غزلِ
شفیق خلش
اِظہارِ محبّت پہ جو انجانے ہُوئے ہیں
کہتے ہیں مجھے سب سے کہ، دِیوانے ہُوئے ہیں
ہر شخص لئے آتا ہے مضمون نیا اِک
کیا دِل کی کہی بات پہ افسانے ہوئے ہیں
سوچیں تو تحمّل سے ذرا بیٹھ کے لمحہ
کیوں عرضِ تمنّا پہ یُوں بیگانے ہُوئے ہیں
سمجھیں نہیں احباب قیامت سے نہیں کم
اب...
شاعری !
شفیق خلش
شاعری ساز ہے ، آواز ہے، تصویریں ہیں
جس کی ہر حرف میں رقصاں کئی تعبیریں ہیں
ہیں مناظر لِئے احساس کو چُھوتی سطریں
ایک اِک شعر کی کیا کیا نہیں تفسیریں ہیں
یہ دِکھائے کبھی ہر رات سہانا سپنا
اور کبھی خواب کی اُلٹی لِکھی تعبیریں ہیں
تیغ زن مدِّ مُقابل ہیں عقائِد، تو کہیں
بھائی...
غزلِ
شفیق خلش
چُنے مجھے ہی ہمیشہ جہان بھر سے آگ
نہ چھوڑے جان بھی میری اگر مگر سے آگ
گو پُر ہے عِشق و محبّت کی اِک اثر سے آگ
لگے نہ سِینے میں اُس کے جہاں کی ڈر سے آگ
اب اور لوگوں کا کیا ذکر جب حقیقت میں
لگی نصِیب جَلے کو خود اپنے گھر سے آگ
نجانے کیا شبِ فرقت میں گُل کِھلاتی ہے
لگی یہ...
غزلِ
شفیق خلش
رحم و کرم پہ یاد کی ٹھہری قضا ہے آج
اِک کیفیت خیال سے طاری جُدا ہے آج
مانوس جس سے میں نہیں ایسی فضا ہے آج
کانوں میں پڑ رہی مِرے سب کی دُعا ہے آج
ہر درد و غم سے ہجر کا صدمہ جُڑا ہے آج
پیکِ اجَل لے جان، کہ مجھ پر سَوا ہے آج
نو خیزئ شباب سے وابستہ جو رہا
محکم نہ ہو یقین کہ،...
غزلِ
شفیق خلش
ذرا نہ ڈھلنے پہ راضی وہ تیرے فرق کی رات
جو ایک رات بھی ہو کر تھی بے حساب سی رات
تمھارے ہجر میں ٹھہری تھی مجھ پہ جیسی رات
کسی نے دہر میں دیکھی نہ ہو گی ویسی رات
عذاب اِک ایسا، نہ وعدے پہ تیرا آنا تھا
جِئے مَرے تھے کئی بار جس میں رات کی رات
اذیّتوں کا نہ جس سے کوئی شُمار...
غزلِ
شفیق خلش
زندہ نہیں ہیں جوہر و انوار بیچ کر
اپنا قلم، نہ اپنے ہم اشعار بیچ کر
پُہنچے خود اپنے فکر و تدبّر سے ہیں یہاں
پردیس ہم نہ آئے ہیں گھربار بیچ کر
جاں کی سلامتی سے مقدّم ہے کوئی چیز
پردیس سب سِدھارے ہیں گھر یار بیچ کر
املاک کے فروخت کی مُہلت نہ تھی جنہیں
بیٹھیں ہیں مِلکیّت...
غزلِ
شفیق خلش
آئے ذرا نہ اُٹھ کے وہ بیمار کی طرف
بیٹھے رہے تھے منہ کئے دیوار کی طرف
کھاتے نہ کیوں شکست بَھلا ہم خوشی کے ساتھ
جب فیصلہ تھا اُن کا بھی اغیار کی طرف
اِک عُمر دِل میں وصل کی اُمّید ہم لئے
پیغام بھیجتے رہے سرکار کی طرف
فُرقت میں اور ٹُوٹ کے اُن کا رہا خیال
جاتا کہاں سے ذہن...
غزلِ
شفیق خلش
کب اُن کو اپنا عمَل اِک بھی ظالمانہ لگے
کہوں جو حق کی اگر میں، تو باغیانہ لگے
فضائے عِشق و محبّت جسے مِلا نہ کبھی
یہ دِل اِک ایسے پرندے کا آشیانہ لگے
مطیع بن کے ہمیشہ رہے تھے، جس کا یہاں
عذاب ہم پہ سب اُس کا ہی شاخسانہ لگے
کہُوں یہ کیسے کہ اُن کے بغیر رہ نہ سَکوُں
اُنھیں تو...
غزلِ
شفیق خلش
سُنائی جو نہیں دیتی فُغاں، نظر آئے
ہو کورچشم کوئی تو کہاں نظر آئے
رَوا قدم ہے ہر اِک اُس پہ اِنتہائی بھی !
مگر یہ تب، کہ ہمیں رازداں نظر آئے
چمن سے تب ہی گُل و برگ کی اُمید بندھے
جو حاکموں میں کوئی باغباں نظر آئے
زمیں کے رحم و کرم پر ہی اِنحصار یہ کیوں
ذرا ہمیں بھی کہیں...
غزلِ
شفیق خلش
تھے دِل کے کبھی اور ابھی اور طلب ہیں
حالات اب اِس دل کے بہت غور طلب ہیں
آساں نہیں کُچھ، ضعف میں اُلفت سے کنارہ
اعمال سب اِس مد میں بہت زور طلب ہیں
آسودۂ اعصاب ہیں کب عِشق میں اُن کے
سمجھیں جوخموشی سے کہ ہم جور طلب ہیں
کچھ شرطِ وفا ضبط و خموشی سے ہے منسوب
کچھ نالے رسائی...
غزلِ
شفیق خلِش
کٹی زیست جس کی ساری تِرا اعتبار کرتے
ہُوا جاں بَلب بلآخر تِرا انتظار کرتے
یہ میں سوچتا ہُوں اکثر کہ اگر وہ مِل بھی جاتے
وہی کج ادائیوں سے مجھے بے قرار کرتے
بَپا حشر کیا نہ ہوتا، جو وہ چھوڑ کر ہر اِک کو
کبھی رسم و راہ مجھ سے اگر اُستوار کرتے
اِسی ڈر میں مُبتلا ہُوں، کہ...
غزلِ
شفیق خلش
رہے پیش سب ہی وعدے مجھے زندگی میں کل کے
بُجھی زیست میری جن میں بڑی بے کلی سے جل کے
یوں گنوادی عُمر ساری کیے وعدوں پر بہل کے
نہیں خواب تک سلامت وہ خوشی سے پُر محل کے
رہے رنج مجھ کو یُوں بھی، کہ نہ ہمسفر تھے پل کے
وہ جُدا ہوئے ہیں مجھ سے، بڑی دُور ساتھ چل کے
گِریں فُرقِ...
غزلِ
شفیق خلش
ہم پہ اُفتاد، فلک تیرے اگر کم نہ رہے
تو سمجھ لینا کہ کچھ روز ہی میں ہم نہ رہے
ظاہر اِس چہرے پہ کُچھ درد، کوئی غم نہ رہے
مکر میں ماہر اب ایسا بھی کبھی ہم نہ رہے
کرب سینے کا اُمڈ آئے نہ آنکھوں میں کبھی
خوگر آلام کے اِتنے بھی ابھی ہم نہ رہے
کب وہ عالم نہ رہا دیس سا پردیس...
غزلِ
شفیق خلش
غرض کسے کہ یہ سر تاجدار ہو کہ نہ ہو
کریں گے اُن سے، اُنھیں ہم سے پیار ہو کہ نہ ہو
مچلتے رہنے کی عادت بُری ہے دِل کو مِرے
ہر اچھّی چیز پہ، کچھ اِختیار ہو کہ نہ ہو
ذرا یہ فکرمحبّت میں تیری، دل کو نہیں
عنایتوں سے تِری زیربار ہو کہ نہ ہو
ہم اُن کو اپنی دِلی کیفیت بتا ہی نہ دیں...
غزلِ
شفیق خلش
اِک عجیب موڑ پہ زندگی سرِ راہِ عِشق کھڑی رہی
نہ مِلا کبھی کوئی رّدِ غم ، نہ ہی لب پہ آ کے ہنسی رہی
کبھی خلوتوں میں بھی روز و شب تِری بزم جیسے سجی رہی
کبھی یوں ہُوا کہ ہجوم میں، مجھے پیش بے نفری رہی
سبھی مُشکلیں بھی عجیب تھیں رہِ وصل آ جو ڈٹی رہِیں
نہ نظر میں اِک، نہ...
غزلِ
شفیق خلِش
اک نہ چہرہ بجُز اُس شکل کے بھایا دِل کو
وہ کڑی دُھوپ میں رحمت کا ہے سایا دِل کو
جتنا جتنا بھی مُصیبت سے بچایا دِل کو
اُتنا اُتنا ہی مُصیبت میں ہے پایا دِل کو
اِس نہج، اُس سے مِرا عِشق ہے لایا دِل کو
جب تصوّر رہا، مجذُوب سا پایا دِل کو
غم سے مدہوشی پہ بہلا کے جو لایا دِل کو...
غزلِ
شفیق خلش
جب تعلّق نہ آشیاں سے رہے
کچھ نہ شِکوے بھی آسماں سے رہے
پَل کی فرقت نہ ہو گوارا جسے
دُور کیسے وہ دِل بُتاں سے رہے
سوچتے ہیں اب اُن حسینوں کو
جن کی قربت میں شادماں سے رہے
اُس کی یادوں نے کی پذیرائی
درد دِل میں جو بےکراں سے رہے
دُوریاں اُس پہ اِک قیامت ہیں
دِل جو...
غزلِ
شفیق خلش
ہے شرف حاصل وطن ہونے کا جس کو شاد کا
تھا یگانہ بھی تو شاعر اُس عظیم آباد کا
طرز اپنایا سُخن میں جب بھی میں نے شاد کا
میرے شعروں پر گمُاں ٹھہرا کسی اُستاد کا
یا الہیٰ ! شعر میں ایسی فصاحت دے، کہ میں
نام روشن کرسکوُں اپنے سبھی اجداد کا
دِل بدل ڈالا ہے اپنا اُس نے پتّھر...
غزلِ
شفیق خلش
سہنے کی حد سے ظلم زیادہ کیے ہُوئے
پردہ ہے، مارنے کا اِرادہ کیے ہُوئے
بیتی جو مہوشوں سے اِفادہ کیے ہُوئے
گزُرے وہ زندگی کہاں سادہ کیے ہُوئے
کیوں نااُمیدی آس پہ غالب ہو اب، کہ جب !
اِک عُمر گزُری اِس کو ہی جادہ کیے ہُوئے
کردی ہے اِنتظار نے ابتر ہی زندگی
اُمّیدِ وصل اِس کا...
غزلِ
شفیق خلش
کسی بھی کام میں اب دِل مِرا ذرا نہ لگے
کسی کی شکل اب اچھّی تِرے سِوا نہ لگے
نِگاہِ ناز نے جانے کِیا ہے کیا جادُو
کہ کوئی کام نہ ہونے پہ بھی رُکا نہ لگے
رہے ملال، جو ضائع ہو ایک لمحہ بھی
تِرے خیال میں گُزرے جو دِن، بُرا نہ لگے
خرامِ ناز ہے اُس کا، کہ جُھومنا گُل کا...