صوفی تبسم

  1. فرخ منظور

    تبسم زباں کرتی ہے دل کی ترجمانی دیکھتے جاؤ! ۔ صوفی تبسم

    زباں کرتی ہے دل کی ترجمانی دیکھتے جاؤ! پکار اٹھی ہے میری بے زبانی دیکھتے جاؤ! کہاں جاتے ہو، الفت کا فسانہ چھیڑ کر ٹھہرو! پہنچتی ہے کہاں اب یہ کہانی دیکھتے جاؤ! تری ظالم محبت نے جسے بدنام کر ڈالا اُسی مظلوم کی رسوا جوانی دیکھتے جاؤ! سناتا ہے کوئی محرومیوں کی داستاں سُن لو! اجڑتی ہے کسی کی...
  2. طارق شاہ

    تبسم صُوفی غلام مصطفٰی تبسّم :::::: امیر خُسرو کی فارسی غزل 2 کا ترجمہ :::::Sufi Ghulam Mustafa Tabassum

    امیر خُسرو کی فارسی غزل کا منظُوم ترجمہ یہ رنگینئِ نو بہار اللہ اللہ یہ جامِ مَئے خوشگوار اللہ اللہ اُدھر ہیں نظر میں نظارے چَمن کے اِدھر رُو بَرُو رُوئے یار اللہ اللہ اُدھر جلوۂ مُضطرب، توبہ توبہ اِدھر یہ دِلِ بے قرار اللہ اللہ وہ لب ہیں، کہ ہے وجد میں موجِ کوثر وہ زُلفیں...
  3. طارق شاہ

    تبسم صُوفی غلام مصطفٰی تبسّم :::::: امیر خُسرو کی فارسی غزل کا ترجمہ :::::Sufi Ghulam Mustafa Tabassum

    امیر خُسرو کی فارسی غزل کا ترجمہ غمِ فُرقت میں جو جینےکا سماں ہو تو جیوں یعنی ،اِک جان کے بعد اور بھی جاں ہو تو جیوں تیری آنکھیں مجھے جینے نہیں دیتیں اِک پَل شوخ غمزوں سےتِرے مجھ کو اماں ہو تو جیوں بے یقینی کا یہ عالَم ہو ، تو جینا کیسا ایک پَل بھی، مجھے جینے کا گُماں ہو تو جیوں یُوں تو...
  4. فرخ منظور

    تبسم مجھ کو کبھی کبھی سوئے اغیار دیکھنا ۔ صوفی تبسم

    مجھ کو کبھی کبھی سوئے اغیار دیکھنا اس شوخ کی نگاہِ طلب گار دیکھنا چشمِ نظارہ بیں میں ہے یہ کیا رہِ کشود جب دیکھنا وہی در و دیوار دیکھنا دہرائے گا وہ اپنی کوئی داستانِ غم وہ آ رہا ہے پھر مرا غم خوار دیکھنا ہر اِک قدم پہ شوق کی منزل ہے ساتھ ساتھ اس راہرو کی گرمیِ رفتار دیکھنا دیدارِ بزمِ یار،...
  5. فرخ منظور

    تبسم ورڈز ورتھ کی ایک سانیٹ کا ترجمہ ۔ صوفی تبسم

    ورڈز ورتھ کی ایک سانیٹ کا ترجمہ از صوفی تبسم حسن میں ڈوبی ہوئی یہ شامِ آزاد و خموش اور یہ درماندہ سورج، یہ غروبِ بے صدا یوں فضاوں میں مقدّس وقت ہے ٹھٹکا ہوا جیسے کوئی رہبرِ محوِ دعائے بے خروش لے رہا ہے چرخ، سطحِ آب پر انگڑائیاں جاگتا ہے چرخ پر یزدانِ توانا و غنی سرمدی حرکت میں ہے اس طرح محوِ سر...
  6. فرخ منظور

    تبسم ہنؔ کی انگریزی نظم کا اردو ترجمہ ۔ صوفی تبسم

    ہنؔ کی انگریزی نظم کا اردو ترجمہ دونوں ایک دوسرے کے شیدا تھے رازِ الفت عیاں نہ کرتے تھے حالتِ دل بیاں نہ کرتے تھے درد سے بے قرار تھے دونوں پھر بھی بے گانہ وار تھے دونوں آخر اک روز ہو گئے وہ جدا ہاں مگر وہ کبھی کبھی پھر بھی ملتے رہتے تھے خواب ہی میں سہی لیکن اتنا نہ جانتے تھے وہ وہ جو عاشق...
  7. فرخ منظور

    قطعات ۔ صوفی تبسم

    پوچھتا کیا ہے ہم نشیں مجھ سے کس لیے ضبطِ آہ کرتا ہوں کہہ تو دوں تجھ سے حالِ دل اپنا تیری غم خواریوں سے ڈرتا ہوں
  8. فرخ منظور

    تبسم ایک نظر ۔ صوفی تبسم

    ایک نظر ایک بار اور ذرا دیکھ اِدھر اپنے جلووں کو بکھر جانے دے روح میں میری اتر جانے دے مسکراتی ہوئی نظروں کا فسوں یہ حسیں لب، یہ درخشندہ جبیں ابھی بے باک نہیں اور آنے دے انہیں میری نگاہوں کے قریں ڈال پھر میری جواں خیز تمنّاؤں پر بے محابا سی نظر ایک بار اور ذرا دیکھ اِدھر ہاں وہی ایک نظر غیر...
  9. فرخ منظور

    تبسم کیا فائدہ کہ شکوۂ دنیا کرے کوئی ۔ صوفی تبسم

    کیا فائدہ کہ شکوۂ دنیا کرے کوئی افراطِ غم سے غم کا مداوا کرے کوئی دل ہو چکا ہے واقفِ انجامِ زندگی کس دل سے زندگی کی تمنّا کرے کوئی بیدادِ دوست، دردِ دوستِ آرزوئے دوست کس کس سے جا کے عرضِ تمنّا کرے کوئی (صوفی تبسم)
  10. محمد وارث

    فارسی شاعری غالب کی غزل، دُود سودائے تُتق بست آسماں نامیدمش مع منثور و منظوم تراجم

    شعرِ غالب دود سودائے تُتق بست آسماں نامیدمش دیدہ بر خواب پریشان زد، جہاں نامیدمش صوفی تبسم۔ ترجمہ خیالِ خام کا ایک دھواں سا ہمارے سر پر چھا گیا، میں نے اسکا نام آسمان رکھ دیا۔ آنکھوں نے ایک پریشان خواب دیکھا اور میں نے اسے جہان کہہ دیا۔ صوفی تبسم۔ منظوم ترجمہ دود افسون نظر تھا، آسماں کہنا پڑا...
  11. فرخ منظور

    تبسم اگرچہ آنکھ بہت شوخیوں کی زد میں رہی ۔ صوفی تبسم

    اگرچہ آنکھ بہت شوخیوں کی زد میں رہی مری نگاہ ہمیشہ ادب کی حد میں رہی سمجھ سکا نہ کوئی زندگی کی ارزش کو یہ جنسِ خاص ترازوئے نیک و بد میں رہی ازل سے ابھری تو موجِ ابد میں ڈوب گئی یہ سیلِ زیست لکد کوبِ جزر و مد میں رہی بہت بلند ہوا تمکنت سے تاجِ شہی کلاہِ فقر مگر نازشِ نمد میں رہی ہمیشہ درد سے...
  12. فرخ منظور

    تبسم رات ابھری تری زلفوں کی درازی کیا کیا ۔ لاہوتی کی غزل کا ترجمہ از صوفی تبسم

    رات ابھری تری زلفوں کی درازی کیا کیا خواجۂ حسن نے کی بندہ نوازی کیا کیا کبھی زنجیر، کبھی مار، کبھی پھول بنی زلفِ خم دار میں تھی شعبدہ بازی کیا کیا خالِ رخسار سے میں زلفِ رسا تک پہنچا دلِ بدمست نے کی دست درازی کیا کیا ہنس دیا میں رہِ الفت کی بلا خیزی پر عقلِ عیّار نے کی فلسفہ سازی کیا کیا...
  13. فرخ منظور

    تبسم ایک زرتشتی لڑکی سے ۔ صوفی تبسم

    ایک زرتشتی لڑکی سے کیا عجب باہمی رقابت ہے کیا عجب شانِ دوست داری ہے میں بھی اِک آگ کا پجاری ہوں تُو بھی اِک آگ کی پجاری ہے ہے مگر تیری آگ چند شرر اور مری آگ آتشیں پیکر تُو تو ہے روشنی کی شیدائی اور پروانہ حُسن کا ہوں میں تُو فقط دیکھتی ہے شعلوں کو اور شعلوں میں جل رہا ہوں میں (صوفی تبسم)
  14. فرخ منظور

    تبسم خدا جانے دلوں کے درمیاں یہ کیسا پردا ہے ۔ صوفی تبسم

    خدا جانے دلوں کے درمیاں یہ کیسا پردا ہے کہ جو بھی آشنا ہے ایک بیگانہ سا لگتا ہے یہ میرے شوق کی ہے ابتدا یا انتہا کیا ہے کہ جو بھی بات لب پر آ گئی حرفِ تمنّا ہے نظر کی بات ہے ورنہ حجابوں میں رکھا کیا ہے تمھارے منہ چھپانے پر بھی کیا کیا ہم نے دیکھا ہے وفورِ ذوقِ نغمہ سے ملی منقار بلبل کو مرا...
  15. فرخ منظور

    تبسم طلسمِ جلوہ! نہ سحرِ نظر! نہ لطفِ خرام! ۔ صوفی تبسم

    طلسمِ جلوہ! نہ سحرِ نظر! نہ لطفِ خرام! فسونِ حُسن سے آگے ہے دلبری کا مقام ازل سے ڈھونڈ رہی ہے نگاہ انساں کی وہ ایک دن کہ نہیں جس میں کوئی صبح و شام نگاہِ شوق جہاں پڑ گئی وہی آغاز نگاہِ حسن جہاں مل گئی وہی انجام تری نظر سے ہے ساقی حلال بادۂ ناب ہے بے رخی سے تری آبِ زندگی بھی حرام کبھی وہ شام...
  16. فرخ منظور

    تبسم کاروان حُسن کے کیا کیا نہ نظر سے گزرے ۔ صوفی تبسمن

    کارواں، حُسن کے کیا کیا نہ نظر سے گزرے کاش وہ بھی کبھی اس راہ گزر سے گزرے کوئی صورت نظر آئی نہیں آبادی کی ہم تو ان اجڑے ہوئے شام و سحر سے گزرے سفرِ عشق میں کھلتی ہیں ہزاروں راہیں دل مسافر ہے خدا جانے کدھر سے گزرے پھر بھی کیوں خشک ہیں دامن میرے غم خواروں کے کتنے طوفان مرے دیدۂ تر سے گزرے یوں...
  17. فرخ منظور

    تبسم تُو نہیں حسنِ چارہ ساز تو ہے ۔ صوفی تبسم

    تُو نہیں حسنِ چارہ ساز تو ہے تیری صورت نظر نواز تو ہے تو اگر باوفا نہیں، نہ سہی مجھ کو اپنی وفا پہ ناز تو ہے خود فریبی سہی، وفاداری دل بہلنے کا ایک راز تو ہے سایہ افگن نہیں وہ زلف تو کیا زندگی کی شبِ دراز تو ہے کچھ نہیں داستانِ مہر و وفا گرمیِ حرفِ دل گداز تو ہے کچھ نہ ہو اختلافِ دیر و حرم...
  18. فرخ منظور

    تبسم بجھ گئے سب اِدھر اُدھر کے چراغ ۔ صوفی تبسم

    بجھ گئے سب اِدھر اُدھر کے چراغ پھر بھی روشن ہیں چشمِ تر کے چراغ کیوں لگاتے ہو حسرتوں کا سراغ کیوں جلاتے ہو تم سحر کے چراغ کون اٹھ کر گیا ہے محفل سے بجھ گئے میرے بام و در کے چراغ دل کی تاریکیاں نہ دور ہوئیں جگمگائے بہت نظر کے چراغ شبِ ہجراں کا ساتھ کیا دیتے سو گئے شامِ مختصر کے چراغ نقش تھے...
  19. فرخ منظور

    تبسم اس ضبطِ محبت نے آخر یہ حال کیا دیوانے کا ۔ صوفی تبسم

    اس ضبطِ محبت نے آخر یہ حال کیا دیوانے کا ہر آہ میں صورت شیون کی، ہر اشک میں رنگ افسانے کا وہ سحر تھا چشمِ ساقی میں یا مے خواروں کا جذبِ دروں ہر چند بھرے ہیں جام و سبو، وہ رنگ نہیں مے خانے کا کچھ حسن و عشق میں فرق نہیں، یہ جانتے ہیں سب اہلِ نظر تھا شمع کا آغاز وہی، انجام ہے جو پروانے کا ہوں...
  20. فرخ منظور

    تبسم کتنی جدائیوں کے کھائے ہیں زخم دل پر ۔ صوفی تبسم

    کتنی جدائیوں کے کھائے ہیں زخم دل پر کتنی محبتوں کے ماتم کیے ہیں ہم نے فرقت کے آنسوؤں سے آنکھوں کو سی لیا ہے کیا کیا حسیں نظارے برہم کیے ہیں ہم نے ہر داغ تازہ شعلہ بن کر بھڑک اٹھا ہے کتنے چراغ غم کے مدھم کیے ہیں ہم نے دن اپنی زندگی کے پہلے ہی مختصر تھے کچھ خود بھی کم ہوئے ہیں کچھ کم کیے ہیں ہم...
Top