غزل
مٹّی میں مِلا دے، کہ جُدا ہو نہیں سکتا
اب اِس سے زیادہ ،مَیں تِرا ہو نہیں سکتا
دہلیز پہ رکھ دی ہیں کسی شخص نے آنکھیں
روشن کبھی اِتنا تو دِیا ہو نہیں سکتا
بس تو مِری آواز میں آواز مِلا دے !
پھر دیکھ کہ اِس شہر میں کیا ہو نہیں سکتا
اے موت ! مجھے تُونے مُصِیبت سے نِکالا
صیّاد سمجھتا تھا...
عِشق کی دُھول میں جو اَٹ جائے
دو جہاں میں وہ جیسے بٹ جائے
ہو زباں کو بس ایک نام کا وِرد
یوں کسی کو نہ کوئی رٹ جا ئے
رات کب عافیت سے ٹلتی ہے
مُضطرب دِن جو ہم سے کٹ جائے
خوش خیالی کہَیں وہ ساتھ اپنا
ابرِ اُمِّید اب تو چَھٹ جائے
پائی مُدّت سے ہےنہ خیر و خبر
ذہنِ مرکوُز کُچھ تو بٹ جائے
تب...
ہستی کو تیرے پیار نے بادل بنادِیا
نظروں میں لیکن اوروں کی پاگل بنادِیا
اعزاز یہ ازل سے ہے تفوِیضِ وقت کہ
ہر یومِ نَو کو گُذرا ہُوا کل بنادِیا
اب تشنگی کا یُوں مجھے احساس تک نہ ہو
دِل ہی تمھاری چاہ کا چھاگل بنادِیا
جا حُسنِ پُرشباب پہ ٹھہرے وہیں نِگاہ !
نظروں کو شوقِ دِید نے ،آنچل بنادِیا...
اب کی چلی وطن میں ہَوا کِس طرف کی ہے
پھیلی نویدِ صُبحِ جزا کِس طرف کی ہے
ہو احتساب اگر تو بِلا امتیاز ہو!
مغرب کی گر نہیں تو وَبا کِس طرف کی ہے
محفِل عدُو کے گھر سی ہے غُربت کدہ پہ بھی !
نیّت ، اے جانِ بزم! بتا کِس طرف کی ہے
احساس و عقل سے جو تِری بالا تر ہے تو
"مٹّی اُڑا کے دیکھ ہَوا کِس...
کُہرام
وہ پستیاں کہ ہمالہ تِری دُہائی ہے
تمام دیوتا خاموش، سر جُھکائے ہُوئے
ہزار راکھشسوں کی ہنسی کا ہے کُہرام
ہزار ناگ نِکل آئے ، پَھن اُٹھائے ہُوئے
شاؔذ تمکنت
1985- 1933
حیدرآباد دکن، انڈیا
غزل
کب تک نجات پائیں گے وہم و یقیں سے ہم
اُلجھے ہُوئے ہیں آج بھی دُنیا و دِیں سے ہم
یُوں بیٹھتے ہیں بزم میں خلوت گزِیں سے ہم
لے جائیں اپنے اشک بھی چُن کر زمِیں سے ہم
ہر روز اُن کے نام کے سَو پُھول کِھلتے ہیں
چُن کر قَفس میں لائے ہیں کلیاں کہیں سے ہم
جب تک تمھارے قدموں کی آہٹ نہیں سُنیں...
غزل
دُنیا کو تو حالات سے اُمّید بڑی تھی
پر چاہنے والوں کو جُدائی کی پڑی تھی
کِس جانِ گُلِستاں سے یہ ملِنے کی گھڑی تھی
خوشبوُ میں نہائی ہُوئی اِک شام کھڑی تھی
میں اُس سے ملی تھی کہ خُود اپنے سے مِلی تھی
وہ جیسے مِری ذات کی گُم گشتہ کڑی تھی
یُوں دیکھنا اُس کو کہ کوئی اور نہ دیکھے !
انعام تو...
غزل
اِک گُلِ تر بھی شَرر سے نِکلا
بسکہ ہر کام ہُنر سے نِکلا
میں تِرے بعد پھر اے گُم شدگی
خیمۂ گردِ سفر سے نکِلا
غم نِکلتا نہ کبھی سینے سے !
اِک محّبت کی نظر سے نِکلا
اے صفِ ابرِ رَواں! تیرے بعد
اِک گھنا سایہ شجر سے نِکلا
راستے میں کوئی دِیوار بھی تھی
وہ اِسی ڈر سے، نہ گھر سے نِکلا...
غزل
رقم کریں گے تِرا نام اِنتسابوں میں
کہ اِنتخابِ سُخن ہے یہ اِنتخابوں میں
مِری بَھری ہُوئی آنکھوں کو چشمِ کم سے نہ دیکھ
کہ آسمان مُقیّد ہیں، اِن حبابوں میں
ہر آن دِل سے اُلجھتے ہیں دو جہان کے غم
گِھرا ہے ایک کبُوتر کئی عقابوں میں
ذرا سُنو تو سہی کان دھر کے نالۂ دِل
یہ داستاں نہ ملے گی...
غزل
کوئی پیکر ہے، نہ خوشبُو ہے، نہ آواز ہے وہ
ہاتھ لگتا ہی نہیں، ایسا کوئی راز ہے وہ
ایک صُورت ہے جو مِٹتی ہے، بَنا کرتی ہے
کبھی انجام ہے میرا ،کبھی آغاز ہے وہ
اُس کو دُنیا سے مِری طرح ضَرر کیوں پُہنچے
میں زمانے کا مُخالِف ہُوں، جہاں ساز ہے وہ
لوگ اُس کے ہی اِشاروں پہ اُڑے پِھرتے ہیں
بال...
غزل
آہ و فریاد سے معمُور چمن ہے ،کہ جو تھا
مائلِ جَور ، وہی چرخ ِکُہن ہے، کہ جو تھا
حُسن پابندیٔ آدابِ جَفا پر مجبُور
عِشق ، آوارہ سَر ِکوہ و دَمن ہے،کہ جو تھا
لاکھ بدلا سہی منصوُر کا آئینِ حیات !
آج بھی سِلسِلۂ دار و رَسن ہے، کہ جو تھا
ڈر کے چونک اُٹھتی ہیں خوابوں سے نَویلی کلیاں
خندۂ گُل...
غزل
یہ قول تِرا، یاد ہے اے ساقئ دَوراں !
انگوُر کے اِک بِیج میں سو میکدے پنہاں
انگڑائیاں صُبحوں کی سَرِ عارضِ تاباں
وہ کروَٹیں شاموں کی سرِ کاکُلِ پیچاں
اِن پُتلیوں میں جیسے ہرن مائلِ رَم ہوں
وحشت بھری آنکھیں ہیں کہ اِک دشتِ غزالاں
ہے دار و مدار اہلِ زمانہ کا تجھی پر
تُو قطبِ جہاں، کعبہ...
غزل
ہر بات میں مہکے ہُوئے جذبات کی خوشبوُ
یاد آئی بہت، پہلی مُلاقات کی خوشبوُ
چُھپ چُھپ کے نئی صُبح کا مُنہ چُوم رہی ہے
اُن ریشمی زُلفوں میں بَسی، رات کی خوشبوُ
موسم بھی ، حَسِینوں کی ادا سِیکھ گئے ہیں
بادل ہیں چھپائے ہُوئے برسات کی خوشبوُ
گھر کتنے ہی چھوٹے ہوں ، گھنے پیڑ ملیں گے !
شہروں سے...
غزل
جگنو کوئی سِتاروں کی محِفل میں کھو گیا
اِتنا نہ کر ملال ، جو ہونا تھا، ہوگیا
پروَردِگار جانتا ہے تُو دِلوں کا حال
مَیں جی نہ پاؤں گا، جو اُسے کُچھ بھی ہوگیا
اب اُس کو دیکھ کر، نہیں دھڑکے گا میرا دِل
کہنا کہ، مجھ کو یہ بھی سبق یاد ہو گیا
بادل اُٹھا تھا سب کو رُلانے کے واسطے
آنچل...
غزل
یہ کون آتا ہے تنہائیوں میں جام لیِے
جلو میں چاندنی راتوں کا اہتمام لیِے
چٹک رہی ہے کسی یاد کی کلی دِل میں
نظر میں رقصِ بہاراں کی صُبح و شام لیِے
ہجومِ بادۂ و گُل میں ہجُومِ یاراں میں
کسی نِگاہ نے جُھک کر مِرے سلام لیِے
مہک مہک کے جگاتی رہی نسیمِ سَحر
لبوں پہ یارِ مسیحا نفس کا نام لیِے...
غزل
اور بھی ہو گئے بیگانہ وہ، غفلت کرکے
آزمایا جو اُنھیں ، ضبطِ محبّت کرکے
دِل نے چھوڑا ہے، نہ چھوڑے تِرے مِلنے کا خیال
بارہا دیکھ لِیا ، ہم نے ملامت کرکے
دیکھنے آئے تھے وہ، اپنی محبّت کا اثر
کہنے کو یہ کہ، آئے ہیں عیادت کرنے
پستیِ حوصلۂ شوق کی اب ہے یہ صلاح
بیٹھ رہیے غَمِ ہجراں پہ قناعت...
غزل
سینہ خُوں سے بھرا ہُوا میرا
اُف یہ بدمست مے کدہ میرا
نا رسائی پہ ناز ہے جس کو
ہائے وہ شوقِ نارَسا میرا
عِشق کو مُنہ دِکھاؤں گا کیونکر
ہجر میں رنگ اُڑ گیا میرا
دلِ غم دِیدہ پر خُدا کی مار
سینہ آہوں سے چِھل گیا میرا
یاد کے تُند و تیز جھونکے سے
آج ہر داغ جَل اُٹھا میرا
یادِ ماضی عذاب...
غزل
یہ سِتَم اور ، کہ ہم پُھول کہیں خاروں کو
اِس سے تو آگ ہی لگ جائے سمن زاروں کو
ہے عبث فکرِ تلافی تجھے، اے جانِ وفا !
دُھن ہے اب اور ہی کُچھ ،تیرے طلبگاروں کو
تنِ تنہا ہی گُذاری ہیں اندھیری راتیں
ہم نے گبھراکے، پُکارا نہ کبھی تاروں کو
ناگہاں پُھوٹ پڑےروشنیوں کے جھرنے
ایک جھونکا ہی اُڑا...
غزل
تاثیر پسِ مرگ دِکھائی ہے وفا نے
جو مجھ پہ ہنسا کرتے تھے، روتے ہیں سرہانے
کیا کہہ دیا چُپ کے سے، نہ معلوُم قضا نے
کروَٹ بھی نہ بدلی تِرے بیمارِ جفا نے
ہستی مِری، کیا جاؤں مَیں اُس بُت کو منانے
وہ ضِد پہ جو آئے تو فَرِشتوں کی نہ مانے
اَوراقِ گُلِ تر، جو کبھی کھولے صبا نے
تحرِیر تھے...
غزل
چند افسانے سے لَوحِ دِل پہ کندہ کرگیا
مصلحت اندیش تھا، رُسوائیوں سے ڈر گیا
کتنی یخ بستہ فِضا ہے، کتنے پتّھر دِل ہیں لوگ
ایک اِک شُعلہ تمنّا کا ، ٹھٹھر کر مر گیا
ذہن میں میرے رَچا ہے اب نئے موسم کا زہر !
سوچ کے پردے سے، رنگوں کا ہر اِک منظر گیا
ایک مُدّت سے کھڑا ہُوں آنکھ کی دہلیز پر...