صُوفی تبسم کی افسانوی دُنیا میں یِہ بھی مُمکن ہے کِہ ناؤ میں ندی ڈُوب جائے، چیونٹی ہاتھی کی مُرمت کرتی پھرے اور شیر میاں بی بکری کے ہمراہ ایک گھاٹ پر پانی پیتے پائے جائیں۔ بچوں کے لیے نظموں کا افسانوی ماحول ایسی ہے کِہ آدھی رات کو چاند اور سُورج بادل کے گھر آتے ہیں تو بجلی جھٹ سے دروازہ کھول کر...
صد شعر اقبال
فارسی
شارح
صوفی غلام مصطفی تبسم
مرتب: پروفیسر صوفی گلزار احمد
اقبال اکادمی پاکستان
کچھ صد اشعار فارسی کے بارے میں
اس سے قبل 1977ء میں استاذ مرحوم صوفی تبسم صاحب کے نشر کردہ علامہ اقبال مرحوم و مغفور کے سو شعر اور ان کی تشریحات اشاعت کی منزل سے گذر کر اہل علم و دانش سے شرف قبولیت...
کچھ اور گمرہیِ دل کا راز کیا ہوگا
اک اجنبی تھا کہیں رہ میں کھو گیا ہوگا
وہ جن کی رات تمہارے ہی دم سے روشن تھی
جو تم وہاں سے گئے ہوگے کیا ہوا ہوگا
اسی خیال میں راتیں اجڑ گئیں اپنی
کوئی ہماری بھی حالت کو دیکھتا ہوگا
تمہارے دل میں کہاں میری یاد کا پرتو
وہ ایک ہلکا سا بادل تھا چھٹ گیا ہوگا...
وہ گیسو فتنۂ جاں ہوں تو دل آباد کیا ہو گا
غمِ ہجراں کا یہ عالم تو کوئی شاد کیا ہو گا
جو نالاں ہے مری جاں دل کی ویرانی پہ ہونے دو
کسی بے خانماں کے لپ پہ جز فریاد کیا ہو گا
نہ جانے کیسے کیسے داستانِ درد دہرائی
مگر اس درد سے نا آشنا کو یاد کیا ہو گا
تمھاری یاد دل پر لائی ہے بربادیاں کیا کیا
جو...
کیا میری آرزو ہے مری التجا ہے کیا
سب حال آئنہ ہے مجھے پوچھتا ہے کیا
ہے تیری ذات محفلِ ہستی میں جلوہ گر
اور اس ظہور پر یہ خفا ماجرا ہے کیا
سر رکھ دیا ہے در پہ کسی بے نیاز کے
اے بے محل نیاز ترا مدعا ہے کیا
فریاد دو جہاں سے وہ محفل ہے پر خروش
اس بارگاہ ناز میں میری صدا ہے کیا
انجام زندگانی...
افسانہ ہائے درد سناتے چلے گئے
خود روئے دوسروں کو رلاتے چلے گئے
بھرتے رہے الم میں فسونِ طرب کا رنگ
ان تلخیوں میں زہر ملاتےچلے گئے
اپنے نیازِ شوق پہ تھا زندگی کو ناز
ہم زندگی کے ناز اٹھاتےچلے گئے
ہر اپنی داستاں کو کہا داستانِ غیر
یوں بھی کسی کا راز چھپاتےچلے گئے
میں جتنا ان کی یاد بھلاتا چلا...
سنے قہقہے تو سن لو یہ فغانِ چشمِ تر بھی
کہ ہے داستاں میں شامل یہ حدیثِ مختصر بھی
جو وہ دن گزر گیا تھا تو یہ رات بھی کٹے گی
کبھی شام آ گئی تھی کبھی آئے گی سحر بھی
یہ عجیب رہ روی ہے کہ الجھ گئی ہیں راہیں
مجھے ڈر ہے کھو نہ جائے کہیں تیری رہ گزر بھی
ترے حسن سے شگفتہ ہوئیں مضمحل نگاہیں
جو سنور گئے...
پھول تو ہیں پھول کانٹوں سے سنور جائے بہار
اب کے آئے تو ہر اِک شے میں اتر جائے بہار
اہتمامَ ہاو ہُو کر پر کہیں ایسا نہ ہو
صحنِ گلشن سے دبے پاؤں گزر جائے بہار
گُل نہیں ہنستے تو کانٹوں سے لپٹ کر روئیے
کچھ تو ہو رنگَ چمن، کچھ تو نکھر جائے بہار
ہر روش پر اِک نئے دورِ خزاں کی الجھنیں
اب تمہیں کہہ...
بند ہو جائے مری آنکھ اگر
بند ہو جائے مری آنکھ اگر
اس دریچے کو کھلا رہنے دو
یہ دریچہ ہے افق آئینہ
اس میں رقصاں ہیں جہاں کے منظر
اس دریچے کو کھلا رہنے دو
اس دریچے سے ابھرتی دیکھی
چاند کی شام
ستاروں کی سحر
اِس دریچے کو کھلا رہنے دو
اس دریچے سے کیے ہیں میں نے
کئی بے چشم نظارے
کئی بے راہ سفر
اِس...
دل کو جب بے کلی نہیں ہوتی
زندگی، زندگی نہیں ہوتی
جان پر کھیلتے ہیں اہلِ وفا
عاشقی دل لگی نہیں ہوتی
کیا کرو گے کسی کی دل داری
تم سے تو دل بری نہیں ہوتی
موت کی دھمکیاں نہ دو ہم کو
موت کیا زندگی نہیں ہوتی؟
غور سے دیکھتا ہوں جب تم کو
میری ہستی مری نہیں ہوتی
عشق میں ہوشیاریاں بھی ہوتی ہیں
محض...
وہ دامنِ ستم یونہی گردانتے رہے
ہم آپ اپنے دل کا کہا مانتے رہے
کوئی نہ مل سکا رہِ ہستی میں آشنا
ہم رہروؤں کی صورتیں پہچانتے رہے
تم نے غبارِ راہ سمجھ کر اڑا دیا
ہم یونہی خاکِ کوئے وفا چھانتے رہے
ہم سے ہے بڑھ کے کون جہاں میں خدا پرست
ہم لوگ تو صنم کو خدا مانتے رہے
کچھ اشک ہائے گرم تھے، کچھ خندہ...
نہ کر سکیں انھیں برسوں کی آندھیاں مدّھم
یہ کون چھوڑ گیا لوحِ دل پہ نقشِ قدم
ہزار دورِ خزاں سے گزر کے آئے ہیں
عجیب رنگ سے گزرا بہار کا موسم
ابھی ہے چاند ستاروں کی روشنی مدّھم
ابھی ہے شام کے چہرے پہ پَرتوِ شبِ غم
گزرنا ہو گیا دشوار رہگزاروں سے
یہ کس کے پاؤں کی آہٹ کو سن رہے ہیں ہم
ستارے بن کے...
لے کے چلاہوں تابِ نظارہ، نظر کے ساتھ
کچھ زادِ رہ بھی چاہیے عزمِ سفر کے ساتھ
آزاد تو ہوئے ہیں اسیرانِ ہم صفیر
لیکن قفس کے تنکے لیے بال و پر کے ساتھ
ہر مرحلے پہ اِک نئی منزل ہے سامنے
چلتا ہوں ہر قدم پہ نئے راہبر کے ساتھ
حسرت سے آنکھ دیکھنے والے نے پھیر لی
نظریں لپٹ کے رہ گئیں دیوار و در کے ساتھ...
کچھ اور گمرہیِ دل کا راز کیا ہو گا
اِک اجنبی تھا کہیں رہ میں کھو گیا ہو گا
وہ جن کی رات تمھارے ہی دم سے روشن تھی
جو تم وہاں سے گئے ہو گے کیا ہوا ہو گا
اسی خیال میں راتیں اجڑ گئیں اپنی
کوئی ہماری بھی حالت کو دیکھتا ہو گا
تمھارے دل میں کہاں میری یاد کا پرتو
وہ ایک ہلکا سا بادل تھا چھٹ گیا ہو گا...
نرالا ہے فقیروں کا مقامِ کج کلاہی بھی
کہ اس کی آبرو سے اوج پر ہے تاجِ شاہی بھی
عجب کیا خودہی آنکھوں میں سمٹ آئیں ترے جلوے
عجب کیا کام آجائے یہ میری کم نگاہی بھی
یہ آئینہ حریفِ تابِ جلوہ ہو نہیں سکتا
مجھی پر چھوڑ دو یہ شیوۂ حیرت نگاہی بھی
وفاداری بشرطِ استواری کی کسے فرصت
غنیمت ہے کسی کی یہ...
ہستیِ بشر کیا ہے اِک نظر کا دھوکا ہے
آدمی کی صورت میں آدمی کا سایہ ہے
غایتِ نظر کیا ہے، جلوہ ہے کہ پردہ ہے
آنکھ سے جو دیکھا ہے، دل اسی کو ترسا ہے
صرصرِ حوادث سے مٹ گئے نشاں کیا کیا
اس جہانِ صحرا میں تیرا نقشِ پا کیا ہے
تم مجھے بھلا دو گے، میں تمھیں بھلا دوں گا
ساری بات دل کی ہے، دل کا کیا...
تمھی کہو کہاں لے جائے کوئی جنسِ ہنر
نہ تجھ میں ذوقِ نظر ہے نہ مجھ میں ذوقِ نظر
بھٹک کے رہ گئی منزل پلٹ گئے راہی
نہ جانے ختم کہاں ہو گا رہبروں کا سفر
ہوا کا ہلکا سا جھونکا ہو، کانپ جاتے ہیں
یہ سوکھے پتے ہیں، ان کھنکھناہٹوں سے نہ ڈر
کبھی تو آ کے زمیں کے نشیب زار بھی دیکھ
کبھی تو اپنے فلک کی...
نہ روبرو کوئی دل بر نہ دل رُبا منظر
تو پھر یہ کیسے دریچے، یہ کیسے بام و در
بہک نہ جائے نگہ، ڈگمگا نہ جائیں قدم
رہِ وفا ہے، یہاں سے ذرا سنبھل کے گزر
ملیں گے جا کے، خدا جانے کِس مقام پہ دل
ابھی تو اُن کی نظر سے نہیں ملی ہے نظر
ابھی تو دور بہت ہے تجلیِ رخِ دوست
ابھی تو قدموں سے ابھرا ہے، دامنوں...
مسافرانِ محبت کی داستاں ہے عجیب
جو سو گئی کہیں منزل تو جاگ اٹھے ہیں نصیب
نہ پوچھ مرحلۂ شوق دور ہے کہ قریب!
جہاں ہو دشتِ تمنّا وہیں دیارِ حبیب
دعا نہ مانگ کہ ہو آرزو قبول تری
دعا یہ مانگ کوئی آرزو ہو تجھ کو نصیب
نہ جانے زورِ خطابت سے تھک گیا ہے وہ
نہ جانے عجزِ ندامت سے چُپ ہوا ہے خطیب
میں خود...
بیانِ اہلِ محبت بجز اشارہ نہیں
خموشیوں کے سوا اور کوئی چارہ نہیں
ادھر ہی لوٹ کے آئے گی پھر تری کشتی
یہ ایک موجۂ گرداب ہے کنارہ نہیں
یہ کہہ کے لوٹ گئی صحنِ گُل سے فصلِ بہار
کہ چشمِ اہلِ چمن در خورِ نظارہ نہیں
بھٹک رہا ہے کہاں تُو فضائے گردوں میں
جہانِ خاک میں کیا ایک بھی ستارہ نہیں؟
ہزار بار...