راغب ہو کہاں دِل نہ جو مطلب ہو خُدا سے
جب کیفیت ایسی ہو، تو کیا ہوگا دُعا سے
کب راس رہا اُن کو جُداگانہ تشخّص!
رافِل رہے ہر اِک کو وہ، گفتار و ادا سے
تقدیر و مُکافات پہ ایمان نہیں کُچھ
جائز کریں ہر بات وہ آئینِ وَفا سے
ہر نعمتِ قُدرت کو رہا اُن سے علاقہ!
کب زُلف پریشاں نہ ہُوئی دستِ صبا...
غزل
نِکہت بَریلوی
رَہِ وَفا کے ہر اِک پَیچ و خَم کو جان لیا
جُنوں میں دشت و بَیاباں تمام چھان لیا
ہر اِک مقام سے ہم سُرخ رُو گزر آئے
قدم قدم پہ محبّت نے اِمتحان لیا
گراں ہُوئی تھی غَمِ زندگی کی دُھوپ، مگر
کسی کی یاد نے اِک شامیانہ تان لیا
تمھیں کو چاہا بہرحال، اور تمھارے سِوا
زمین...
غزل
عذاب ترکِ تعلّق پہ کم سہا ہوگا
وہاں بھی سَیل سا اشکوں کا یُوں بہا ہوگا
یہ دِل شکنجئہ وحشت سے کب رہا ہوگا
کب اِختتامِ غَمِ ہجرِ مُنتَہا ہوگا
جہاں کہیں بھی وہ عُنوانِ گفتگو ٹھہرا!
وہاں پہ ذکر ہمارا بھی بارہا ہوگا
ہَوائے شب عِطرآگِیں تھی اس پہ کیا تکرار
وُرُودِ صبح پہ تم نے بھی کُچھ...
غزل
اکرم نقاشؔ
ٹُوٹی ہُوئی شبیہ کی تسخیر کیا کریں
بجھتے ہوئے خیال کو زنجیر کیا کریں
اندھا سفر ہے زِیست کِسے چھوڑ دے کہاں
اُلجھا ہُوا سا خواب ہے تعبیر کیا کریں
سینے میں جذب کتنے سمندر ہُوئے، مگر
آنکھوں پہ اِختیار کی تدبیر کیا کریں
بس یہ ہُوا کہ راستہ چُپ چاپ کٹ گیا
اِتنی سی واردات کی...
غزل
دِیدہ دلیری سب سے، کہ اُس کو بُھلادِیا
اَوروں نے جب کہا کبھی، مجھ کو رُلا دِیا
جو روز بڑھ رہا تھا بہر طَور پانے کا!
جذبہ وہ دِل کا ہم نے بالآخر سُلادیا
تردِید و خوش گمانی کو باقی رہا نہ کُچھ
ہر بات کا جواب کُچھ ایسا تُلا دِیا
تشہیر میں کسر کوئی قاصِد نے چھوڑی کب!
خط میرے نام لکھ کے جب...
غزل
بشیر بدرؔ
جگنُو کوئی سِتاروں کی محفِل میں کھو گیا
اِتنا نہ کر ملال، جو ہونا تھا ہو گیا
پروردِگار! جانتا ہے تُو دِلوں کے حال
مَیں جی نہ پاؤں گا، جو اُسے کُچھ بھی ہو گیا
اب دیکھ کر اُسے، نہیں دھڑکے گا میرا دِل
کہنا کہ، یہ سبق بھی مجھے یاد ہو گیا
بادل اُٹھا تھا سب کو رُلانے کے واسطے
آنچل...
غزل
شکیلؔ بدایونی
عبرت آموزِ محبّت، یُوں ہُوا جاتا ہے دِل
دیکھتی جاتی ہے دُنیا، ڈُوبتا جاتا ہے دِل
شاہدِ نظّارۂ عالَم ہُوا جاتا ہے دِل
آنکھ، جوکُچھ دیکھتی ہے، دیکھتا جاتا ہے دِل
حضرتِ ناصح! بَجا ترغیبِ خُود داری، مگر
اِس طَرِیقے سے کہِیں، قابُو میں آجاتا ہے دِل
حشر تک وہ اپنی دُنیا کو لئے...
غزل
مرزا حامدؔ لکھنوی
تدبیرِ سکُونِ دِلِ ناکام نہیں ہے
تیروں کی زبانی کوئی پیغام نہیں ہے
اب کوئی علاجِ دِلِ ناکام نہیں ہے
آرام کا کیا ذکر ، کہ آرام نہیں ہے
سہما ہُوا دِل، دیتا ہے یہ کہہ کے ٹہوکے !
ہو جس کی سَحَر خیر سے ، وہ شام نہیں ہے
شورِیدہ سَرِی پُوچھ نہ تدبِیرِ رہائی
اب کام یہ...
غزل
کشور ناہیؔد
نہ کوئی ربط، بجُز خامشی و نفرت کے
مِلیں گے اب تو خلاصے یہی محبّت کے
مَیں قیدِ جِسم میں رُسوا، تُو قید میں میری
بَدن پہ داغ لیے قیدِ بے صعوبت کے
عجیب بات، گریباں پہ ہاتھ اُن کا ہے
جو، توشہ گیرِ تمنّا تھےحرفِ غیرت کے
بس اب تو حرفِ ندامت کو ثبتِ دائم دے
صَبا صفت تھے رسالے غَمِ...
شکیلؔ بدایونی
غزل
قُدرت کے حَسِیں نظاروں میں پُرکیف خزانے اور بھی ہیں
میخانہ اگر وِیراں ہے تو کیا، رِندوں کے ٹھکانے اور بھی ہیں
آغازِ جَفا کی تلخی سے، گھبرا نہ دِلِ آزار طَلَب!
یہ وقت، یہیں پہ ختم نہیں، کُچھ تلخ زمانے اور بھی ہیں
لمحاتِ حَسِینِ پُرسِشِ غم، محدُود نہیں تا شُکرِ کَرَم
بے لفظ...
غزل
خِزاں کے جَور سے واقف کوئی بہار نہ ہو
کسی کا پَیرَہَنِ حُسن تار تار نہ ہو
برنگِ سبزۂ بیگانہ روند ڈالے فلک
مجھے، بہار بھی آئے تو ساز گار نہ ہو
خِزاں کے آتے ہی گلچیں نے پھیر لیں آنکھیں
کسی سے کوئی وَفا کا اُمِیدوار نہ ہو
ٹھہر ٹھہر دلِ وحشی، بہار آنے دے
ابھی سے بہر خُدا اِتنا بے قرار نہ ہو...
غزل
اِک ندامت عِوَض کا عیب نہیں
پارسا کہنا پھر بھی زیب نہیں
ظاہر و باطن ایک رکھتا ہُوں
مَیں ریاکار و پُر فریب نہیں
ہُوں مَیں کچھ کچھ یہاں بھی شورِیدہ
راست کہنا کہاں پہ عیب نہیں
ہے تسلسل سے راہِ زیست گراں
کُچھ تنزل نہیں، نشیب نہیں
اُلجھنیں معرضِ وُجُود ہوں خود
کارفرما کُچھ اِس میں غیب نہیں...
غزل
فراقؔ گورکھپُوری
دیکھنے والے تِرے آج بھی بیدار سے ہیں
آج بھی آنکھ لگائے رسن و دار سے ہیں
مُدّتیں قید میں گُذرِیں، مگر اب تک صیّاد
ہم اسِیرانِ قفس تازہ گرفتار سے ہیں
کیا کہیں وہ تِرے اقرار، کہ اقرار سے تھے
کیا کریں یہ تِرے انکار، کہ انکار سے ہیں
کُچھ نہ جِینے میں ہی رکّھا ہے، نہ مرجانے...
غزل
نہ مبتلائے تردُّد حیات کی جائے
ذرا سا دُور رہے، سب سے بات کی جائے
کنارا کرتے تھے اکثر شُنِید و گُفت سے جو
ترس رہے ہیں کہ اب کِس بات کی جائے
وَبا میں ملِنے کی اتنی نہ آرزو ہو اُنھیں
جو گفتگوئے ہمہ ممکنات کی جائے
نہ جینا اچھا تھا اُن کا جو مر رہے ہیں یہاں
اگر تمیزِ حیات و ممات کی...
غزل
اکبؔر الٰہ آبادی
دِل زِیست سے بیزار ہے،معلُوم نہیں کیوں
سینے پہ نَفَس بار ہے، معلُوم نہیں کیوں
اِقرارِ وَفا یار نے ہر اِک سے کِیا ہے
مُجھ سے ہی بس اِنکار ہے، معلُوم نہیں کیوں
ہنگامۂ محشر کا تو مقصوُد ہے معلُوم
دہلی میں یہ دربار ہے، معلوم نہیں کیوں
جِس سے دِلِ رنجُور کو ،پہونچی ہے اذِیّت...
غزل
طَلَب تھی جِس کی، وہ صُورت مِلی یہاں بھی نہیں
مُدافعت کوغموں کی مَیں وہ جَواں بھی نہیں
بَدیسی زِیست کو حاصِل مِزاج داں بھی نہیں
دروغ گوئی ہو، کہہ دُوں جو رائیگاں بھی نہیں
ثباتِ دِل کو ہی پُہنچے تھے ہم وطن سے یہاں
کہیں جو راست، تو حاصِل ہُوا یہاں بھی نہیں
غموں کی دُھوپ سے بچ لیں کِس ایک...
غزل
خواجہ حیدر علی آتشؔ
چمن میں رہنے دے کون آشیاں، نہیں معلُوم
نہال کِس کو کرے باغباں، نہیں معلوم
مِرے صنم کا کسی کو مکاں نہیں معلُوم
خُدا کا نام سُنا ہے، نشاں نہیں معلُوم
اخیر ہوگئے غفلت میں دِن جوانی کے!
بہار عمر ہُوئی کب خزاں نہیں معلُوم
سُنا جو ذکرِ الٰہی، تو اُس صنم نے کہا
عیاں کو جانتے...
غزل
کوئی دستور، یا رواج تو ہو
عشقِ افزوں کا کوئی باج تو ہو
کچھ طبیعت میں امتزاج تو ہو
روزِ فردا کا اُن کی، آج تو ہو
مُنتظر روز و شب رہیں کب تک!
ماسوا، ہم کو کام کاج تو ہو
بس اُمید اور آس کب تک یُوں!
حاصِل اِس عِشق سے خراج تو ہو
دِل تسلّی سے خوش رہے کب تک
محض وعدوں کا کُچھ علاج تو ہو
ہم نہ...
سدِّبابِ جبر کو، دِیوار و در بالکل نہ تھا
جو سُکوں حاصل اِدھر ہے وہ اُدھر بالکل نہ تھا
تھا غضب کا دَور جس میں گھر بھی گھر بالکل نہ تھا
کون تھا مُثبت عمل جو در بَدر بالکل نہ تھا
حاکمِ وقت ایک ایسا تھا مُسلّط قوم پر
جس پہ، باتوں کا کسی کی، کُچھ اثر بالکل نہ تھا
حق شناسی، نوجوانی سے ودِیعت تھی...