاتے نہ کیوں شکست بَھلا ہم خوشی کے ساتھ
جب فیصلہ تھا اُن کا بھی اغیار کی طرف
اِک عُمر دِل میں وصل کی اُمّید ہم لئے
پیغام بھیجتے رہے سرکار کی طرف
فُرقت میں اور ٹُوٹ کے اُن کا رہا خیال
جاتا کہاں سے ذہن...
غزلِ
حفیظ جالندھری
مِل جائے مے، تو سجدۂ شُکرانہ چاہیے
پیتے ہی ایک لغزشِ مستانہ چاہیے
ہاں احترامِ کعبہ و بُتخانہ چاہیے
مذہب کی پُوچھیے تو جُداگانہ چاہیے
رِندانِ مے پَرست سِیہ مَست ہی سہی
اے شیخ گفتگوُ تو شریفانہ چاہیے
دِیوانگی ہے، عقل نہیں ہے کہ خام ہو
دِیوانہ ہر لحاظ سے، دِیوانہ...
غزلِ
فِراق گورکھپُوری
آج بھی قافلۂ عِشق رَواں ہے کہ جو تھا
وہی مِیل اور وہی سنگِ نِشاں ہے کہ جو تھا
آج بھی عِشق لُٹاتا دل و جاں ہے کہ جو تھا
آج بھی حُسن وہی جِنسِ گراں ہے کہ جو تھا
منزلیں گرد کے مانند اُڑی جاتی ہیں
وہی اندازِ جہانِ گُزراں ہے کہ جو تھا
منزلیں عِشق کی تا حدِ نظر سُونی ہیں...
غزلِ
شفیق خلش
کب اُن کو اپنا عمَل اِک بھی ظالمانہ لگے
کہوں جو حق کی اگر میں، تو باغیانہ لگے
فضائے عِشق و محبّت جسے مِلا نہ کبھی
یہ دِل اِک ایسے پرندے کا آشیانہ لگے
مطیع بن کے ہمیشہ رہے تھے، جس کا یہاں
عذاب ہم پہ سب اُس کا ہی شاخسانہ لگے
کہُوں یہ کیسے کہ اُن کے بغیر رہ نہ سَکوُں
اُنھیں تو...