طارق شاہ

  1. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: راغب ہو کہاں دِل نہ جو مطلب ہو خُدا سے:::::shafiq khalish

    راغب ہو کہاں دِل نہ جو مطلب ہو خُدا سے جب کیفیت ایسی ہو، تو کیا ہوگا دُعا سے کب راس رہا اُن کو جُداگانہ تشخّص! رافِل رہے ہر اِک کو وہ، گفتار و ادا سے تقدیر و مُکافات پہ ایمان نہیں کُچھ جائز کریں ہر بات وہ آئینِ وَفا سے ہر نعمتِ قُدرت کو رہا اُن سے علاقہ! کب زُلف پریشاں نہ ہُوئی دستِ صبا...
  2. طارق شاہ

    نکہت بریلوی:: رَہِ وَفا کے ہر اِک پَیچ و خَم کو جان لیا

    غزل نِکہت بَریلوی رَہِ وَفا کے ہر اِک پَیچ و خَم کو جان لیا جُنوں میں دشت و بَیاباں تمام چھان لیا ہر اِک مقام سے ہم سُرخ رُو گزر آئے قدم قدم پہ محبّت نے اِمتحان لیا گراں ہُوئی تھی غَمِ زندگی کی دُھوپ، مگر کسی کی یاد نے اِک شامیانہ تان لیا تمھیں کو چاہا بہرحال، اور تمھارے سِوا زمین...
  3. طارق شاہ

    شفیق خلش :::: عذاب ترکِ تعلّق پہ کم سہا ہوگا:::::shafiq khalish

    غزل عذاب ترکِ تعلّق پہ کم سہا ہوگا وہاں بھی سَیل سا اشکوں کا یُوں بہا ہوگا یہ دِل شکنجئہ وحشت سے کب رہا ہوگا کب اِختتامِ غَمِ ہجرِ مُنتَہا ہوگا جہاں کہیں بھی وہ عُنوانِ گفتگو ٹھہرا! وہاں پہ ذکر ہمارا بھی بارہا ہوگا ہَوائے شب عِطرآگِیں تھی اس پہ کیا تکرار وُرُودِ صبح پہ تم نے بھی کُچھ...
  4. طارق شاہ

    اکرم نقاشؔ::::: ٹُوٹی ہُوئی شبیہ کی تسخیر کیا کریں

    غزل اکرم نقاشؔ ٹُوٹی ہُوئی شبیہ کی تسخیر کیا کریں بجھتے ہوئے خیال کو زنجیر کیا کریں اندھا سفر ہے زِیست کِسے چھوڑ دے کہاں اُلجھا ہُوا سا خواب ہے تعبیر کیا کریں سینے میں جذب کتنے سمندر ہُوئے، مگر آنکھوں پہ اِختیار کی تدبیر کیا کریں بس یہ ہُوا کہ راستہ چُپ چاپ کٹ گیا اِتنی سی واردات کی...
  5. طارق شاہ

    شفیق خلش :::: دیدہ دلیری سب سے، کہ اُس کو بُھلا دِیا::: Shafiq Khalis

    غزل دِیدہ دلیری سب سے، کہ اُس کو بُھلادِیا اَوروں نے جب کہا کبھی، مجھ کو رُلا دِیا جو روز بڑھ رہا تھا بہر طَور پانے کا! جذبہ وہ دِل کا ہم نے بالآخر سُلادیا تردِید و خوش گمانی کو باقی رہا نہ کُچھ ہر بات کا جواب کُچھ ایسا تُلا دِیا تشہیر میں کسر کوئی قاصِد نے چھوڑی کب! خط میرے نام لکھ کے جب...
  6. طارق شاہ

    بشیر بدر ::::::جگنُو کوئی سِتاروں کی محفِل میں کھو گیا:::::: Dr. Bashir Badr

    غزل بشیر بدرؔ جگنُو کوئی سِتاروں کی محفِل میں کھو گیا اِتنا نہ کر ملال، جو ہونا تھا ہو گیا پروردِگار! جانتا ہے تُو دِلوں کے حال مَیں جی نہ پاؤں گا، جو اُسے کُچھ بھی ہو گیا اب دیکھ کر اُسے، نہیں دھڑکے گا میرا دِل کہنا کہ، یہ سبق بھی مجھے یاد ہو گیا بادل اُٹھا تھا سب کو رُلانے کے واسطے آنچل...
  7. طارق شاہ

    شکیل بدایونی :::: عبرت آموزِ محبّت یُوں ہُوا جاتا ہے دِل - Shakeel Badayuni

    غزل شکیلؔ بدایونی عبرت آموزِ محبّت، یُوں ہُوا جاتا ہے دِل دیکھتی جاتی ہے دُنیا، ڈُوبتا جاتا ہے دِل شاہدِ نظّارۂ عالَم ہُوا جاتا ہے دِل آنکھ، جوکُچھ دیکھتی ہے، دیکھتا جاتا ہے دِل حضرتِ ناصح! بَجا ترغیبِ خُود داری، مگر اِس طَرِیقے سے کہِیں، قابُو میں آجاتا ہے دِل حشر تک وہ اپنی دُنیا کو لئے...
  8. طارق شاہ

    مرزا حامدؔ لکھنوی::::: تدبیرِ سکُونِ دِلِ ناکام نہیں ہے :::::Mirza -Hamid -Lakhnavi

    غزل مرزا حامدؔ لکھنوی تدبیرِ سکُونِ دِلِ ناکام نہیں ہے تیروں کی زبانی کوئی پیغام نہیں ہے اب کوئی علاجِ دِلِ ناکام نہیں ہے آرام کا کیا ذکر ، کہ آرام نہیں ہے سہما ہُوا دِل، دیتا ہے یہ کہہ کے ٹہوکے ! ہو جس کی سَحَر خیر سے ، وہ شام نہیں ہے شورِیدہ سَرِی پُوچھ نہ تدبِیرِ رہائی اب کام یہ...
  9. طارق شاہ

    کشور ناہؔید:::::نہ کوئی ربط، بجُز خامشی و نفرت کے:::::Kishwar -Naheed

    غزل کشور ناہیؔد نہ کوئی ربط، بجُز خامشی و نفرت کے مِلیں گے اب تو خلاصے یہی محبّت کے مَیں قیدِ جِسم میں رُسوا، تُو قید میں میری بَدن پہ داغ لیے قیدِ بے صعوبت کے عجیب بات، گریباں پہ ہاتھ اُن کا ہے جو، توشہ گیرِ تمنّا تھےحرفِ غیرت کے بس اب تو حرفِ ندامت کو ثبتِ دائم دے صَبا صفت تھے رسالے غَمِ...
  10. طارق شاہ

    جوش ملیح آبادی :::::آؤ پھر جانبِ سرکارِ خرابات چلیں::::: Josh -Maleehabadi

    جوشؔ ملیح آبادی آؤ پھر جانبِ سرکارِ خرابات چلیں پھر، پئے بندگئ قبلۂ حاجات چلیں جِن سے تابندہ ہو محرابِ نظامِ شمسی آؤ، سینوں میں جگائے وہ خیالات چلیں آؤ پھر جانبِ درگاہِ درخشانِ اُصول چھوڑکر، دائرۂ زِشتِ فروعات چلیں ہر نَفَس اِک اُفُقِ نَو ہو برافگندہ نقاب یُوں اُٹھائے ہُوئے قُدرت کے حجابات...
  11. طارق شاہ

    شکیل بدایونی :::: قُدرت کے حَسِیں نظاروں میں پُرکیف خزانے اور بھی ہیں - Shakeel Badayuni

    شکیلؔ بدایونی غزل قُدرت کے حَسِیں نظاروں میں پُرکیف خزانے اور بھی ہیں میخانہ اگر وِیراں ہے تو کیا، رِندوں کے ٹھکانے اور بھی ہیں آغازِ جَفا کی تلخی سے، گھبرا نہ دِلِ آزار طَلَب! یہ وقت، یہیں پہ ختم نہیں، کُچھ تلخ زمانے اور بھی ہیں لمحاتِ حَسِینِ پُرسِشِ غم، محدُود نہیں تا شُکرِ کَرَم بے لفظ...
  12. طارق شاہ

    یاس مرزا یاسؔ، یگاؔنہ، چنگیزیؔ:::::خِزاں کے جَور سے واقف کوئی بہار نہ ہو :::::yas, yagana,changezi

    غزل خِزاں کے جَور سے واقف کوئی بہار نہ ہو کسی کا پَیرَہَنِ حُسن تار تار نہ ہو برنگِ سبزۂ بیگانہ روند ڈالے فلک مجھے، بہار بھی آئے تو ساز گار نہ ہو خِزاں کے آتے ہی گلچیں نے پھیر لیں آنکھیں کسی سے کوئی وَفا کا اُمِیدوار نہ ہو ٹھہر ٹھہر دلِ وحشی، بہار آنے دے ابھی سے بہر خُدا اِتنا بے قرار نہ ہو...
  13. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::اِک ندامت عِوَض کا عیب نہیں:::::Shafiq-Khalish

    غزل اِک ندامت عِوَض کا عیب نہیں پارسا کہنا پھر بھی زیب نہیں ظاہر و باطن ایک رکھتا ہُوں مَیں ریاکار و پُر فریب نہیں ہُوں مَیں کچھ کچھ یہاں بھی شورِیدہ راست کہنا کہاں پہ عیب نہیں ہے تسلسل سے راہِ زیست گراں کُچھ تنزل نہیں، نشیب نہیں اُلجھنیں معرضِ وُجُود ہوں خود کارفرما کُچھ اِس میں غیب نہیں...
  14. طارق شاہ

    فراق گورکھپُوری:::: دیکھنے والے تِرے آج بھی بیدار سے ہیں ::::Firaq -Gorakhpuri

    غزل فراقؔ گورکھپُوری دیکھنے والے تِرے آج بھی بیدار سے ہیں آج بھی آنکھ لگائے رسن و دار سے ہیں مُدّتیں قید میں گُذرِیں، مگر اب تک صیّاد ہم اسِیرانِ قفس تازہ گرفتار سے ہیں کیا کہیں وہ تِرے اقرار، کہ اقرار سے تھے کیا کریں یہ تِرے انکار، کہ انکار سے ہیں کُچھ نہ جِینے میں ہی رکّھا ہے، نہ مرجانے...
  15. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: نہ مبتلائے تردُّد حیات کی جائے:::::Shafiq-Khalish

    غزل نہ مبتلائے تردُّد حیات کی جائے ذرا سا دُور رہے، سب سے بات کی جائے کنارا کرتے تھے اکثر شُنِید و گُفت سے جو ترس رہے ہیں کہ اب کِس بات کی جائے وَبا میں ملِنے کی اتنی نہ آرزو ہو اُنھیں جو گفتگوئے ہمہ ممکنات کی جائے نہ جینا اچھا تھا اُن کا جو مر رہے ہیں یہاں اگر تمیزِ حیات و ممات کی...
  16. طارق شاہ

    اکبر الہ آبادی :::::دِل زِیست سے بیزار ہے،معلُوم نہیں کیوں::::::::::Akbar -Allahabadi

    غزل اکبؔر الٰہ آبادی دِل زِیست سے بیزار ہے،معلُوم نہیں کیوں سینے پہ نَفَس بار ہے، معلُوم نہیں کیوں اِقرارِ وَفا یار نے ہر اِک سے کِیا ہے مُجھ سے ہی بس اِنکار ہے، معلُوم نہیں کیوں ہنگامۂ محشر کا تو مقصوُد ہے معلُوم دہلی میں یہ دربار ہے، معلوم نہیں کیوں جِس سے دِلِ رنجُور کو ،پہونچی ہے اذِیّت...
  17. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: طَلَب تھی جِس کی، وہ صُورت مِلی یہاں بھی نہیں:::::Shafiq-Khalish

    غزل طَلَب تھی جِس کی، وہ صُورت مِلی یہاں بھی نہیں مُدافعت کوغموں کی مَیں وہ جَواں بھی نہیں بَدیسی زِیست کو حاصِل مِزاج داں بھی نہیں دروغ گوئی ہو، کہہ دُوں جو رائیگاں بھی نہیں ثباتِ دِل کو ہی پُہنچے تھے ہم وطن سے یہاں کہیں جو راست، تو حاصِل ہُوا یہاں بھی نہیں غموں کی دُھوپ سے بچ لیں کِس ایک...
  18. طارق شاہ

    آتش خواجہ حیدر علی::::: چمن میں رہنے دے کون آشیاں، نہیں معلوم ::::: Khwaja Haidar Ali Aatish

    غزل خواجہ حیدر علی آتشؔ چمن میں رہنے دے کون آشیاں، نہیں معلُوم نہال کِس کو کرے باغباں، نہیں معلوم مِرے صنم کا کسی کو مکاں نہیں معلُوم خُدا کا نام سُنا ہے، نشاں نہیں معلُوم اخیر ہوگئے غفلت میں دِن جوانی کے! بہار عمر ہُوئی کب خزاں نہیں معلُوم سُنا جو ذکرِ الٰہی، تو اُس صنم نے کہا عیاں کو جانتے...
  19. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::کوئی دستور، یا رواج تو ہو:::::Shafiq-Khalish

    غزل کوئی دستور، یا رواج تو ہو عشقِ افزوں کا کوئی باج تو ہو کچھ طبیعت میں امتزاج تو ہو روزِ فردا کا اُن کی، آج تو ہو مُنتظر روز و شب رہیں کب تک! ماسوا، ہم کو کام کاج تو ہو بس اُمید اور آس کب تک یُوں! حاصِل اِس عِشق سے خراج تو ہو دِل تسلّی سے خوش رہے کب تک محض وعدوں کا کُچھ علاج تو ہو ہم نہ...
  20. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::سدِّبابِ جبر کو، دِیوار و در بالکل نہ تھا:::::Shafiq-Khalish

    سدِّبابِ جبر کو، دِیوار و در بالکل نہ تھا جو سُکوں حاصل اِدھر ہے وہ اُدھر بالکل نہ تھا تھا غضب کا دَور جس میں گھر بھی گھر بالکل نہ تھا کون تھا مُثبت عمل جو در بَدر بالکل نہ تھا حاکمِ وقت ایک ایسا تھا مُسلّط قوم پر جس پہ، باتوں کا کسی کی، کُچھ اثر بالکل نہ تھا حق شناسی، نوجوانی سے ودِیعت تھی...
Top