سفر طویل ہے؛ رَاہِ نَجات چھوٹی ہے
علیؑ کا ذِکر بہت ہے؛ حَیات چھوٹی ہے
علیؑ کو کیسے مَیں مَولائے کائنات کہوں؟
بڑا ہے نامِ علیؑ، کائنات چھوٹی ہے
علیؑ کا ذِکر کرو، اور پڑھو یہ چہروں پر!
ہے کون اَعلٰی نَسَب، کِس کی ذات چھوٹی ہے؟
عَجَب ہیں شَہرِ وِلَاءِ عَلِیؑ کے لَیلُ وْ نَہَار
یَہاں کا دن ہے...
لالۂ صحرا
علامہ اقباؔل
یہ گنبدِ مِینائی، یہ عالَمِ تنہائی
مجھ کو تو ڈراتی ہے اِس دشت کی پنہائی
بھٹکا ہُوا راہی مِیں، بھٹکا ہُوا راہی تُو
منزِل ہے کہاں تیری! اے لالۂ صحرائی
خالی ہی کلِیموں سے یہ کوہ و کمر، ورنہ !
تُو شعلۂ سِینائی، مَیں شعلۂ سِینائی
تُو شاخ سے کیوں پُھوٹا، مَیں شاخ سی کیوں...
غزل
جگؔر مراد آبادی
آیا نہ راس نالۂ دِل کا اثر مجھے
اب تُم مِلے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے
دِل لے کے مجھ سے دیتے ہو داغِ جِگر مجھے
یہ بات بُھولنے کی نہیں، عمر بھر مجھے
ہر سُو دِکھائی دیتے ہیں وہ، جلوہ گر مجھے
کیا کیا فریب، دیتی ہے میری نظر مجھے
مِلتی نہیں ہے لذّتِ دردِ جِگر مجھے
بُھولی...
غزل
احسان دانشؔ
یہ تو نہیں کہ تُم سے محبّت نہیں مُجھے
اِتنا ضرُور ہے کہ شِکایت نہیں مجھے
میں ہُوں، کہ اِشتیاق میں سر تا قَدم نَظر
وہ ہیں کہ ،ِاک نَظر کی اِجازت نہیں مجھے
آزادئِ گُناہ کی حسرت کے ساتھ ساتھ
آزادئِ خیال کی جُرأت نہیں مجھے
دَوبھر ہے گرچہ جَور ِعَزِیزاں سے زندگی
لیکن خُدا...
غزل
جوكہی تجھ سے بات كہہ دينا
ہےمصيبت میں ذات كہہ دینا
أن كے جانے سے جو ہُوئی طارى
وه كٹی ہے نہ رات كہہ دینا
ہم دِل آزارى پر، پَشیماں ہیں !
پُوچھ كر ذات پات كہہ دينا
اِستتقامت جو قول و فعل میں تھى
ہے وه، اب بھى ثبات كہہ دينا
معنٰی ركھتے نہیں بغیر أن كے
کچھ حيات وممات كہہ دينا
أن كى صرفِ...
غزل
اسدؔ رضا
راہیں دُھواں دُھواں ہیں، سفر گرد گرد ہے
یہ منزلِ مُراد تو، بس درد درد ہے
اپنے پڑوسِیوں کو بھی پہچانتا نہیں
محصُور اپنے خَول میں اب فرد فرد ہے
اِس موسَمِ بَہار میں، اے باغباں! بتا
چہرہ ہر ایک پُھول کا، کیوں زرد زرد ہے
لفّاظِیوں کا گرْم ہے بازار کِس قَدر
دستِ عَمل...
غزل
صبیحہ صباؔ
بظاہر رونقوں میں، بزم آرائی میں جیتے ہیں
حقیقت ہے، کہ ہم تنہا ہیں تنہائی میں جیتے ہیں
سَجا کر چار سُو رنگیں محل تیرے خیالوں کے!
تِری یادوں کی رعنائی میں، زیبائی میں جیتے ہیں
خُوشا! ہم اِمتحانِ دشت گردی کے نتیجے میں!
بَصد اعجاز، مشقِ آبلہ پائی میں جیتے ہیں
سِتَم گاروں نے...
غزل
نشورؔ واحدی
کبھی جُھوٹے سَہارے غم میں راس آیا نہیں کرتے
یہ بادل اُڑ کے آتے ہیں، مگر سایا نہیں کرتے
یہی کانٹے تو ، کچھ خوددار ہیں صحن ِگلُِستاں میں
کہ شبنم کے لیے دامن تو پھیلایا نہیں کرتے
وہ لے لیں گوشۂ دامن میں اپنے، یا فلک چُن لے
مری آنکھوں میں آنسو، بار بار آیا نہیں کرتے
سلیقہ...
غزل
خوش باش زندگی کے کسی باب کی طرح
ہم دن گُزار آئے حَسِیں خواب کی طرح
پل بھر نہ اِنحِرافِ نظارہ، نہ اِحتِمال!
تھے کم نہ لُطفِ دید میں مہتاب کی طرح
بارآورایک بھی دِلی خواہش نہیں ہوئی
گُزری ہر ایک شب شَبِ سُرخاب کی طرح
ہم دِل کی بے بَسی کا ازالہ نہ کر سکے!
گھیرا تھا اُن کےعشق نے گرداب کی...
غزل
صَبا میں مست خِرامی گُلوں میں بُو نہ رہے
تِرا خیال اگر دِل کے رُو برُو نہ رہے
تیرے بغیر ہر اِک آرزُو ادھُوری ہے
جو تُو مِلے تو، مجھے کوئی آرزُو نہ رہے
ہے جُستجوُ میں تِری اِک جہاں کا درد و نِشاط
تو کیا عجب کہ، کوئی اور جُستجُو نہ رہے
تِری طَلب سے عبارت ہے میری سوز و حیات
ہو سرد...
غزل
شفیق خلؔش
ا گر نہ لُطف دِل و جاں پہ بے بہا ہوگا
تو اِضطِراب ہی بے حد و اِنتہا ہوگا
خُدا ہی جانے، کہ درپیش کیا رہا ہوگا
ہمارے بارے اگر اُس نے یہ کہا ہوگا
ہُوا نہ مجھ سے جُدائی کے ہر عذاب کا ذکر !
اِس اِک خیال سے، اُس نے بھی یہ سہا ہوگا
خیال آئے بندھی ہچکیوں پہ اس کا ضرور
کسی بہانے ہمیں...
غزل
شفیق خلشؔ
اپنی مرضی سے گو نہیں آئے
رونا قسمت کا رو نہیں آئے
دُوری اِک عارضی تقاضہ تھی
اُن سے ہم ہاتھ دھو نہیں آئے
دِل کی بربادی کا سَبب ہیں وہی
کہہ کے آنے کا، جو نہیں آئے
یار مطلُوب تھے جو کاندھے کو !
دو ہی پہنچے تھے، دو نہیں آئے
بندھ ٹوٹیں گے ضبط کے سارے
یہ ہَمَیں ڈر تھا، سو نہیں آئے...
غزل
ضیاؔ جالندھری
چاند ہی نِکلا، نہ بادل ہی چَھما چَھم برسا
رات دِل پر، غَمِ دِل صُورتِ شبنم برسا
جلتی جاتی ہیں جَڑیں، سُوکھتے جاتے ہیں شَجر
ہو جو توفیِق! تو آنسو ہی کوئی دَم برسا
میرے ارمان تھے برسات کے بادل کی طرح
غُنچے شاکی ہیں کہ، یہ ابر بہت کم برسا
پے بہ پے آئے، سجل تاروں کے...
غزل
کرب چہرے کا چھپاتے کیسے
پُر مُسرّت ہیں جتاتے کیسے
ہونٹ بھینچے تھے غَم و رِقَّت نے
مسکراہٹ سی سجاتے کیسے
بعد مُدّت کی خبرگیری پر
اشک آنکھوں کے بچاتے کیسے
دوستی میں رہے برباد نہ کم !
دشمنی کرتے نبھاتے کیسے
درد و سوزش سے نہ تھا آسودہ
دِل تصور سے لُبھاتے کیسے
اِک قیامت سی بَپا حالت میں...
غزل
وفورِ عِشق سے بانہوں میں بھر لیا تھا تمھیں
اگرچہ عُمر سے اِک دوست کر لیا تھا تمھیں
رَہے کچھ ایسے تھے حالات، مَیں سمجھ نہ سکا!
پِھر اُس پہ، عِشق میں بھی سہل تر لیا تھا تمھیں
کسی بھی بات کا کیونکر یقیں نہیں تھا مجھے
خُدا ہی جانے، جو آشفتہ سر لیا تھا تمھیں
اگرچہ مشورے بالکل گراں نہیں...
غزل
شاید کہِیں بھی ایسا اِک آئینہ گر نہ ہو
اپنے ہُنر سے خود جو ذرا بَہرہ وَر نہ ہو
شاعِر کے ہر لِکھے کا مَزہ خُوب تر نہ ہو
اپنی سُخن وَرِی میں اگر دِیدَہ وَر نہ ہو
جانے کہاں گئی مِری ترغِیبِ زندگی
جس کے بِنا حَیات یہ جیسے بَسر نہ ہو
سَیر و صَبا کے جَھونکوں کی اُمّید اب نہیں
طاری اِک ایسی...
غزل
وَسوَسوں کا اُنھیں غلبہ دینا!
چاہیں سوچوں پہ بھی پہرہ دینا
وہ سلاسل ہیں، نہ پہرہ دینا
چاہے دِل ضُعف کو تمغہ دینا
ٹھہری شُہرت سے حَسِینوں کی رَوِش!
حُسن کے سِحْر سے دھوکہ دینا
خود کو دینے سا تو دُشوار نہیں
اُن کا ہر بات پہ طعنہ دینا
بُھولے کب ہیں رُخِ مہتاب کا ہم !
اوّل اوّل کا وہ...
غزل
کب گیا آپ سے دھوکہ دینا
سب کو اُمّید کا تحفہ دینا
چاند دینا، نہ سِتارہ دینا
شَبْ بَہرطَور ہی تِیرَہ دینا
سَبقَت اِفْلاس سے قائِم وہ نہیں
ہے اَہَم پیار سے پَیسہ دینا
در بَدر ہونا وہ کافی ہے ہَمَیں
اب کوئی اور نہ نقشہ دینا
ماسِوا یار کے، جانے نہ کوئی
دلِ بے خوف کو خدشہ دینا
کم...
غزل
تیرے حُسن و جمال تک پُہنچا
میں بھی، کتِنے کمال تک پُہنچا
بعد مُدّت کے ذہنِ آشُفتہ !
ایک نازُک خیال تک پُہنچا
اے مِرے شَوقِ بے مِثال! مجھے
آج، اُس بے مِثال تک پُہنچا
اِک زوالِ عرُوج سے ہو کر
مَیں عرُوجِ زوال تک پُہنچا
ذہْن آزاد ہو گیا میرا
جب یَقِیں اِحتمال تک پُہنچا
تذکرہ حُسن کے...
غزل
اقبال عظیم
آپ میری طبیعت سے واقف نہیں، مُجھ کو بے جا تکلّف کی عادت نہیں
مُجھ کو پُرسِش کی پہلے بھی خواہش نہ تھی، اور پُرسِش کی اب بھی ضرُورت نہیں
یُوں سَرِ راہ بھی پُرسِشِ حال کی، اِس زمانے میں فُرصت کسی کو کہاں!
آپ سے یہ مُلاقات رسمی سَہِی، اِتنی زحمت بھی کُُچھ کم عِنایت نہیں
آپ...