زیرِ چرخ و سرزمیں نہ رہے
مجھ کو کہتے ہیں تو کہیں نہ رہے
آج سجدوں کی انتہا کر دوں
شوق مٹ جائے یا جبیں نہ رہے
ہم اٹھائیں نہ گر ترے صدمے
آسماں کے تلے زمیں نہ رہے
عشرتِ وصل کے ہوں ہم قائل
آج یہ دل اگر حزیں نہ رہے
خاکساروں کا ذکر ہی کیا ہے
اس زمیں پر فلک نشیں نہ رہے
رہتی ہے کچھ روز اور بزمِ...