صوفی تبسم

  1. فرخ منظور

    تبسم قائم تھی یوں تو درد کی محفل جگہ جگہ ۔ صوفی تبسّم

    قائم تھی یوں تو درد کی محفل جگہ جگہ ہم ہی سنا سکے نہ غمِ دل جگہ جگہ طوفانِ موج خیز کے خُوگر، سنبھل سنبھل حائل ہیں تیری راہ میں ساحل جگہ جگہ دل ہر مقامِ شوق سے آگے نکل گیا دامن کو کھینچتی رہی منزل جگہ جگہ ہر نقشِ پا تھا میرے لیے تیرا آستان آئی نظر مجھے تری محفل جگہ جگہ شانِ کرم کو عذرِ...
  2. فرخ منظور

    تبسم بہکی بہکی سی چتونیں آنکھ میں انتظار سا ۔ صوفی تبسّم

    بہکی بہکی سی چتونیں آنکھ میں انتظار سا آج یہ کس کی یاد میں حُسن ہے سوگوار سا سہمے ہوئے سے سانس میں آہ سی اِک دبی ہوئی لب پہ خفی سی لرزشیں بات میں اضطرار سا لچکی ہوئی نزاکتیں اور بھی غم سے مضمحل سمٹی ہوئی نگاہ میں اور بھی اختصار سا شانِ غرور میں نہاں، رنگِ نیازِ التجا طرزِ ادا میں بے دلی،...
  3. فرخ منظور

    تبسم جان دے کر وفا میں نام کیا ۔ صوفی تبسّم

    جان دے کر وفا میں نام کیا زندگی بھر میں ایک کام کیا بے نقاب آ گیا سرِ محفل یار نے آج قتلِ عام کیا آسماں بھی اسے ستا نہ سکا تو نے جس دل کو شاد کام کیا عشق بازی تھا کام رندوں کا تو نے اس خاص شے کو عام کیا اب کے یونہی گزر گئی برسات ہم نے خالی نہ ایک جام کیا (صوفی تبسّم)
  4. فرخ منظور

    تبسم محبت سے جب آشنا ہو گئے ہم ۔ صوفی تبسّم

    محبت سے جب آشنا ہو گئے ہم نگہ کی کسی نے فنا ہو گئے ہم ہے مرنا یہی موت کہتے ہیں اس کو کہ دنیا میں تجھ سے جدا ہو گئے ہم یہی انتہا ہے افرازیوں کی کہ مر کر تری خاکِ پا ہو گئے ہم ازل سے ملا ہم کو وہ سازِ ہستی کہ اِک آہ میں بے صدا ہو گئے ہم ملی روح کو اک نئی زندگانی ترے عشق میں کیا سے کیا ہو...
  5. فرخ منظور

    تبسم ہو وصل کی شب یا شبِ فرقت، نہیں جاتی ۔ صوفی تبسّم

    ہو وصل کی شب یا شبِ فرقت، نہیں جاتی جاتی نہیں بے تابیِ الفت، نہیں جاتی میخانے میں آ کر بھی وہی توبہ کی تلقین واعظ یہ تری وعظ کی عادت نہیں جاتی یاں گردشِ ساغر ہے وہاں گردشِ دوراں افلاک کی رندوں سے رقابت نہیں جاتی ہر روز تبسّم ہے تجھے ہجر کا رونا کم بخت تری شومیِ قسمت نہیں جاتی (صوفی تبسّم)
  6. فرخ منظور

    تبسم لگانا دل کسی نامہرباں سے ۔ صوفی تبسّم

    لگانا دل کسی نامہرباں سے زمیں کی دوستی ہے آسماں سے نظر آتے تھے تم تو بے زباں سے یہ باتیں آ گئیں تم کو کہاں سے نظر آتے ہیں وہ کچھ مہرباں سے گرے گی کوئی بجلی آسماں سے یہ ننگِ عجز ہے اک بار رکھ کر اٹھانا سر کسی کے آستاں سے وصالِ جاودانی چاہتا ہوں مگر وہ زندگی لاؤں کہاں سے سنا دوں داستانِ...
  7. فرخ منظور

    تبسم بہت مضطر، بہت درد آشنا دل ۔ صوفی تبسّم

    بہت مضطر، بہت درد آشنا دل عجب آفت کا ٹکڑا ہے مرا دل وفا کیا اور وفا کا تذکرہ کیا تمہارے سامنے جب رکھ دیا دل یہ دل میں تُو نے پیکاں رکھ دیا ہے کہ دل میں رکھ دیا اِک دوسرا دل ہم اپنے دل کی حالت سن کے روئے ہمارا حال سن کر رو دیا دل یہ بجلی ہے کہ شعلہ ہے کہ سیماب مرے آغوش میں ہے کیا بلا دل...
  8. فرخ منظور

    تبسم زیرِ چرخ و سرزمیں نہ رہے ۔ صوفی تبسّم

    زیرِ چرخ و سرزمیں نہ رہے مجھ کو کہتے ہیں تو کہیں نہ رہے آج سجدوں کی انتہا کر دوں شوق مٹ جائے یا جبیں نہ رہے ہم اٹھائیں نہ گر ترے صدمے آسماں کے تلے زمیں نہ رہے عشرتِ وصل کے ہوں ہم قائل آج یہ دل اگر حزیں نہ رہے خاکساروں کا ذکر ہی کیا ہے اس زمیں پر فلک نشیں نہ رہے رہتی ہے کچھ روز اور بزمِ...
  9. فرخ منظور

    تبسم دن زندگی کے کیسے کٹیں گے بہار میں ۔ صوفی تبسّم

    دن زندگی کے کیسے کٹیں گے بہار میں تم اختیار میں ہو نہ دل اختیار میں صبحِ وصال ہے نہ وہ اب شامِ انتظار اب کیا رہا ہے گردشِ لیل و نہار میں وہ نازنین ہے محوِ تماشائے صحنِ گل یا اور اک بہار کھلی ہے بہار میں اِک مے گسار جام بکف ایک تشنہ کام کیا وسعتیں ہیں بخششِ پروردگار میں دنیا سے بے خبر،...
  10. فرخ منظور

    تبسم تیرے دم سے ہیں غم کدے آباد ۔ صوفی تبسّم

    تیرے دم سے ہیں غم کدے آباد شادباش اے غمِ محبت شاد ایک عالم ہے خانماں برباد کیا فراواں ہے دولتِ بیدار ہے وہی شانِ نخوّتِ پرویز وائے ناکامی غمِ فرہاد سرنگوں ہیں نواگرانِ قفس اوج پر ہے ستارۂ صیّاد تیرے عہدِ شباب سے ظالم ہوئیں لاکھوں جوانیاں برباد میں تہی دستِ حسرتِ دیدار شہر کا گوشہ گوشہ...
  11. فرخ منظور

    تبسم وصل، فردوسِ چشم و گوش سہی ۔ صوفی تبسّم

    وصل، فردوسِ چشم و گوش سہی روح کو کس طرح قرار آئے تم گلستانِ آرزو تو بنو پھر خزاں آئے یا بہار آئے وہ نہ سمجھے دلِ حزیں کی بات اشک آنکھوں میں بار بار آئے ہے زمانے میں اعتبارِ وفا کاش تم کو بھی اعتبار آئے (صوفی تبسّم)
  12. فرخ منظور

    تبسم خرد مندی جنونِ عشق کا حاصل نہ بن جائے ۔ صوفی تبسّم

    خرد مندی جنونِ عشق کا حاصل نہ بن جائے یہ طوفانِ رواں تھم کر کہیں ساحل نہ بن جائے نظر کی بے زبانی داستانِ دل نہ بن جائے یہ خاموشی مری ہنگامۂ محفل نہ بن جائے الجھ کر رہ نہ جائے کہکشاں ہی میں نظر میری نشانِ جادۂ منزل، کہیں منزل نہ بن جائے میں ہر دشواریِ انجام کو آساں سمجھتا ہوں یہ آسانی مری...
  13. فرخ منظور

    تبسم نگاہِ لطف وہ مجھ پر وفا شعار کرے ۔ صوفی تبسّم

    نگاہِ لطف وہ مجھ پر وفا شعار کرے جو ایک بار کہوں تو ہزار بار کرے بنا رہے ہیں گلستاں میں طائرانِ بہار وہ آشیاں کہ قفس کو بھی شرمسار کرے نگاہِ ناز سے مستی بکھیرنے والے تری نگاہ دو عالم کو مے گسار کرے جسے جہان میں سدا اشک بار رہنا ہو ترے فسونِ تبسّم کا اعتبار کرے (صوفی تبسّم)
  14. فرخ منظور

    تبسم ہوں گے آغوش میں وہ اور خُمِ صہبا ہو گا ۔ صوفی تبسّم

    ہوں گے آغوش میں وہ اور خُمِ صہبا ہو گا میرا گھر وصل کی شب خُلد کا نقشہ ہو گا تو نے کھائی تو قسم ضبطِ محبت کی مگر وہ کہیں بزم میں آ جائیں تو پھر کیا ہو گا مضطرب ہو کے جو اٹھتا ہے تری رہ کا غبار کوئی بے تاب تہِ خاک تڑپتا ہو گا حسنِ گلزار ہے تحسینِ نگہ کا محتاج آپ جس پھول کو توڑیں وہی رعنا ہو...
  15. فرخ منظور

    تبسم تری محفل میں سوزِ جاودانی لے کے آیا ہوں ۔ صوفی تبسّم

    تری محفل میں سوزِ جاودانی لے کے آیا ہوں محبت کی متاعِ غیر فانی لے کے آیا ہوں میں آیا ہوں فسونِ جذبۂ دل آزمانے کو نگاہِ شوق کی جادو بیانی لے کے آیا ہوں میں آیا ہوں سنانے قصۂ غم سرد آہوں میں ڈھلکتے آنسوؤں کی بے زبانی لے کے آیا ہوں میں تحفہ لے کے آیا ہوں تمناؤں کے پھولوں کا لٹانے کو بہارِ...
  16. فرخ منظور

    تبسم مانا کہ جائیں ہم ترے در سے مگر کہاں ۔ صوفی تبسّم

    مانا کہ جائیں ہم ترے در سے مگر کہاں بے خانماں ہیں اپنے ٹھکانے کو گھر کہاں اس نقشِ پا کو سجدے کیے جا رہا ہوں میں لے جائے دیکھیے یہ ترا رہگزر کہاں فرقت نے تیری چھین لیا لطفِ زندگی وہ رات دن کہاں ہیں وہ شام و سحر کہاں اٹھتی ہے ہوک سی دلِ امیدوار میں پڑتی ہے بزم میں تری ترچھی نظر کہاں اِس...
  17. فرخ منظور

    تبسم علاجِ دردِ دلِ سوگوار ہو نہ سکا ۔ صوفی تبسّم

    علاجِ دردِ دلِ سوگوار ہو نہ سکا وہ غم نواز رہا، غم گُسار ہو نہ سکا بہت دکھائے نگہ نے طلسمِ رنگینی خزاں پہ مجھ کو گمانِ بہار ہو نہ سکا جنوں نے لاکھ کیا چاک جیب و داماں کو یہ رازِ عشق مگر آشکار ہو نہ سکا عطا کیا جسے تُو نے غمِ محبتِ دوست وہ دل اسیرِ غمِ روزگار ہو نہ سکا وہ مجھ پہ لطفِ...
  18. فرخ منظور

    تبسم وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ ۔ صوفی تبسّم

    وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ کہاں میں کہاں یہ مقام، اللہ اللہ یہ رُوئے درخشاں، یہ زلفوں کے سائے یہ ہنگامۂ صبح و شام، اللہ اللہ یہ جلووں کی تابانیوں کا تسلسل یہ ذوقِ نظر کا دوام، اللہ اللہ وہ سہما ہوا آنسوؤں کا تلاطُم وہ آبِ رواں بے خرام، اللہ اللہ شبِ وصل کی ساعتیں مختصر سی تمناؤں کا...
  19. فرخ منظور

    تبسم رہا کروٹیں ہی بدلتا زمانہ ۔ صوفی تبّسم

    رہا کروٹیں ہی بدلتا زمانہ وہی میں، وہی در، وہی آستانہ وہی تُو، وہی شانِ بے التفاتی وہی میں، وہی جذبۂ والہانہ ترے حسن کی دلبری غیر فانی مرے عشق کی بے کلی جاودانہ یہی ہے جو ذوقِ اسیری تو اِک دن قفس کو بھی شرمائے گا آشیانہ زباں تھک گئی داستاں کہتے کہتے نگاہیں ابھی کہہ رہی ہیں فسانہ (صوفی تبسّم)
  20. فرخ منظور

    تبسم یہ رنگینیِ نوبہار، اللہ اللہ ۔ صوفی تبسم

    یہ رنگینیِ نوبہار، اللہ اللہ یہ جامِ مے خوشگوار، اللہ اللہ اُدھر ہیں نظر میں نظارے چمن کے اِدھر رُوبرو رُوئے یار، اللہ اللہ اُدھر جلوۂ مضطرب، توبہ توبہ اِدھر یہ دلِ بے قرار، اللہ اللہ وہ لب ہیں کہ ہے وجد میں موجِ کوثر وہ زلفیں ہیں یا خلد زار، اللہ اللہ میں اِس حالتِ ہوش میں مست و بیخود وہ...
Top