قیصرؔ نہیں غنِیم کا لشکر مِرے خلاف
دراصل ہو گیا ہے مِرا گھر مِرے خلاف
مجھ کو مخالفت کا ہر اِک سُو ہے سامنا
جس دن سے ہو گیا ہے وہ کافِر مِرے خلاف
باہر مِرے خلاف نہیں ہے کوئی مگر
صد حیف ہو گیا مِرا اندر مِرے خلاف
اِس شہر کی زمیں بھی موافق نہیں مِرے
مٹی مِرے خلاف ہے، پتھر مِرے خلاف
اب کون سی...
میں وقت کے دریا میں تنّفس کا بھنور ہوں
بہتی ہُوئی لہروں پہ اُچٹتی سی نظر ہوں
کیا جانے کب آغوشِ رواں مجھ کو نِگل لے
امید کی منجدھار میں سرگرمِ سفر ہوں
میں ہوں کہ تری ہستئ پنہاں کی خبر ہوں
اے دیدۂ نادیدہ ترے پیشِ نظر ہوں؛
کیا کیا نہ کرم ہوں گے ترے مجھ پہ، میں آخر
اے شُومئی قسمت ترا منظورِ نظر...
اے خوشا وہ لمحہ، عاشق کا قلم جب سر ہوا
بجھ گئی ہجراں کی آگ اور دل کا صحرا تر ہوا
کیا عجب بخشے ہی جائیں اس سعادت کے سبب
کافروں کا آج پھر چرچا سرِ منبر ہوا
میری حالت پر نظر مت نامہ بر! کر، یہ بتا
یار کا کیا حال میری داستاں سن کر ہوا
صورِ اسرافیل تو ایک استعارہ ہے فقط
آہ سے عورت کی ہو گا جب بپا...
وہ بھی کیا دن تھے جب احساس کے آئینے میں
عکسِ مہ پر مہِ تاباں کا گُماں ہوتا تھا
کیسی بھینی سی مہک آتی تھی داغِ دل سے
داغِ دل پر گُلِ خنداں کا گُماں ہوتا تھا
محورِ خُوں پہ پھر اس طور سیاست گھومی
بدلا کرنوں کا چلن، رنگِ سحر بھی بدلا
پڑ گیا ماند شرر فکرِ سخن کی دُھن کا
بدلا ماحول تو اندازِ نظر بھی...
روح پیاسی کہاں سے آتی ہے
یہ اداسی کہاں سے آتی ہے
ہے وہ یک سر سپردگی تو بھلا
بد حواسی کہاں سے آتی ہے
وہ ہم آغوش ہے تو پھر دل میں
نا شناسی کہاں سے آتی ہے
ایک زندانِ بے دلی اور شام
یہ صبا سی کہاں سے آتی ہے
تو ہے پہلو میں پھر تری خوشبو
ہو کے باسی کہاں سے آتی ہے
دل ہے شب سوختہ سو اے امید
تو ندا...
گلوں کو سننا ذرا تم، صدائیں بھیجی ہیں
گلوں کے ہاتھ بہت سی، دُعائیں بھیجی ہیں
جو آفتاب کبھی بھی غروب ہوتا نہیں
ہمارا دل ہے، اسی کی شعاعیں بھیجی ہیں
اگر جلائے تمہیں بھی شفا ملے شاید
اک ایسے درد کی تم کو شعاعیں بھیجی ہیں
تمہاری خشک سی آنکھیں، بھلی نہیں لگتیں
وہ ساری یادیں جو تم کو رُلائیں،...
کونسا معرکہ محتاجِ تگ و تاز نہیں
کونسا عزم نئی جہد کا آغاز نہیں
ذوقِ تخلیق کے اعجاز بھرے ہاتھ میں آج
تیشہ فرہاد کا ہے، کُن کا حسیں ساز نہیں
—————
خودبخود کوئی عجب سانحہ کب ہوتا ہے
کچھ تو نازل شدہ ہونی کا سبب ہوتا ہے
اَن گنت راز گہہِ زیست کے در کھُلتے ہیں
دِل کو درپیش نیا مسئلہ جب ہوتا ہے...
اب آنسوؤں کے دھندلکے میں روشنی دیکھو
ہجومِ مرگ سے آوازِ زندگی کو سنو
سنو کہ تشنہ دہن مالکِ سبیل ہوئے
سنو کہ خاک بسر وارثِ فصیل ہوئے
ردائے چاک نے دستارِ شہ کو تار کیا
تنِ نحیف سے انبوہ جبر ہار گیا
سنو کہ حرص و ہوس، قہر و زہر کا ریلا
غبار و خار و خش و خاک ہی نے تھام لیا
سیاہیاں ہی مقدر ہوں جن...
ہو چکا وعظ کا اثر واعظ
اب تو رندوں سے درگزر واعظ
صبح دم ہم سے تو نہ کر تکرار
ہے ہمیں پہلے دردِ سر واعظ
بزمِ رنداں میں ہو اگر شامل
پھر تجھے کچھ نہیں خطر واعظ
وعظ اپنا یہ بھول جائے تو
آوے گر یار سیم بر واعظ
ہے یہ مرغِ سحر سے بھی فائق
صبح اٹھتا ہے پیشتر واعظ
مسجد و کعبہ میں تو پھرتا ہے
کوئے...
سانس لینا بھی اشجار کی جان پر،
ہو چلا تھا کڑا اور ہوا چل پڑی
پھر سے رنگ فضا معتدل ہوگیا،
حبس حد سے بڑھا اور ہوا چل پڑی
پار کرنے کے پختہ اردے مرے،
لے چلے سمت ساحل اڑا کر مجھے
نرم رو موج دریا پہ تیرا ہی تھا،
میرا کچہ گھڑا اور ہوا چل پڑی
میرے گھوڑوں کی اڑتی ہوئی دھول نے،
میرے دشمن کے لشکر کو...
صبر وحشت اثر نہ ہو جائے
کہیں صحرا بھی گھر نہ ہو جائے
رشک پیغام ہے عناں کش دل
نامہ بر راہبر نہ ہو جائے
دیکھو مت دیکھیو کہ آئینہ
غش تمھیں دیکھ کر نہ ہو جائے
ہجر پردہ نشیں میں مرتے ہیں
زندگی پردہء در نہ ہو جائے
کثرتِ سجدہ سے وہ نقشِ قدم
کہیں پامال سر نہ ہو جائے
میرے تغییرِ رنگ کو مت دیکھ
تجھ...
اے حسنِ یار شرم، یہ کیا انقلاب ہے
تجھ سے زیادہ درد ترا کامیاب ہے
عاشق کی بے دلی کا تغافل نہیں جواب
اس کا بس ایک جوشِ محبت جواب ہے
تیری عنایتیں کہ نہیں نظرِ جاں قبول
تیری نوازشیں کہ زمانہ خراب ہے
اے حسن اپنی حوصلہ افزائیاں تو دیکھ
مانا کہ چشمِ شوق بہت بے حجاب ہے
میں عشقِ بے نیاز ہوں تم حسنِ...
آہن کی سُرخ تال پہ ہم رقص کر گئے
تقدیر تیری چال پہ ہم رقص کر گئے
پنچھی بنے تو رفعتِ افلاک پر اُڑے
اہل زمیں کے حال پہ ہم رقص کر گئے
کانٹوں سے احتجاج کیا ہے کچھ اس طرح
گلشن کی ڈال ڈال پہ ہم رقص کر گئے
واعظ ! فریبِ شوق نے ہم کو لُبھا لیا
فردوس کے خیال پہ ہم رقص کر گئے
ہر اعتبارِ حُسنِ نظر سے...
بوئے خوش ہو، دمک رہی ہو تم
رنگ ہو اور مہک رہی ہو تم
بوئے خوش! خود کو روُبرو تو کرو
رنگ! تم مجھ سے گفتگو تو کرو
وقت ہے لمحہ لمحہ مہجوری
چاہے تم میری ہم نشیں بھی ہو
ہے تمہاری مہک میں حزنِ خیال
جیسے تم ہو بھی اور نہیں بھی ہو
میرے سینے میں چُبھ رہا ہے وجود
اور دل میں سوال سا کچھ ہے...
میرے رشکِ قمر، تو نے پہلی نظر، جب نظر سے ملائی مزا آ گیا
برق سی گر گئی، کام ہی کر گئی، آگ ایسی لگائی مزا آ گیا
جام میں گھول کر حُسن کی مستیاں، چاندنی مسکرائی مزہ آگیا
چاند کے سائے میں اے میرے ساقیا! تو نے ایسی پلائی مزا آ گیا
نشہ شیشے میں انگڑائی لینے لگا، بزمِ رِنداں میں ساغر کھنکنے لگے
مئے...
السلام علیکم ۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد تابش صدیقی کی شریک کردہ نظم پر اپنا تبصرہ ادھار رکھا تھا ، سوچا تھا کہ میں اپنے انداز میں تبصرہ کروں گی ۔ امید ہے سب کو پسند آئے گا
میرے بلاگ پر
درسِ ادیب اگر بوَد زمزمهٔ محبتی
جمعه به مکتب آورد طفلِ گریزپای را
(نظیری نیشابوری)
ترجمہ:
اگر معلم کا درس کوئی محبت کا نغمہ ہو تو وہ جمعے (یعنی تعطیل) کے دن بھی (مکتب سے) گریزاں بچے کو مکتب میں لے آئے۔
جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے
میخانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
ہے خوئے ایازی ہی سزاوار ملامت
محمود کو کیوں طعنہ اکرام دیا جائے
ہم مصلحت وقت کے قائل نہیں یارو
الزام جو دینا ہو، سر عام دیا جائے
بہتر ہے اس بزم سے اٹھ...
یادش بخیر، جب وہ تصور میں آ گیا
شعر و شباب و حُسن کا دریا بہا گیا
جب عشق اپنے مرکزِ اصلی پہ آ گیا
خود بن گیا حسین، دو عالم پہ چھا گیا
جو دل کا راز تھا اسے کچھ دل ہی پا گیا
وہ کر سکے بیاں، نہ ہمیں سے کہا گیا
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہلِ دل
ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا
دل بن گیا نگاہ،...