غزلِ
شفیق خلش
سُنائی جو نہیں دیتی فُغاں، نظر آئے
ہو کورچشم کوئی تو کہاں نظر آئے
رَوا قدم ہے ہر اِک اُس پہ اِنتہائی بھی !
مگر یہ تب، کہ ہمیں رازداں نظر آئے
چمن سے تب ہی گُل و برگ کی اُمید بندھے
جو حاکموں میں کوئی باغباں نظر آئے
زمیں کے رحم و کرم پر ہی اِنحصار یہ کیوں
ذرا ہمیں بھی کہیں...
غزلِ
سیّد فخرالدّین بلے
ہے آب آب موج بِپھرنے کے باوجُود
دُنیا سِمٹ رہی ہے بِکھیرنے کے باوجُود
راہِ فنا پہ لوگ سدا گامزن رہے
ہر ہر نفَس پہ موت سے ڈرنے کے باوجُود
اِس بحرِ کائِنات میں ہر کشتیِ انا
غرقاب ہوگئی ہے اُبھرنے کے باوجُود
شاید پڑی ہے رات بھی سارے چمن پہ اوس
بھیگے ہُوئے ہیں...
غزلِ
احمد ندیم قاسمی
شبِ فِراق جب مژدۂ سَحر آیا
تو اِک زمانہ تِرا مُنتظر نظر آیا
تمام عُمر کی صحرا نوَردِیوں کے بعد
تِرا مقام سرِ گردِ رہگُزر آیا
یہ کون آبلہ پا اِس طرف سے گُذرا ہے
نقُوش پا میں جو پُھولوں کے رنگ بھر آیا
کِسے مجال، کہ نظّارۂ جمال کرے
اِس انجُمن میں جو آیا، بَچشمِ تر آیا...
غزلِ
حفیظ جالندھری
عِشق نے حُسن کی بیداد پہ رونا چاہا
تُخمِ احساسِ وفا سنگ میں بونا چاہا
آنے والے کسی طوُفان کا رونا رو کر
نا خُدا نے مجھے ساحِل پہ ڈبونا چاہا
سنگ دِل کیوں نہ کہیں بُتکدے والے مجھ کو
میں نے پتّھر کا پرِستار نہ ہونا چاہا
حضرتِ شیخ نہ سمجھے مِرے دِل کی قیمت
لے کے تسبِیح...
غزلِ
شفیق خلش
تھے دِل کے کبھی اور ابھی اور طلب ہیں
حالات اب اِس دل کے بہت غور طلب ہیں
آساں نہیں کُچھ، ضعف میں اُلفت سے کنارہ
اعمال سب اِس مد میں بہت زور طلب ہیں
آسودۂ اعصاب ہیں کب عِشق میں اُن کے
سمجھیں جوخموشی سے کہ ہم جور طلب ہیں
کچھ شرطِ وفا ضبط و خموشی سے ہے منسوب
کچھ نالے رسائی...
غزلِ
شفیق خلِش
کٹی زیست جس کی ساری تِرا اعتبار کرتے
ہُوا جاں بَلب بلآخر تِرا انتظار کرتے
یہ میں سوچتا ہُوں اکثر کہ اگر وہ مِل بھی جاتے
وہی کج ادائیوں سے مجھے بے قرار کرتے
بَپا حشر کیا نہ ہوتا، جو وہ چھوڑ کر ہر اِک کو
کبھی رسم و راہ مجھ سے اگر اُستوار کرتے
اِسی ڈر میں مُبتلا ہُوں، کہ...
غزلِ
قمر جمیل
دشتِ جنُوں میں دامن گُل کو لانے کی تدبیر کریں
نرم ہَوا کے جھونکو آؤ موسم کو زنجیر کریں
موسمِ ابروباد سے پُوچھیں لذّتِ سوزاں کا مفہُوم
موجۂ خُوں سے دامنِ گُل پر حرفِ جنُوں تحریر کریں
آمدِ گُل کا وِیرانی بھی دیکھ رہی ہے کیا کیا خواب
وِیرانی کے خواب کو آؤ وحشت سے تعبیر کریں...
غزلِ
شفیق خلش
رہے پیش سب ہی وعدے مجھے زندگی میں کل کے
بُجھی زیست میری جن میں بڑی بے کلی سے جل کے
یوں گنوادی عُمر ساری کیے وعدوں پر بہل کے
نہیں خواب تک سلامت وہ خوشی سے پُر محل کے
رہے رنج مجھ کو یُوں بھی، کہ نہ ہمسفر تھے پل کے
وہ جُدا ہوئے ہیں مجھ سے، بڑی دُور ساتھ چل کے
گِریں فُرقِ...
غزلِ
شفیق خلش
ہم پہ اُفتاد، فلک تیرے اگر کم نہ رہے
تو سمجھ لینا کہ کچھ روز ہی میں ہم نہ رہے
ظاہر اِس چہرے پہ کُچھ درد، کوئی غم نہ رہے
مکر میں ماہر اب ایسا بھی کبھی ہم نہ رہے
کرب سینے کا اُمڈ آئے نہ آنکھوں میں کبھی
خوگر آلام کے اِتنے بھی ابھی ہم نہ رہے
کب وہ عالم نہ رہا دیس سا پردیس...
غزلِ
مجید امجد
اب کے تمھارے دیس کا یہ روپ نیارا تھا
بِکھرا ہُوا ہَواؤں میں سایا تمھارا تھا
گُم سُم کھڑے ہیں اُونچی فصِیلوں کے کنکرے
کوئی صدا نہیں! مجھے کِس نے پُکارا تھا
رات آسماں پہ چاند کی منڈلی میں کون تھا
تم تھے کہ اِک سِتار بجاتا سِتارہ تھا
اُن دُورِیوں میں قُرب کا جادُو عذاب تھا...
غزل
ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد
شمع کی طرح شبِ غم میں پِگھلتے رہیے
صُبح ہو جائے گی جلتے ہیں تو جلتے رہیے
وقت چلتا ہے اُڑاتا ہُوا لمحات کی گرد
پیرہن فکر کا ہے، روز بدلتے رہیے
آئینہ سامنے آئے گا تو سچ بولے گا
آپ چہرے جو بدلتے ہیں، بدلتے رہیے
آئی منزِل تو قدم آپ ہی رُک جائیں گے
زِیست کو...
غزلِ
شفیق خلش
غرض کسے کہ یہ سر تاجدار ہو کہ نہ ہو
کریں گے اُن سے، اُنھیں ہم سے پیار ہو کہ نہ ہو
مچلتے رہنے کی عادت بُری ہے دِل کو مِرے
ہر اچھّی چیز پہ، کچھ اِختیار ہو کہ نہ ہو
ذرا یہ فکرمحبّت میں تیری، دل کو نہیں
عنایتوں سے تِری زیربار ہو کہ نہ ہو
ہم اُن کو اپنی دِلی کیفیت بتا ہی نہ دیں...
غزلِ
شفیق خلش
اِک عجیب موڑ پہ زندگی سرِ راہِ عِشق کھڑی رہی
نہ مِلا کبھی کوئی رّدِ غم ، نہ ہی لب پہ آ کے ہنسی رہی
کبھی خلوتوں میں بھی روز و شب تِری بزم جیسے سجی رہی
کبھی یوں ہُوا کہ ہجوم میں، مجھے پیش بے نفری رہی
سبھی مُشکلیں بھی عجیب تھیں رہِ وصل آ جو ڈٹی رہِیں
نہ نظر میں اِک، نہ...
غزلِ
شفیق خلِش
اک نہ چہرہ بجُز اُس شکل کے بھایا دِل کو
وہ کڑی دُھوپ میں رحمت کا ہے سایا دِل کو
جتنا جتنا بھی مُصیبت سے بچایا دِل کو
اُتنا اُتنا ہی مُصیبت میں ہے پایا دِل کو
اِس نہج، اُس سے مِرا عِشق ہے لایا دِل کو
جب تصوّر رہا، مجذُوب سا پایا دِل کو
غم سے مدہوشی پہ بہلا کے جو لایا دِل کو...
غزلِ
شفیق خلش
جب تعلّق نہ آشیاں سے رہے
کچھ نہ شِکوے بھی آسماں سے رہے
پَل کی فرقت نہ ہو گوارا جسے
دُور کیسے وہ دِل بُتاں سے رہے
سوچتے ہیں اب اُن حسینوں کو
جن کی قربت میں شادماں سے رہے
اُس کی یادوں نے کی پذیرائی
درد دِل میں جو بےکراں سے رہے
دُوریاں اُس پہ اِک قیامت ہیں
دِل جو...
غزلِ
شفیق خلش
ہے شرف حاصل وطن ہونے کا جس کو شاد کا
تھا یگانہ بھی تو شاعر اُس عظیم آباد کا
طرز اپنایا سُخن میں جب بھی میں نے شاد کا
میرے شعروں پر گمُاں ٹھہرا کسی اُستاد کا
یا الہیٰ ! شعر میں ایسی فصاحت دے، کہ میں
نام روشن کرسکوُں اپنے سبھی اجداد کا
دِل بدل ڈالا ہے اپنا اُس نے پتّھر...
غزلِ
شفیق خلش
سہنے کی حد سے ظلم زیادہ کیے ہُوئے
پردہ ہے، مارنے کا اِرادہ کیے ہُوئے
بیتی جو مہوشوں سے اِفادہ کیے ہُوئے
گزُرے وہ زندگی کہاں سادہ کیے ہُوئے
کیوں نااُمیدی آس پہ غالب ہو اب، کہ جب !
اِک عُمر گزُری اِس کو ہی جادہ کیے ہُوئے
کردی ہے اِنتظار نے ابتر ہی زندگی
اُمّیدِ وصل اِس کا...
غزلِ
شفیق خلش
کسی بھی کام میں اب دِل مِرا ذرا نہ لگے
کسی کی شکل اب اچھّی تِرے سِوا نہ لگے
نِگاہِ ناز نے جانے کِیا ہے کیا جادُو
کہ کوئی کام نہ ہونے پہ بھی رُکا نہ لگے
رہے ملال، جو ضائع ہو ایک لمحہ بھی
تِرے خیال میں گُزرے جو دِن، بُرا نہ لگے
خرامِ ناز ہے اُس کا، کہ جُھومنا گُل کا...
غزلِ
شفیق خَلِش
اِس کا نہیں ملال، کہ سونے نہیں دِیا
تنہا تِرے خیال نے ہونے نہیں دِیا
پیش آئے اجنبی کی طرح ہم سے جب بھی وہ
کچھ ضبط، کچھ لحاظ نے رونے نہیں دِیا
چاہا نئے سِرے سے کریں زندگی شروع
یہ تیرے اِنتظار نے ہونے نہیں دِیا
طاری ہے زندگی پہ مِری مستقل ہی رات
دِن تیرے ہجر نے کبھی...