غزل
شفیق خلش
جُدا جو یاد سے اپنی مجھے ذرا نہ کرے
ملوُل میری طرح ہو کبھی خُدا نہ کرے
ہم اُن کے حُسن کے کب معترف نہیں، لیکن
غرُور، یُوں بھی کسی کو کبھی خُدا نہ کرے
تب اُن کی یاد سے دِل خُون چاند کر ڈالے
کبھی جو کام یہ مہکی ہُوئی ہَوا نہ کرے
لگایا یُوں غمِ فُرقت نے ہاتھ سینے سے
کوئی خیال...
مُلکِ خُدا داد
کب پَس و پیش ہے کرنے میں ہمیں کام خراب
دِل ہمارا نہ ہو مائل کہ ہو کچھ کارِ صواب
مال و زر ایک طرف، جان بھی لے لیتے ہیں
ڈر کہاں ہم میں، کہ دینا ہے خُدا کو تو جواب
خاک، منزل ہو معیّن بھی وہاں خیرکی جا !
قتل کرنے کی ڈگر ٹھہری جہاں راہِ ثواب
نفرتیں روز جہاں بُغض و عقائد سے...
شفیق خلش
پیار
ہمارا پیار نہ دِل سے کبھی بُھلا دینا
ہمیشہ جینے کا تم اِس سے حوصلہ دینا
بھٹک پڑوں یا کبھی راستہ نظر میں نہ ہو !
ستارہ بن کے مجھے راستہ دِکھا دینا
دیے تمام ہی یادوں کے ضُوفشاں کرکے
ہو تیرگی کبھی راہوں پہ تو مِٹا دینا
تم اپنے پیار کے روشن خوشی کے لمحوں سے
غموں سے بُجھتے...
یا خُدا کچھ آج ایسا رحم مجھ پہ کرجائیں!
شفیق خلش
یا خُدا کچھ آج ایسا رحم مجھ پہ کر جائیں
اپنے اِک تبسّم سے زخْم میرے بھرجائیں
ہو کوئی کرشمہ اب، جس کی مہربانی سے
ساتھ اپنے وہ ہولیں، یا ہم اُن کے گھرجائیں
دُور ہو سیاہی بھی وقت کی یہ لائی سی
اپنی خوش نوائی سے روشنی جو کرجائیں
روشنی مُدام...
غزلِ
شفیق خلش
مِری حیات پہ حق تجھ کو ہے صنم کِتنا
ہے دسترس میں خوشی کتنی اور الم کِتنا
دُھواں دُھواں سا مِرے جسم میں ہے دَم کِتنا
کروں گا پیرَہن اشکوں سے اپنے نم کِتنا
کبھی تو رحم بھی آئے مچلتے ارماں پر !
خیال و خواب میں رکھّوں تجھے صنم کِتنا
گلو خلاصی مِری ہو بھی پائے گی، کہ نہیں
رہے گا...
غزلِ
شفیق خلش
مجھ سے کیوں بدگُمان ہے پیارے
تجھ پہ صدقے یہ جان ہے پیارے
ہلکی لرزِش سے ٹُوٹ جاتا ہے
دِل وہ کچّا مکان ہے پیارے
میں ہی کیوں موردِ نِشانہ یہاں
مہرباں آسمان ہے پیارے
کب اِشارہ ہو سب اُلٹنے کا
مُنتظر پاسبان ہے پیارے
کیوں نہ جمہوریت یہاں پَھلتی
اِک عجب داستان ہے پیارے
چور...
غزلِ
شفیق خلش
اِس دِل کا خوُب رُوؤں پہ آنا نہیں گیا
یہ شوق اب بھی جی سے پُرانا نہیں گیا
میں دیکھتا ہُوں اب بھی گُلوں کو چمن میں روز
پُھولوں سے اپنے جی کو لُبھانا نہیں گیا
اب بھی طلَب ہے میری نِگاہوں کو حُسن کی
جینے کو زندگی سے بہانہ نہیں گیا
کیا کیا نہ کُچھ گزرتا گیا زندگی کے ساتھ
اِک...
غزل
شفیق خلش
جان ودِل ہجرمیں کُچھ کم نہیں بےجان رہے
لڑ کر اِک دردِ مُسلسل سے پریشان رہے
سوچ کر اور طبیعت میں یہ ہیجان رہے !
کیوں یُوں درپیش طلاطُم رہے، طوُفان رہے
بُت کی چاہت میں اگر ہم نہ مُسلمان رہے
رب سے بخشش کی بھی کیا کُچھ نہیں امکان رہے
مگراب دل میں کہاں میرے وہ ارمان رہے
ضُعف سے...
غزل
شفیق خلش
میں نے فرطِ شوق میں دی تھی زباں جاتا رہا
ورنہ مِلنے کو کسی سے کب کہاں جاتا رہا
میں لبِ دم تھا غمِ فُرقت میں لاحق وہم سے
جی اُٹھا آنے پہ اُس کے، ہر گُماں جاتا رہا
وہ جو آئے جیسے آئیں زندگی کی رونقیں
'میری تنہا زندگی کا سب نشاں جاتا رہا'
شوق اب بھی جی کو ہیں لاحق وہی پہلے جو...
خزانہ
بارشیں یاد دِلائیں وہ زمانہ میرا
شِیٹ کی دھار کے پانی میں نہانا میرا
سُوکھے پتوں کی طرح تھی نہ کہانی میری
آئی مجھ پرکہ ابھی تھی نہ جوانی میری
دل، کہ محرومئ ثروت پہ بھی نا شاد نہ تھا
لب پہ خوشیوں کے تھے نغمے، کبھی فریاد نہ تھا
پُھول ہی پُھول نظر آتے تھے ویرانے میں
موجزن رنگِ بہاراں...
غزل
شفیق خلش
نہ دوست بن کے مِلے وہ ، نہ دشمنوں کی طرح
جُدا یہ ُدکھ بھی، مِلے اور سب دُکھوں کی طرح
یُوں اجنبی سی مُصیبت کبھی پڑی تو نہ تھی
سحر کی آس نہ جس میں وہ ظلمتوں کی طرح
نہ دل میں کام کی ہمّت، نہ اوج کی خواہش !
کٹے وہ حوصلے سارے مِرے پروں کی طرح
ستارے توڑ کے لانے کا کیا کہوں میں...
شفیق خلش
کچھ سفیدی نے سحرکی رنگ بھی پکڑا نہ تھا
رات کی اُس تِیرَگی کو بھی ابھی جکڑا نہ تھا
خواب میں تھے سب مکینِ وادئ جنّت نظیر
رات کے سب خواب تھے دن کا کوئی دُکھڑا نہ تھا
سحری کرکے پانی پی کے سو گئے تھے روزہ دار
وہ بھی حاصل جن کو روٹی کا کوئی ٹکڑا نہ تھا
حُسن فِطرت میں کہ تھے پالے...
شفیق خلش
کیسی یہ روشنی ہے بکھرتی نہیں کبھی
تاریک راستوں پہ تو پڑتی نہیں کبھی
کیسا یہ چھا گیا ہے مِری زندگی پہ زنگ
کوشش ہزار پہ بھی اُترتی نہیں کبھی
یکسانیت کا ہوگئی عنوان زندگی !
بگڑی ہے ایسی بات سنْورتی نہیں کبھی
رہتا ہے زندگی کو بہاروں کا اِنتظار
حرکاتِ کج رَواں سے تو ڈرتی نہیں کبھی
ہے...
غزل
شفیق خلش
دی خبر جب بھی اُنھیں اپنے وہاں آنے کی
راہیں مسدُود ہُوئیں میرے وہاں جانے کی
اور کُچھ پانے کی دِل کو نہیں خواہش کوئی
نِکلے بس راہ کوئی میرے وہاں جانے کی
وجہ کیا خاک بتائیں تمھیں کھُل کر اِس کی
کوئی تدبیر چلی ہی نہیں دِیوانے کی
میری قسمت میں کہاں یار سے جاکر مِلنا
کوشِشیں...
غزل
شفیق خلش
مناظر حَسِیں ہیں جو راہوں میں میری
تمہیں ڈھونڈتے ہیں وہ بانہوں میں میری
اِنہیں کیا خبر مجھ میں رَچ سے گئے ہو
بچھڑ کر بھی مجھ سے، ہو آہوں میں میری
عجب بیخُودی آپ ہی آپ چھائے
تِرا نام آئے جو آہوں میں میری
ہر اِک سُو ہے رونق خیالوں سے تیرے
ابھی بھی مہک تیری بانہوں میں میری...
غزل
شفیق خلش
مجھ سے آنکھیں لڑا رہا ہے کوئی
میرے دِل میں سما رہا ہی کوئی
ہے تِری طرح روز راہوں میں
مجھ سے تجھ کو چُھڑا رہا ہے کوئی
پھر ہُوئے ہیں قدم یہ من من کے
پاس اپنے بُلا رہا ہے کوئی
نِکلوں ہر راہ سے اُسی کی طرف
راستے وہ بتا رہا ہے کوئی
کیا نِکل جاؤں عہدِ ماضی سے !
یادِ بچپن دِلا...
غزل
شفیق خلش
بہت سے لوگ تھے باتیں جہاں ہماری تھیں
تمھارے وصف تھے رُسوائیاں ہماری تھیں
نہیں تھا کوئی بھی، دیتا جو ساتھ محفل میں
تمھاری یاد تھی، تنہائیاں ہماری تھیں
عجب تماشا تھا، ہرآنکھ کا وہ مرکز تھا
وجود اُس کا تھا، پرچھائیاں ہماری تھیں
تباہ ہو نہ سکے، یہ کمال تھا اپنا
تمھارے خواب تھے...
غزل
شفیق خلش
پھر وہی گونج ہے باتوں کی بیاں سے باہر
پھر وہی تیغ ہے نظروں میں، مَیاں سے باہر
کیسا یہ درد سمایا ہے جگر میں میرے !
خود پہ کُھلتا نہیں، اُن کے بھی گُماں سے باہر
کبھی باہر تھی بیاں سے، تو تھی اُلفت اُن کی
اُن کی رنجش بھی ابھی ہے تو بیاں سے باہر
کاش ہوتے نہ جو اپنے، تو نِکلتا...
غزلِ
شفیق خلش
کرتے ہیں اگر مجھ سے وہ پیار تو آجائیں
پھر آ کے چلے جائیں ، اِک بار تو آ جائیں
ہے وقت یہ رُخصت کا، بخشش کا، تلافی کا
سمجھیں نہ جو، گر اِس کو بیکار تو آجائیں
اِک دِید کی خواہش پہ اٹکا ہے یہ دَم میرا
کم کرنا ہو میرا کچھ آزار تو آ جائیں
جاں دینے کو راضی ہُوں، اے پیکِ اجل لیکن...
غزلِ
شفیق خلش
اُس حُسن کے پیکر کو کچھ پیار بھی آجائے
ہونٹوں پہ محبّت کا اِقرار بھی آجائے
لبریز ہو چاہت سے پیمانۂ دِل اُس کا
ہونٹوں سے چَھلک کر کچھ اِظہار بھی آجائے
رُت آئی ہے برکھا کی، ہیں پُھول کِھلے دِل میں
کیا خُوب ہو ایسے میں دِلدار بھی آ جائے
کیا کیا نہ کِیا ہم نے، پُوری نہ...