غزل
شفیق خلؔش
ہُوں کِرن سُورج کی پہلی، اور کبھی سایا ہُوں میں
کیسی کیسی صُورتوں میں وقت کی آیا ہُوں میں
قُربِ محبُوباں میں اپنی نارَسائی کے سبب
گھیرکرساری اُداسی اپنے گھر لایا ہُوں میں
گو قرار آئے نہ میرے دِل کو اُن سے رُوٹھ کر
جب کہ مِلنے سے اِسی پر زخم کھا آیا ہُوں میں
بے سبب اُن سے...
غزل
شفیق خلؔش
رنجشوں کو دِل میں تم اپنے جگہ دینے لگے
غم ہی کیا کم تھے جو اَب یوں بھی سزا دینے لگے
خواہشیں دِل کی دبانےسے کہیں دبتی ہیں کیا
بُھول کرمیری وفاؤں کو جفا دینے لگے
یوں تمھاری یاد نے فُرقت کا عادی کردِیا
ہجرکےغم بھی بالآخر اب مزہ دینے لگے
کیا یہ تجدِیدِ محبّت ہی عِلاجِ دِل بھی...
غزل
شفیق خلؔش
گو ضرُورت پر تِری ، دَر پر جہاں موجُود تھا
چاہنے والا کوئی، ہم سا کہاں موجُود تھا
دِل کی حالت تھی نہ پنہاں، کُچھ عیاں موجُود تھا
جَل بُجھے عرصہ ہُوئے پر بھی دُھواں موجُود تھا
کیا نہ کُچھ میری سہُولت کو ، وہاں موجُود تھا
دِل دَھڑَکنے کا سَبَب لیکن کہاں موجُود تھا...
غزل
۔
ہو حشر صُبح لازم اگر شام کو نہیں
تھا رحم دِل میں لوگوں کے، اب نام کو نہیں
شُرفا کی سرزَنِش ہو تو، سب لوگ پیش پیش
پُو چھیں بُرے عمل پہ بھی بدنام کو نہیں
غافل ہُوئے ہیں سب ہی حقوق العباد سے
رُحجانِ قوم ،کیا زبُوں انجام کو نہیں؟
تحرِیر اُن پہ کیسے ہو بارآور آپ کی
دَیں اہمیت ذرا بھی...
غزل
کُچھ اِس سے بڑھ کےہوگا بَھلا کیا حَسِیں عِلاج
کرتے ہیں غم کا غم سے مِرے دِلنشیں عِلاج
پُر رحم دِل کے درد کا ہوگا نہیں عِلاج
رو رو کے پک رہے جو، ہو اُس کا کہِیں عِلاج
کِس کِس کی موت کا وہاں رونا رہے ، جہاں !
بالا زمِیں کے غم کا ہو زیرِ زمِیں عِلاج
انسانیت کا خون اُنہی سے ہے اب ہُوا...
غزل
اےشبِ عید اب بتا ، دِیدار پائیں کِس طرح
اپنی نظروں میں سُہانا چاند لائیں کِس طرح
اِک ہجومِ شہر ہے نظریں اُٹھائے تاک میں
وہ سرِبام اب اگر آئیں تو آئیں کِس طرح
باوجود اِس کے، کہ سب وعدے نہ کم تھے عہد سے
عید کے مِلنے پہ دیکھو تو ستائیں کِس طرح
رشک ہے حیرانگی سے اپنی قسمت پر ، کہ لوگ...
غزل
کب کہاں ہوتا نہیں اِنساں ،جہاں میں عام و خاص
جو حقیقت میں نہیں، تو ہے گُماں میں عام و خاص
وہ بھی منظر دیکھنے کا تھا ، گلی اور دِید کا
خاک پر بیٹھے رہے اکثر جہاں، میں، عام و خاص
ایک مُدّت تک رہا یہ شور ، وہ آنے کو ہیں
ایک مدّت، منتظر تھے سب وہاں ، میں، عام و خاص
ڈر بَھلا کب ذہن میں خدشے...
غزل
پیارے پاگل سے واسطہ سا لگے
پیار جس کو یہ، حادثہ سا لگے
ضبط ِغم ہی کا یہ صِلہ سا لگے
مُنہ میں اشکوں کا ذائقہ سا لگے
بدشگونی کا سلسلہ سا لگے
کچھ بھی کہیے، اُنھیں گِلہ سا لگے
جب بھی ناراضگی کا غلبہ ہو
دو قدم اُن کو فاصلہ سا لگے
راز وہ خاک راز رکھیں گے!
ہرعمل جن کا ، ناطقہ سا لگے
اب...
غزل
شفیق خلؔش
دُعا میں اب وہ اثر کا پتہ نہیں چلتا
کُچھ اِلتفاتِ نظر کا پتہ نہیں چلتا
اُتر کے خود سےسمندر میں دیکھنا ہوگا
کہ ساحلوں سے بھنور کا پتہ نہیں چلتا
خیالِ یار میں بیٹھے ہُوئے ہمَیں اکثر
گُزرتے شام و سَحر کا پتہ نہیں چلتا
نظر میں روزِ اوائل کا چاند ہو جیسے
نِگہ بغور کمر کا پتہ...
غزل
گوشہ آنکھوں کے درِیچوں میں جو نم سا ہوگا
دِل کی گہرائی میں رِستا ہوا غم سا ہوگا
یاد آئیں جو کبھی ڈُھونڈنا وِیرانوں میں
ہم نہ مل پائیں گے شاید کوئی ہم سا ہوگا
روئے گی صُبح ہمَیں، شام بھی مُضطر ہوگی
کچھ بھٹکتی ہُوئی راتوں کو بھی غم سا ہوگا
وقت کی دُھوپ تو جُھلسانے پہ آمادہ رہے
جاں...
غزل
موسمِ گُل مِرا، خوشیوں کا زمانہ وہ تھا
ہنس کے جینے کا، اگر تھا تو بہانہ وہ تھا
اِک عجب دَور جوانی کا کبھی یُوں بھی رہا
میں کہانی جو زبانوں پہ، فسانہ وہ تھا
اپنا کر لایا ہر اِک غم مَیں کہ جس پر تھوڑا
یہ گُماں تک بھی ہُوا اُس کا نشانہ وہ تھا
دِل عقیدت سے رہا اُس کی گلی میں، کہ اِسے
ایک...
غزل
خراشِ دل پہ جمائی تھی جو کمال کے ساتھ
وہ دُھول زخم کی صُورت ہٹی خیال کے ساتھ
تمام عمر کٹے کیوں نہ پھرملال کے ساتھ
جو فیصلے ہوں محبّت کےاشتعال کے ساتھ
مری حیات کو،جھونکے ہوئے بہار کے اب
وہ چند لمحے جو بیتے تھے خوش جمال کے ساتھ
سمجھ سکے نہ تعلق وہ، لاکھ سمجھایا
گو گفتگو رہی اُن...
غزل
شفیق خلش
اُن کی طرف سے جب سے پیغام سے گئے
اپنے اِرادے سارے انجام سے گئے
اُلفت میں خوش رُخوں کی، خوش نام سے گئے
ہم جس جگہ گئے ہیں ، بدنام سے گئے
اظہارِ آرزو سے کُچھ کم غضب ہُوا
مِلنا مِلانا دُور اِک پیغام سے گئے
مِلتی ہے زندگی کو راحت خیال سے
حاصل وہ دِید کی ہم اِنعام سے گئے
جب سے...
غزل
اب یہ مُمکن نہیں نِکلیں گے کبھی دام سے ہم
سب کہَیں عِشق کے ہونے پہ گئے کام سے ہم
کون کہتا ہے، ہیں بے کل غم و آلام سے ہم
جو تصوّر ہے تمھارا، تو ہیں آرام سے ہم
اب نہ یہ فکر کہ ہیں کون، کہاں پر ہم ہیں !
جانے جاتے ہیں اگر اب، تو دِئے نام سے ہم
یُوں نہ تجدیدِ تعلّق کا اب اِمکان رہا ...
غزل
پیشِ نظر ہوں حُسن کی رعنائیاں وہی
دِل کی طلب ہے حشر کی سامانیاں وہی
اِک عمر ہوگئی ہے اگرچہ وصال کو
نظروں میں ہیں رَچی تِری رعانائیاں وہی
میں کب کا بجھ چُکا ہوں مجھے یاد بھی نہیں
دِل میں ہے کیوں رہیں تِری تابانیاں وہی
بیٹھا تِرے خیال سے ہُوں انجمن کئے
اے کاش پھر...
غزل
گوشہ آنکھوں کے درِیچوں میں جو نم سا ہوگا
دِل کی گہرائی میں رِستا ہوا غم سا ہوگا
یاد آئیں جو کبھی ڈُھونڈنا وِیرانوں میں
ہم نہ مِل پائیں گے شاید کوئی ہم سا ہوگا
روئے گی صُبح ہمَیں شام بھی مُضطر ہوگی
کچھ بھٹکتی ہُوئی راتوں کو بھی غم سا ہوگا
وقت کی دُھوپ تو جُھلسانے پہ آمادہ رہے
جاں...
غزل
جب سمن یا گلاب دیکھوں میں
دل کو خود پر عذاب دیکھوں میں
زیست کی جب کتاب دیکھوں میں
سب رقم اُس کے باب دیکھوں میں
عاشقی گر نصاب دیکھوں میں !
حُسن اُس کا جواب دیکھوں میں
اُس کے لب اور چشمِ مِینا سے
کیا چَھلکتی شراب دیکھوں میں
جس کے سِینے میں دِل ہے پتّھر کا
دِل کو اُس پر ہی آب...
غزل
ہم لوگ دُھوپ میں نہ کبھی سر کُھلے رہے
سائے میں غم کی آگ کے اکثر دبے رہے
فرقت کے روز و شب بڑے ہم پر کڑے رہے
ہم بھی اُمیدِ وصل کے بَل پر اڑے رہے
دِل اِنتظار سے تِری غافِل نہیں رہا
گھر کے کواڑ تھے کہ جو شب بھر کُھلے رہے
راتوں نے ہم سے عِشق کا اکثر لِیا خِراج
ضبط و حیا سے دِن میں کبھی...
غزل
پائی جہاں میں جتنی بھی راحت تمہی سے ہے
ہر وقت مُسکرانے کی یہ عادت، تمہی سے ہے
رکھتا ہُوں اب دُعا کو بھی ہاتھ اپنے میں بُلند
سب عِجز و اِنکسار و عِبادت تمہی سے ہے
ہر شے میں دیکھتا ہُوں میں، رنگِ بہار اب
آئی جہان بھر کی یہ چاہت تمہی سے ہے
ہوتا ہے ہر دُعا میں تمھارا ہی ذکر یُوں
لاحق ہماری...