چراغ مانگتے رہنے کا کچھ سبب بھی نہیں
اندھیرا کیسے بتائیں کہ اب تو شب بھی نہیں
میں اپنے زعم میں اِک بازیافت پر خوش ہوں
یہ واقعہ ہے کہ مجھ کو ملا وہ اب بھی نہیں
جو میرے شعر میں مجھ سے زیادہ بولتا ہے
مَیں اُس کی بزم میں اِک حرفِ زیرلبِ بھی نہیں
اور اب تو زندگی کرنے کے سو طریقے ہیں
ہم اس کے...
آج کی شب تو کسی طور گُزر جائے گی
رات گہری ہے مگر چاند چمکتا ہے ابھی
میرے ماتھے پہ ترا پیار دمکتا ہے ابھی
میری سانسوں میں ترا لمس مہکتا ہے ابھی
میرے سینے میں ترا نام دھڑکتا ہے ابھی
زیست کرنے کو مرے پاس بہت کُچھ ہے ابھی
تیری آواز کا جادو ہے ابھی میرے لیے
تیرے ملبوس کی خوشبو ہے ابھی میرے لیے...
رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدّت بھی بہت تھی
سائے سے مگر اس کو محبت بھی بہت تھی
خیمے نہ کوئی میرے مسافر کے جلائے
زخمی تھا بہت پاؤں، مسافت بھی بہت تھی
وہ بھی سرِ مقتل ہے کہ سچ جس کا تھا شاہد
اور واقفِ احوال عدالت بھی بہت تھی
خوش آئے تجھے شہرِ منافق کی امیری
ہم لوگوں کو سچ کہنے کی عادت بھی بہت تھی
وحی
عجیب موسم تھا وه بھی، جبکہ
عبادتیں کور چشم تھیں
اور عقیدتیں اپنی ساری بینائی کھو چکی تھیں
خود اپنے ہاتھوں سے ترشے پتھر کو دیوتا کہہ کے
خیر و پرکت کئی نعمتیں لوگ مانگتے تھے!
مگر وه اک شخص
جو ابھی اپنے آپ پر بھی نہ منکشف تھا
عجیب الجھن مین مبتلا تھا
یہ وه نہیں ہیں، وه کون ہو گا کا کربِ بے نام...
چارہ گر ہار گیا ہو جیسے
اب تو مرنا ہی دوا ہو جیسے
مجھ سے بچھڑا تھا وہ پہلے ہی مگر
اب کے یہ زخم نیا ہو جیسے
میرے ماتھے پہ تیرے پیار کا ہاتھ
روح پر دست صبا ہو جیسے
یوں بہت ہنس کر ملا تھا لیکن
دل ہی دل میں وہ خفا ہو جیسے
سر چھپائیں تو بدن کھلتا ہے
زیست مفلس کی ردا ہو جیسے
اب بھلا چھوڑ کے گھر کیا کرتے
شام کے وقت سفر کیا کرتے
تیری مصروفیتیں جانتے ہیں
اپنے آنے کی خبر کیا کرتے
جب ستارے ہی نہیں مل پائے
لے کے ہم شمس و قمر کیا کرتے
وہ مسافر ہی کھلی دھوپ کا تھا
سائے پھیلا کے شجر کیا کرتے
خاک ہی اوّل و آخر ٹھہری
کر کے ذرّے کو گہر کیا کرتے
رائے پہلے سے بنا لی تو نے
دل...
غزلِ
پروین شاکر
پت جھڑ سے گِلہ ہے، نہ شکایت ہوا سے ہے
پھولوں کو کچھ عجیب محبّت ہوا سے ہے
سرشارئِ شگفتگئِ گُل کو ہے کیا خبر
منسُوب ایک اور حکایت ہوا سے ہے
رکھا ہے آندھیوں نے ہی، ہم کو کشِیدہ سر
ہم وہ چراغ ہیں جنہیں نِسبت ہوا سے ہے
اُس گھر میں تِیرَگی کے سِوا کیا رہے، جہاں
دل شمع پرہیں، اور...
دعا کا ٹوٹا ہوا حرف' سرد آہ میں ہے
تری جدائی کا منظر ابھی نگاہ میں ہے
ترے بدلنے کے با وصف تجھ کو چاہا ہے
یہ اعتراف بھی شامل مرے گناہ میں ہے
عذاب دیگا تو پھر مجھ کو خواب بھی دیگا
میں مطمئن ہوں مرا دل تری پناہ میں ہے
بکھر چکا ہے مگر مسکرا کے ملتا ہے
وہ رکھ رکھاؤ ابھی میرے کجکلاہ میں ہے
جسے...
(پروین شاکر کی غزل پچھلے کئی دنوں سے حواس پر طاری ہے ، سوچا آپ کو بھی شریک کروں ، مذکورہ غزل کا ایک شعر زبان زدِ عام ہے )
غزل
بارش ہوئی تو پھولوں کے تن چاک ہوگئے
موسم کے ہاتھ بھیگ کے سفاک ہوگئے
بادل کو کیا خبر ہے کہ بارش کی چاہ میں
کیسے بلند و بالا شجر خاک ہوگئے
جگنو کو دن کے وقت...
کوئی خوش لمس دستِ یاسمیں
(نصرت زہرا)
پروین جب اس دنیا سے رخصت ہوئی تو اسکی ذات کا سب سے خوبصورت اثبات محض پندرہ برس کاتھا اس نے ایک بار کہا تھا کہ وہ چاہتی ہے کہ مراد کو کامیاب انسان کے روپ میں دیکھے مگر اس کی یہ خواہش تشنہ رہ گئی اب جبکہ اسے دنیا سے کوچ کئے پندرہ برس گزر گئے ہیں...
مر بھی جاوں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے
لوگ تھرّا گئے جس وقت منادی آئی
آج پیغام نیا ظلّ الہی دیں گے
جھونکے کچھ ایسے تھپکتے ہیں گلوں کے رخسار
جیسے اس بار تو پت جھڑ سے بچا ہی دیں گے
۔۔۔۔۔ ق ۔۔۔۔۔
ہم وہ شب زاد کہ سورج کی عنایات میں بھی
اپنے بچوں کو...
موجہء گل کو ہم آواز نہیں کرسکتے
دن ترے نام سے آغاز نہیں کرسکتے
اس چمن زار میں ہم سبزہء بیگانہ سہی
آپ ہم کو نظر انداز نہیں کرسکتے
عشق کرنا ہے تو پھر سارا اثاثہ لائیں
اس میں تو کچھ بھی پس انداز نہیں کرسکتے
دکھ پہنچتا ہے بہت دل کو رویّے سے ترے
اور مداوا ترے الفاظ نہیں کرسکتے
عشق میں...
تقیّہ
سو اب یہ شرط حیات ٹہری
کہ شہر کے سب نجیب افراد
اپنے اپنےلہو کی حرمت سے منحرف ہوکے جینا سیکھیں،
وہ سب عقیدے کہ ان گھرانوں میں
ان کی آنکھوں کی رنگتوں کی طرح تسلسل سے چل رہے تھے
سنا ہے باطل قرار پائے،
وہ سب وفاداریاں کہ جن پہ لہو کے وعدے حلف ہوئے تھے
وہ آج سے مصلحت کی گھڑیاں شمار...
ربابِ زیست
(تحریرنصرت زہرہ)
شاہ جہاں بادشاہ کے دربار میں ایک شاعرِ بے بدل بادشاہ کو رموزِ شاعری کی تعلیم دیا کرتا تھا۔مگر کون جانتا تھا کہ اس کی نسلوں میں ایک ایسی کلی جنم لے گی ادب جس پر نازاں ہوگا،اب وقت ایک دربار ہے اور مسلسل ایک اٹھ جانے والی ہستی سے فیض پارہا ہے اب بھی وادیء مہران کے...
فرخ صاحب سے اس غزل کے اشعار پر گفتگو کے دوران اسے محفل پر ارسال کرنے کا بھی خیال آیا۔
بادباں کھُلنے سے پہلے کا اشارا دیکھنا
میں سمندر دیکھتی ہوں تم کنارا دیکھنا
یوں بچھڑنا بھی بہت آساں نہ تھا اُس سے مگر
جاتے جاتے اُس کا وہ مڑ کر دوبارہ دیکھنا
کس شباہت کو لیے آیا ہے دروازے پہ چاند
اے شبِ...
طاہرہ سید کی آواز میں پروین شاکر کی یہ خوبصورت غزل ہمارے ندیمِ خاص جناب فرخ منظور (سخنور) صاحب کی جستجو کی نذر;)
بادباں کھلنے سے پہلے کا اشارا دیکھنا
میں سمندر دیکھتی ہوں تم کنارا دیکھنا
یوں بچھڑنا بھی بہت آساں نہ تھا اس سے مگر
جاتے جاتے اس کا وہ مڑ کر دوبارہ دیکھنا
کس شباہت کو لیے آیا ہے...
پروین شاکر
چہرہ میرا تھا ، نگاہیں اُس کی
خامشی میں بھی وہ باتیں اُس کی
میرے چہرے پہ غزل لکھتی گئیں
شعر کہتی ہوئی آنکھیں اُس کی
شوخ لمحوں کا پتہ دینے لگیں
تیز ہوئی ہُوئی سانسیں اُس کی
ایسے موسم بھی گزارے ہم نے
صبحیں جب اپنی تھیں، شامیں اُس کی
دھیان میں اُس کے یہ عالم تھا کبھی
آنکھ...
اب کون سے موسم سے کوئی آس لگائے
برسات میں بھی یاد نہ جب اُن کو ہم آئے
مٹّی کی مہک سانس کی خوشبو میں اُتر کر
بھیگے ہوئے سبزے کی ترائی میں بُلائے
دریا کی طرح موج میں آئی ہُوئی برکھا
زردائی ہُوئی رُت کو ہرا رنگ پلائے
بوندوں کی چھما چھم سے بدن کانپ رہا ہے
اور مست ہوا رقص کی لَے تیز کیے جائے...
خوشی کی بات ہے یا دکھ کا منظر دیکھ سکتی ہوں،
تیری آواز کا چہرہ میں چھو کر دیکھ سکتی ہوں،
ابھی تیرے لبوں پہ ذکرِ فصلِ گل نہیں آیا،،
مگر اِک پھول کھلتے اپنے اندر دیکھ سکتی ہوں،
مجھے تیری محبت نے عجب اک روشنی بخشی،
میں اس دنیا کو اب پہلے سے بہتر دیکھ سکتی ہوں،
کنارہ ڈھونڈنے کی چاہ تک مجھ میں نہیں...
ظلم کے ہاتھوں اذیت میں ہے کسطرح حیات،،
ایسا لگتا ہے کہ اب حشر ہے کچھ دیر کی بات،
روز اک دوست کے مرنے کی خبر آتی ہے،،
روز اک قتل پہ جسطرح کہ مامور ہے رات،
خیمئہ غیر سے منگوائے ہوئے یہ مخبر،،
رن پڑے گا تو گھڑی بھر کو نہ دے پائیں گے ساتھ
کسطرح جان سکے طائرکِ نو آموز،،
کون ہے جال کشا،، کون لگائے...