غزل
دُنیا کو تو حالات سے اُمّید بڑی تھی
پر چاہنے والوں کو جُدائی کی پڑی تھی
کِس جانِ گُلِستاں سے یہ ملِنے کی گھڑی تھی
خوشبوُ میں نہائی ہُوئی اِک شام کھڑی تھی
میں اُس سے ملی تھی کہ خُود اپنے سے مِلی تھی
وہ جیسے مِری ذات کی گُم گشتہ کڑی تھی
یُوں دیکھنا اُس کو کہ کوئی اور نہ دیکھے !
انعام تو...
غزل
اِک گُلِ تر بھی شَرر سے نِکلا
بسکہ ہر کام ہُنر سے نِکلا
میں تِرے بعد پھر اے گُم شدگی
خیمۂ گردِ سفر سے نکِلا
غم نِکلتا نہ کبھی سینے سے !
اِک محّبت کی نظر سے نِکلا
اے صفِ ابرِ رَواں! تیرے بعد
اِک گھنا سایہ شجر سے نِکلا
راستے میں کوئی دِیوار بھی تھی
وہ اِسی ڈر سے، نہ گھر سے نِکلا...
غزل
رقم کریں گے تِرا نام اِنتسابوں میں
کہ اِنتخابِ سُخن ہے یہ اِنتخابوں میں
مِری بَھری ہُوئی آنکھوں کو چشمِ کم سے نہ دیکھ
کہ آسمان مُقیّد ہیں، اِن حبابوں میں
ہر آن دِل سے اُلجھتے ہیں دو جہان کے غم
گِھرا ہے ایک کبُوتر کئی عقابوں میں
ذرا سُنو تو سہی کان دھر کے نالۂ دِل
یہ داستاں نہ ملے گی...
غزل
کوئی پیکر ہے، نہ خوشبُو ہے، نہ آواز ہے وہ
ہاتھ لگتا ہی نہیں، ایسا کوئی راز ہے وہ
ایک صُورت ہے جو مِٹتی ہے، بَنا کرتی ہے
کبھی انجام ہے میرا ،کبھی آغاز ہے وہ
اُس کو دُنیا سے مِری طرح ضَرر کیوں پُہنچے
میں زمانے کا مُخالِف ہُوں، جہاں ساز ہے وہ
لوگ اُس کے ہی اِشاروں پہ اُڑے پِھرتے ہیں
بال...
غزل
آہ و فریاد سے معمُور چمن ہے ،کہ جو تھا
مائلِ جَور ، وہی چرخ ِکُہن ہے، کہ جو تھا
حُسن پابندیٔ آدابِ جَفا پر مجبُور
عِشق ، آوارہ سَر ِکوہ و دَمن ہے،کہ جو تھا
لاکھ بدلا سہی منصوُر کا آئینِ حیات !
آج بھی سِلسِلۂ دار و رَسن ہے، کہ جو تھا
ڈر کے چونک اُٹھتی ہیں خوابوں سے نَویلی کلیاں
خندۂ گُل...
غزل
یہ قول تِرا، یاد ہے اے ساقئ دَوراں !
انگوُر کے اِک بِیج میں سو میکدے پنہاں
انگڑائیاں صُبحوں کی سَرِ عارضِ تاباں
وہ کروَٹیں شاموں کی سرِ کاکُلِ پیچاں
اِن پُتلیوں میں جیسے ہرن مائلِ رَم ہوں
وحشت بھری آنکھیں ہیں کہ اِک دشتِ غزالاں
ہے دار و مدار اہلِ زمانہ کا تجھی پر
تُو قطبِ جہاں، کعبہ...
غزل
ہر بات میں مہکے ہُوئے جذبات کی خوشبوُ
یاد آئی بہت، پہلی مُلاقات کی خوشبوُ
چُھپ چُھپ کے نئی صُبح کا مُنہ چُوم رہی ہے
اُن ریشمی زُلفوں میں بَسی، رات کی خوشبوُ
موسم بھی ، حَسِینوں کی ادا سِیکھ گئے ہیں
بادل ہیں چھپائے ہُوئے برسات کی خوشبوُ
گھر کتنے ہی چھوٹے ہوں ، گھنے پیڑ ملیں گے !
شہروں سے...
غزل
جگنو کوئی سِتاروں کی محِفل میں کھو گیا
اِتنا نہ کر ملال ، جو ہونا تھا، ہوگیا
پروَردِگار جانتا ہے تُو دِلوں کا حال
مَیں جی نہ پاؤں گا، جو اُسے کُچھ بھی ہوگیا
اب اُس کو دیکھ کر، نہیں دھڑکے گا میرا دِل
کہنا کہ، مجھ کو یہ بھی سبق یاد ہو گیا
بادل اُٹھا تھا سب کو رُلانے کے واسطے
آنچل...
غزل
یہ کون آتا ہے تنہائیوں میں جام لیِے
جلو میں چاندنی راتوں کا اہتمام لیِے
چٹک رہی ہے کسی یاد کی کلی دِل میں
نظر میں رقصِ بہاراں کی صُبح و شام لیِے
ہجومِ بادۂ و گُل میں ہجُومِ یاراں میں
کسی نِگاہ نے جُھک کر مِرے سلام لیِے
مہک مہک کے جگاتی رہی نسیمِ سَحر
لبوں پہ یارِ مسیحا نفس کا نام لیِے...
غزل
اور بھی ہو گئے بیگانہ وہ، غفلت کرکے
آزمایا جو اُنھیں ، ضبطِ محبّت کرکے
دِل نے چھوڑا ہے، نہ چھوڑے تِرے مِلنے کا خیال
بارہا دیکھ لِیا ، ہم نے ملامت کرکے
دیکھنے آئے تھے وہ، اپنی محبّت کا اثر
کہنے کو یہ کہ، آئے ہیں عیادت کرنے
پستیِ حوصلۂ شوق کی اب ہے یہ صلاح
بیٹھ رہیے غَمِ ہجراں پہ قناعت...
غزل
سینہ خُوں سے بھرا ہُوا میرا
اُف یہ بدمست مے کدہ میرا
نا رسائی پہ ناز ہے جس کو
ہائے وہ شوقِ نارَسا میرا
عِشق کو مُنہ دِکھاؤں گا کیونکر
ہجر میں رنگ اُڑ گیا میرا
دلِ غم دِیدہ پر خُدا کی مار
سینہ آہوں سے چِھل گیا میرا
یاد کے تُند و تیز جھونکے سے
آج ہر داغ جَل اُٹھا میرا
یادِ ماضی عذاب...
غزل
یہ سِتَم اور ، کہ ہم پُھول کہیں خاروں کو
اِس سے تو آگ ہی لگ جائے سمن زاروں کو
ہے عبث فکرِ تلافی تجھے، اے جانِ وفا !
دُھن ہے اب اور ہی کُچھ ،تیرے طلبگاروں کو
تنِ تنہا ہی گُذاری ہیں اندھیری راتیں
ہم نے گبھراکے، پُکارا نہ کبھی تاروں کو
ناگہاں پُھوٹ پڑےروشنیوں کے جھرنے
ایک جھونکا ہی اُڑا...
غزل
تاثیر پسِ مرگ دِکھائی ہے وفا نے
جو مجھ پہ ہنسا کرتے تھے، روتے ہیں سرہانے
کیا کہہ دیا چُپ کے سے، نہ معلوُم قضا نے
کروَٹ بھی نہ بدلی تِرے بیمارِ جفا نے
ہستی مِری، کیا جاؤں مَیں اُس بُت کو منانے
وہ ضِد پہ جو آئے تو فَرِشتوں کی نہ مانے
اَوراقِ گُلِ تر، جو کبھی کھولے صبا نے
تحرِیر تھے...
غزل
چند افسانے سے لَوحِ دِل پہ کندہ کرگیا
مصلحت اندیش تھا، رُسوائیوں سے ڈر گیا
کتنی یخ بستہ فِضا ہے، کتنے پتّھر دِل ہیں لوگ
ایک اِک شُعلہ تمنّا کا ، ٹھٹھر کر مر گیا
ذہن میں میرے رَچا ہے اب نئے موسم کا زہر !
سوچ کے پردے سے، رنگوں کا ہر اِک منظر گیا
ایک مُدّت سے کھڑا ہُوں آنکھ کی دہلیز پر...
غزل
جو اَب جہانِ بَرَہنہ کا اِستعارہ ہُوا
مَیں زندگی تِرا اِک پیرَہَن اُتارا ہُوا
سِیاہ خُون ٹپکتا ہے لمحے لمحے سے !
نہ جانے رات پہ شب خُوں ہے کِس نے مارا ہُوا
جکڑ کے سانسوں میں تشہیر ہو رہی ہے مِری
میں ایک قید سپاہی ہُوں جنگ ہارا ہُوا
پھر اُس کے بعد وہ آنسو اُتر گیا دِل میں
ذرا سی دیر...
غزل
کچھ بھی ہو، وہ اب دِل سے جُدا ہو نہیں سکتے
ہم مُجرم ِتوہِین وفا ہو نہیں سکتے
اے موجِ حوادِث ! تجھے معلوُم نہیں کیا
ہم اہلِ محبّت ہیں، فنا ہو نہیں سکتے
اِتنا تو بتا جاؤ، خفا ہونے سے پہلے
وہ کیا کریں جو تم سے خفا ہو نہیں سکتے
اِک آپ کا در ہے مِری دُنیائے عقِیدت
یہ سجدے کہِیں اور ادا ہو...
صد شکر، یہ سعادت ہماری قسمت میں آئی کہ محترم طارق شاہ کو دس ہزار مراسلوں کی تکمیل پر مبارک باد پیش کرنے کا شرف حاصل کر سکیں۔ بلا شک و شبہ، شاہ صاحب نے اردو شاعری کے حوالے سے منتخب کردہ کلام کی اِس خوب صورت محفل میں باقاعدگی کے ساتھ شراکت کے ذریعے اردو ادب کی ایسی خاموش خدمت کی ہے کہ اس خاص...
غزل
جب سب کے دِلوں میں گھر کرے تُو
پِھر کیوں ہَمَیں در بَدر کرے تُو
یہ حال ہے شام سے تو اے دِل!
مُشکِل ہے کہ اب سَحر کرے تُو
آنکھوں میں نِشان تک نہ چھوڑے
خوابوں کی طرح سفر کرے تُو
اِتنا بھی گُریز اہلِ دِل سے
کوئی نہ کرے، مگر کرے تُو
خوشبُو ہو ، کہ نغمہ ہو، کہ تارا
ہر ایک کو، نامہ بر...
غزل.
اِسم تبدیلی سے کیا ہوتا ہے
عیب کب اِس سے چھپا ہوتا ہے
اچھے اوصاف ہوں سب پر ظاہر
جُھوٹ بھی سب پہ کُھلا ہوتا ہے
بات بے بات ہو تقرار جہاں
جہل پہ جہل ڈٹا ہو تا ہے
باز گشت اپنی سماعت پہ گراں
دہنِ جاہل کا رَٹا ہوتا ہے
وہ بھی کیا شخص ہے محِفل میں، خلؔش !
مَیں ہی قابل ، پہ ڈٹا ہوتا ہے...
غزل
کبھی کسی سے، کبھی خود سے برسر ِپیکار
مِرا وجُود ہےتفہیمِ جُستجُو کا شِکار
مَیں جِس کی کھَوج میں اِک عُمر سے ہُوں سرگرداں
وہ میرا چاند رہا دُھند میں پَسِ دِیوار
غرُورِ شوق کی مشعل اُٹھا کے نِکلا تھا
ہُوا ہُوں رات کی سنگِنیوں میں تِیرہ فِشار
نجانے کِتنے زمانوں سے ہُوں یہاں محصُور
ہے...