غزلِ
شفیق خلش
سہنے کی حد سے ظلم زیادہ کیے ہُوئے
پردہ ہے، مارنے کا اِرادہ کیے ہُوئے
بیتی جو مہوشوں سے اِفادہ کیے ہُوئے
گزُرے وہ زندگی کہاں سادہ کیے ہُوئے
کیوں نااُمیدی آس پہ غالب ہو اب، کہ جب !
اِک عُمر گزُری اِس کو ہی جادہ کیے ہُوئے
کردی ہے اِنتظار نے ابتر ہی زندگی
اُمّیدِ وصل اِس کا...
غزلِ
شفیق خلش
کسی بھی کام میں اب دِل مِرا ذرا نہ لگے
کسی کی شکل اب اچھّی تِرے سِوا نہ لگے
نِگاہِ ناز نے جانے کِیا ہے کیا جادُو
کہ کوئی کام نہ ہونے پہ بھی رُکا نہ لگے
رہے ملال، جو ضائع ہو ایک لمحہ بھی
تِرے خیال میں گُزرے جو دِن، بُرا نہ لگے
خرامِ ناز ہے اُس کا، کہ جُھومنا گُل کا...
غزلِ
شفیق خَلِش
اِس کا نہیں ملال، کہ سونے نہیں دِیا
تنہا تِرے خیال نے ہونے نہیں دِیا
پیش آئے اجنبی کی طرح ہم سے جب بھی وہ
کچھ ضبط، کچھ لحاظ نے رونے نہیں دِیا
چاہا نئے سِرے سے کریں زندگی شروع
یہ تیرے اِنتظار نے ہونے نہیں دِیا
طاری ہے زندگی پہ مِری مستقل ہی رات
دِن تیرے ہجر نے کبھی...
غزلِ
شفیق خلش
مِرے دُکھوں کا خلِش اب یہی ازالہ ہے
اُمیدِ وصل ہے جس نے مجھے سنبھالا ہے
جو تم نہیں ہو، تو ہے زندگی اندھیروں میں
مِرے نصیب میں باقی کہاں اُجالا ہے
سکوت مرگ سا طاری تھا اک زمانے سے
یہ کِس کی یاد نے پھر دِل مِرا اُچھالا ہے
رہا نہ کوئی گلہ اب وطن کے لوگوں سے
یہاں بھی خُوں...
غزل
شفیق خلش
دِل یہ جنّت میں پھر کہاں سے رہے
عِشق جب صُحبتِ بُتاں سے رہے
لاکھ سمجھا لِیا بُزرگوں نے !
دُورکب ہم طِلِسمِ جاں سے رہے
کب حَسِینوں سے عاشقی نہ رہی
کب نہ ہونٹوں پہ داستاں سے رہے
دِل میں ارمان کُچھ نہیں باقی
اِک قدم آگے ہم زماں سے رہے
دِل میں حسرت کوئی بھی باقی ہو
ایسے جانے...
غزلِ
شفیق خلش
نہ آئیں گے نظر باغ و بہاراں ہم نہ کہتے تھے
ہُوا وِیراں نگر شہرِ نِگاراں، ہم نہ کہتے تھے
رہو گے شہر میں اپنے ہراساں، ہم نہ کہتے تھے
تمھارے گھررہیں گے تم کوزنداں ہم نہ کہتے تھے
نہ پاؤگے کسے بھی دُور تک، یوں بیکسی ہوگی!
ہراِک سے مت رہو دست وگریباں ہم نہ کہتے تھے
بشر کی زندگی...
غزلِ
شفیق خلش
ہوکر رہے ہیں جب مِرے ہر کام مختلف
ہوجائیں روز و شب کے بھی ایّام مختلف
شام و سحر یہ دیں مجھے دُشنام مختلف
کیا لوگ ہیں، کہ روز ہی اِلزام مختلف
پہلےتھیں اِک جَھلک کی، یا مِلنے کی مِنّتیں
آتے ہیں اُن کے اب مجھے پیغام مختلف
دِل پھر بضد ہے لوٹ کے جانے پہ گھر وہی
شاید لِکھا ہے...
غزلِ
شفیق خلش
اُمید تھی تو، اگرچہ نہ تھی عیاں بالکل
ہُوئی کِرن وہی دِل کی ہے اب نہاں بالکل
کِھلے نہ پُھول ہیں دِل میں، نظردُھواں بالکل
بہار آئی بھی بن کر خَلِش، خِزاں بالکل
کہا ہے دِل کی تسلّی کو بارہا خود سے
ہم اُن کو بُھول چُکے ہیں، مگرکہاں بالکل
جو اُٹھتے دستِ زلیخا ہمارے دامن پر
نہ...
غزلِ
شفیق خلش
ہمارے من میں بسے جو بھی روگ ہوتے ہیں
شریر کے کسی بندھن کا سوگ ہوتے ہیں
جو لاگ، بیر کسی سے بھی کُچھ نہیں رکھتے
وہی تو دہر میں سب سے نِروگ ہوتے ہیں
بُرا، بُرے کو کسی دھرم کا بنا دینا
بَھلے بُرے تو ہراِک میں ہی لوگ ہوتے ہیں
پریمیوں کے محبّت میں ڈوبے من پہ کبھی
دُکھوں کے...
غزلِ
شفیق خلش
نہ مثلِ دشت، نہ مُمکن کسی سماں کی طرح
نجانے گھر کی یہ حالت ہُوئی کہاں کی طرح
کریں وہ ذکر ہمارا تو داستاں کی طرح
بتائیں سنگِ در اپنا اِک آستاں کی طرح
کسی کی بات کی پروا، نہ اِلتجا کا اثر
فقیہہ شہر بھی بالکل ہے آسماں کی طرح
وفورِ شوق وہ پہلا، نہ حوصلہ دِل کا !
ورُود غم...
غزل
شفیق خلش
اُن کی ہم لعْن کبھی طَعْن سے ہی پھرتے تھے
ہم کب آواز سُنے بِن بھی، کبھی پھرتے تھے
لے مُصیبت وہ محبّت میں کڑی پھرتے تھے
صبح نِکلے پہ اندھیرے کی گھڑی پھرتے تھے
اب اُسی شہر کے ہرگھر کو میں زِنداں دیکھوں !
جس کے کوچوں میں غم آزاد کبھی پھرتے تھے
دیکھ کر جن پہ غزالوں کو بھی...
غزلِ
شفیق خلش
وہی دِن ، جو گزُرے کمال کے، ہُوئے وجہ ڈھیروں سوال کے
کہ بنے ہیں کیسے وہ سب کے سب مِری پستیوں کے، زوال کے
یُوں اُبھر رہے ہیں نقوش سب، لِئے رنگ تیرے خیال کے
نظرآئیں جس سے کہ دِلکشی، سبھی حُسن، سارے جمال کے
گو یہ دن ہیں فُرق و ملال کے، مگررکھیں خود میں سنبھال کے
وہ بھی یاد جس...
شفیق خلش
راتوں کو صُبْح جاگ کے کرنا کہاں گیا
آہیں وطن کی یاد میں بھرنا کہاں گیا
اُجڑے چمن میں اب بھی تمنّا بہار کی
جو حسرتوں میں تھا کبھی مرنا کہاں گیا
بھیجا ہے میری بُھوک نے مجھ کو وطن سے دُور
مرضی سے اپنی میں کبھی ورنہ کہاں گیا
سب یہ سمجھ رہے ہیں یہاں میں خوشی سے ہُوں
خوشیوں میں غم...
بغداد
دُکھ ہیں کہ موجزن ہیں دلِ داغدار میں
مصرُوف پھر بھی ہیں ہَمہ تن روزگار میں
یہ آگ کی تپش، یہ دُھواں اور سیلِ خُوں
گولے برس رہے دمادم دیار میں
بغداد جل رہا ہے مگر سو رہے ہیں ہم
آتے ہیں نام ذہن میں کیا کیا شُمار میں
ہر پُھول سرخ ہے سرِ شاخِ شجر یہاں
ٹُوٹا ہے ایک حشر ہی اب کے بہار میں...
غزلِ
شفیق خلش
" ہزارہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے "
ٹھہرنا پل کو کہاں اختیارِ راہ میں ہے
نہیں ہے لُطف کا جس سے شُمار راہ میں ہے
دِیا ہے خود پہ جسے اختیار راہ میں ہے
کہاں کا وہم! یقیں ہے مجھے اجل کی طرح
وہ میں نے جس پہ کِیا اعتبار راہ میں ہے
زیاں مزِید نہ ہو وقت کا اے چارہ گرو !
جسے ہے دِل...
غزلِ
شفیق خلش
مِری ہی زندگی لے کر بُھلا دِیا مجھ کو
یہ کیسے پیار کا تم نے صِلہ دِیا مجھ کو
لِیا ہے دِل ہی فقط، حافظہ بھی لے لیتے
تمھاری یاد نے پھر سے رُلا دِیا مجھ کو
نہ کوئی شوق، نہ ارمان کوئی سینے میں
یہ غم کی آگ نے، کیسا بُجھا دِیا مجھ کو
بہار نو میں نئے غم کی آمد آمد ہے
تمھارے...
غزلِ
شفیق خلِش
جب گیا شوقِ نظارہ تِری زیبائی کا
کوئی مصرف ہی نہیں اب مِری بینائی کا
دِل سے جب مِٹ ہی گیا تیرا تصوّر جاناں
کچھ گِلہ بھی نہیں باقی رہا تنہائی کا
کی زباں بند، تو رکھّا ہے نظر پر پہرا !
دِل کو احساس ہے ہر دم تِری رُسوائی کا
ساتھ ہے یاس بھی لمحوں میں تِری قُربت کے
کُچھ عجب...
غزلِ
شفیق خلِش
گردشِ وقت میں کُچھ بھی نہ عجب بات ہُوئی
پو پَھٹے پر جو نہیں دُور مِری رات ہُوئی
طبْع پَل کو نہیں مائل بہ خرافات ہُوئی
گو کہ دِلچسپ اِسے کب نہ نئی بات ہُوئی
پاس رہتے ہُوئے یُوں ترکِ مُلاقات ہُوئی
ایک مُدّت سے کہاں ہم سے کوئی بات ہُوئی
سب ہی پُوچھیں کہ، بسرخوش تو تِرے سات...
غزلِ
شفیق خلش
جوشِ طلب میں حد سے گُزر جائیں کیا کریں
آتا نہیں وہ، ہم ہی اُدھر جائیں کیا کریں
مِلنے کی آس میں ہیں سمیٹےہُوئے وجُود
ایسا نہ ہو کہ ہم ہی بکھر جائیں کیا کریں
ہر سمت ہر گھڑی وہی یادوں کے سلسلے
الله! ہم سے سے لوگ کدھر جائیں کیا کریں
اور ایک رات اُس کی گلی میں گُزار دی
اب کون...
غزلِ
شفیق خلش
تِنکوں کا ڈُوبتوں کو سہارا بتائیں کیا
پیشِ نظر وہ روز نظارہ بتائیں کیا
جی کیوں اُٹھا ہے ہم سے کسی کا بتائیں کیا
پُوچھو نہ بار بار خُدارا بتائیں کیا
تڑپا کے رکھ دِیا ہمَیں دِیدار کے لئے
کیوں کر لِیا کسی نے کِنارا بتائیں کیا
روئے بہت ہیں باغ کے جُھولوں کو دیکھ کر
یاد آیا...