غزلِ
شفیق خلش
وہ جو رُخ پہ رنگِ شباب تھا
تِرا حُسن تھا کہ گلاب تھا
نہ تھا یوں مگر مجھے یوں لگا
وہی جاں کا میری عذاب تھا
کہ شکستِ دل کا سبب بھی تو
وہی عشقِ خانہ خراب تھا
اُفقِ نظر پہ ہے آج تک
وہ جو چاند زیرِ نقاب تھا
مِری زندگی تھی کہ دُھوپ تھی
تِرا حُسن مثلِ سحاب تھا
بنا تیرے...
دو غزلہ
چاردہ سالی میں رُخ زیرِ نقاب اچھّا نہ تھا
اک نظر میری نظر کو اِنقلاب اچھا نہ تھا
اِس تغیّر سے دلِ خانہ خراب اچھا نہ تھا
تیرا غیروں کی طرح مجھ سے حجاب اچھا نہ تھا
اِس سے گو مائل تھا دل تجھ پر خراب اچھا نہ تھا
کب نشہ آنکھوں کا تیری اے شراب اچھا نہ تھا
بیقراری اور بھی بڑھ کر ہُوئی...