پروین شاکر

  1. طارق شاہ

    پروین شاکر ::::: بِچھڑا ہے جو اِک بار، تو مِلتے نہیں دیکھا ::::: Parveen Shakir

    غزلِ بِچھڑا ہے جو اِک بار، تو مِلتے نہیں دیکھا اِس زخم کو ہم نے کبھی سِلتے نہیں دیکھا اِک بار جسے چاٹ گئی دُھوپ کی خواہش پھر شاخ پہ اُس پھول کو کِھلتے نہیں دیکھا یک لخت گِرا ہے، تو جڑیں تک نِکل آئیں جس پیڑ کو آندھی میں بھی ہلتے نہیں دیکھا کانٹوں میں گِھرے پُھول کو چُوم آئے گی، لیکن...
  2. طارق شاہ

    پروین شاکر ::::: میں ہجر کے عذاب سے انجان بھی نہ تھی ::::: Parveen Shakir

    غزلِ پروین شاکر میں ہجر کے عذاب سے انجان بھی نہ تھی پر کیا ہُوا کہ صبح تلک جان بھی نہ تھی آنے میں گھر مِرے، تجھے جتنی جھجک رہی اس درجہ تو میں بے سرو سامان بھی نہ تھی اِتنا سمجھ چُکی تھی میں اُس کے مِزاج کو وہ جا رہا تھا اور میں حیران بھی نہ تھی آراستہ تو خیر نہ تھی زندگی کبھی پر تجھ سے...
  3. ماروا ضیا

    پروین شاکر ایران - پروین شاکر از صد برگ

    ایران اک الو، اک ریچھ اور اک ہاتھی شطرنج کے رسیا تھے آپس میں جانی دُشمن تھے لیکن اپنے شوق کے آگے بے بس تھے ایک ہی میز پہ بیٹھ کے پہروں کھیلتے تھے کبھی کبھی کوئی لومڑ، کوئی گدھا یا کوئی عقاب بھی مہرے بدلنے میں ان کی حسبِ حکم مدد کر دیتا تھا کبھی بے چاری فاختہ تک پیادوں کے ساتھ پِس جاتی چھوٹی...
  4. طارق شاہ

    پروین شاکر :::: یاد کیا آئیں گے وہ لوگ جو آئے نہ گئے :::: Parveen Shakir

    غزلِ پروین شاکر یاد کیا آئیں گے وہ لوگ جو آئے نہ گئے کیا پذیرائی ہو اُن کی جو بُلائے نہ گئے اب وہ نیندوں کا اُجڑنا تو نہیں دیکھیں گے وہی اچھّے تھے جنھیں خواب دکھائے نہ گئے رات بھر میں نے کھُلی آنکھوں سے سپنا دیکھا رنگ وہ پھیلے کہ نیندوں سے چُرائے نہ گئے بارشیں رقص میں تھیں...
  5. طارق شاہ

    پروین شاکر :::: منظر ہے وہی ٹھٹک رہی ہُوں - Parveen Shakir

    پروین شاکر منظر ہے وہی ٹھٹک رہی ہُوں حیرت سے پلک جھپک رہی ہُوں یہ تُو ہے، کہ میرا واہمہ ہے! بند آنکھوں سے تجھ کو تک رہی ہُوں جیسے کہ ، کبھی نہ تھا تعارف یوں مِلتے ہوئے جِھجَک رہی ہُوں پہچان! میں تیری روشنی ہُوں اور تیری پلک پلک رہی ہُوں کیا چَین مِلا ہے، سر جو اُس کے شانوں پہ رکھے سِسک...
  6. طارق شاہ

    پروین شاکر :::: وہی پرند کہ کل گوشہ گیر ایسا تھا ۔۔ Parveen Shakir

    غزلِ پروین شاکر وہی پرند کہ کل گوشہ گیر ایسا تھا پلک جھپکتے، ہَوا میں لکیر ایسا تھا اُسے تو، دوست کے ہاتھوں کی سُوجھ بوجھ ، بھی تھا خطا نہ ہوتا کسی طور، تیر ایسا تھا پیام دینے کا موسم، نہ ہم نوا پاکر ! پلٹ گیا دبے پاؤں ، سفیر ایسا تھا کسی بھی شاخ کے پیچھے پناہ لیتی میں مجھے وہ توڑ ہی...
  7. عمراعظم

    پروین شاکر حرفِ تازہ نئی خوشبو میں لکھا چاہتا ہے۔

    حرفِ تازہ نئی خوشبو میں لکھا چاہتا ہے باب اک اور محبت کا کُھلاچاہتا ہے ایک لمحے کی توجہ نہیں حاصل اُس کی اور یہ دل کہ اُسے حد سے سوا چاہتا ہے اک حجابِ تہہِ اقرار ہے مانع ورنہ گُل کو معلوم ہے کیا دستِ صبا چاہتا ہے ریت ہی ریت ہے اِس دل میں مسافر میرے اور یہ صحرا تیرا نقشِ کفِ پا چاہتا ہے...
  8. عؔلی خان

    وہ تو خوشبو ہے، ہواؤں میں بکھر جائے گا - (بلقیس خانم)

    وہ تو خوشبو ہے، ہواؤں میں بکھر جائے گا مسئلہ پُھول کا ہے، پُھول کدھر جائے گا ہم تو سمجھے تھے کہ اِک زخم ہے، بھر جائے گا کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اُتر جائے گا وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے ایک جھونکا ہے جو آئے گا، گُزر جائے گا وہ جب آئے گا تو پھر اُس کی رفاقت کے لیے موسمِ گُل مرے آنگن...
  9. طارق شاہ

    پروین شاکر :::: آج ملبُوس میں ہے کیسی تھکن کی خوشبو

    غزلِ پروین شاکر آج ملبُوس میں ہے کیسی تھکن کی خوشبو رات بھرجاگی ہُوئی جیسے دُلھن کی خوشبو پیرہن میرا مگراُس کے بدن کی خوشبو اُس کی ترتیب ہے ایک ایک شِکن کی خوشبو موجۂ گُل کو ابھی اِذنِ تَکلّم نہ مِلے پاس آتی ہے کسی نرْم سُخن کی خوشبو قامتِ شعر کی زیبائی کا عالم مت پُوچھ مہْرباں جب...
  10. طارق شاہ

    پروین شاکر :::: گلاب ہاتھ میں ہو ، آنکھ میں سِتارہ ہو

    غزلِ پروین شاکر گلاب ہاتھ میں ہو ، آنکھ میں سِتارہ ہو کوئی وجودِ محبّت کا استعارہ ہو میں گہرے پانی کی اُس رو کے ساتھ بہتی رہُوں جزیرہ ہو کہ مُقابِل کوئی کنارہ ہو کبھی کبھار اُسے دیکھ لیں، کہیں مِل لیں یہ کب کہا تھا، کہ وہ خوش بدن ہمارا ہو قصور ہو تو ہمارے حساب لکھ جائے محبتوں میں...
  11. طارق شاہ

    پروین شاکر :::: کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا

    غزلِ پروین شاکر کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا زخم ہی یہ مجھے لگتا نہیں بھرنے والا زندگی سے کسی سمجھوتے کے باوصف اب تک یاد آتا ہے کوئی مارنے، مرنے والا اُس کو بھی ہم تیرے کُوچے میں گزار آئے ہیں زندگی میں وہ جو لمحہ تھا سنورنے والا اُس کا انداز سُخن سب سے جُدا تھا شاید بات...
  12. غزل قاضی

    پروین شاکر دِل کو مہر و مہ و انجم کے قریں رکھنا ہے

    دِل کو مہر و مہ و انجم کے قریں رکھنا ہے اِس مسافر کو مگر خاک نشیں رکھنا ہے سہہ لیا بوجھ بہت کوزہ و چوب و گِل کا اب یہ اسباب ِ سفر ہم کو کہیں رکھنا ہے ایک سیلاب سے ٹوٹا ہے ابھی ظلم کا بند ایک طوفاں کو ابھی زیر ِ زمیں رکھنا ہے رات ہر چند کہ سازش کی طرح ہے گہری صبح ہونے کا مگر دل میں...
  13. غزل قاضی

    پروین شاکر شہر ِ جمال کے خس و خاشاک ہوگئے

    شہر ِ جمال کے خس و خاشاک ہوگئے اب آئے ہو جب آگ سے ہم خاک ہوگئے ہم سے فروغ ِ خاک نہ زیبائی آب کی کائی کی طرح تہمت ِ پوشاک ہو گئے پیراہن ِ صبا تو کسی طور سِل گیا دامان ِ صد بہار مگر چاک ہو گئے اے ابر ِخاص! ہم پہ برسنے کا اَب خیال جل کر ترے فراق میں جَب راکھ ہو گئے قائم تھے اپنے عہد...
  14. مغزل

    پروین شاکر غزل: دل پہ اک طرفہ قیامت کرنا : پروین شاکر

    غزل دل پہ اک طرفہ قیامت کرنا مسکراتے ہوئے رخصت کرنا اچھی آنکھیں جو ملی ہیں اُس کو کچھ تو لازم ہوا وحشت کرنا جرم کس کا تھا سزا کس کو ملی کیا گئی بات پہ حجت کرنا کون چاہے گا تمھیں میری طرح اب کسی سے نہ محبّت کرنا گھر کا دروازہ کھلا رکھا ہے وقت مل جائے تو زحمت کرنا پروین شاکر فاتح...
  15. نیرنگ خیال

    پروین شاکر اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے

    اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے کون ہو گا جو مجھے اس کی طرح یاد کرے دل عجب شہر کہ جس پر بھی کھلا در اس کا وہ مسافر اسے ہر سمت سے برباد کرے اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں روز اِک موت نئے طرز کی ایجاد کرے اتنا حیراں ہو مری بے طلبی کے آگے واقفس میں کوئی در خود میرا صیاد کرے سلب بینائی...
  16. محسن وقار علی

    پروین شاکر کاش یہ لمحے ٹھہر جائیں ،ذرا

    سبز مدّھم روشنی میں سُرخ آنچل کی دھنک سرد کمرے میں مچلتی گرم سانسوں کی مہک بازوؤں کے سخت حلقے میں کوئی نازک بدن سلوٹیں ملبوس پر،آنچل بھی کُچھ ڈھلکا ہُوا گرمی رخسار سے دہکی ہُوئی ٹھنڈی ہوا نرم زُلفوں سے مُلائم اُنگلیوں کی چھیڑ چھاڑ سُرخ ہونٹوں پر شرارت کے کسی لمحے کا عکس ریشمیں باہوں میں...
  17. محسن وقار علی

    پروین شاکر آئینہ

    لڑکی سرکوجھُکائے بیٹھی کافی کے پیالے میں چمچہ ہلا رہی ہے لڑکا،حیرت اور محبت کی شدت سے پاگل لانبی پلکوں کے لرزیدہ سایوں کو اپنی آنکھ سے چُوم رہا ہے دونوں میری نظر بچا کر اک دُوجے کو دیکھتے ہیں ہنس دیتے ہیں ! میں دونوں سے دُور دریچے کے نزدیک اپنی ہتھیلی پر اپنا چہرہ رکھے کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھ...
  18. محسن وقار علی

    پروین شاکر نیند پلکوں کی جھالر کو چھُوتی ہوئی

    نیند پلکوں کی جھالر کو چھُوتی ہوئی اوس میں اپنا آنچل بھگو کے مرے دُکھتے ماتھے پہ رکھنے چلی ہے مگر__آنکھ اور ذہن کے درمیاں آج کی شب وہ کانٹے بچھے ہیں کہ نیندوں کے آہستہ رَو، پھول پاؤں بھی چلنے سے معذور ہیں ہر بُنِ مو میں اِک آنکھ اُگ آئی ہے جس کی پلکیں نکلنے سے پہلے کہیں جھڑ چکی ہیں اور...
  19. محسن وقار علی

    پروین شاکر رستہ ہی نیا ہے ، نہ میں انجان بہت ہوں

    رستہ ہی نیا ہے ، نہ میں انجان بہت ہوں پھر کوئے ملامت میں ہوں ، نادان بہت ہوں اک عمر جسے خواب کی مانند ہی دیکھا چُھونے کو ملا ہے تو پریشان بہت ہوں مُجھ میں کوئی آہٹ کی طرح سے کوئی آئے اک بند گلی کی طرح سنسان بہت ہوں دیکھا ہے گریز اُس نگاہِ سرد کا اتنا مائل بہ توجہّ ہے تو حیران بہت ہوں اُلجھیں گے...
  20. محسن وقار علی

    پروین شاکر بچے تھے آشیانوں میں، طوفان سر پہ تھا

    جو دھوپ میں رہا نہ روانہ سفر پہ تھا اس کے لئے کوئی اور عذاب گھر پہ تھا چکر لگا رہے تھے پرندے شجر کے گرد بچے تھے آشیانوں میں، طوفان سر پہ تھا جس گھر کے بیٹھ جانے کا دکھ ہے بہت ہمیں تاریخ کہہ رہی ہے کہ وہ بھی کھنڈر پہ تھا ہم یاد تو نہ آئیں گے لیکن بچھڑتے وقت تارہ سا اک خیال تری چشم تر پہ تھا...
Top