طارق شاہ

  1. طارق شاہ

    یاس مرزا یاسؔ، یگاؔنہ، چنگیزیؔ:::::دولتِ دِیدار نے آنکھوں کوروشن کردِیا :::::yas, yagana,changezi

    غزل دولتِ دِیدار نے آنکھوں کوروشن کردِیا مرتبہ عین الیقیں کا آج حاصِل ہو گیا لے اُڑی خلوت سرا سے تُم کو بُوئے پَیرَہَن آخر اِک دِن سب حجابِ ناز باطِل ہو گیا پار اُترے، ڈُوبنے والے محیطِ عِشق کے حلقۂ گرداب اِک آغوشِ ساحل ہوگیا صُورت آبادِ جہاں خوابِ پریشاں تھا کوئی دیکھتے ہی دیکھتےسب، نقشِ...
  2. طارق شاہ

    کفیل آزر ؔ ::::::تم سے راہ و رسم بڑھا کر دِیوانے کہلائیں کیوں ::::::kafeel aazar amrohvi

    غزل تم سے راہ و رسم بڑھا کر دِیوانے کہلائیں کیوں جن گلیوں میں پتّھر برسیں اُن گلیوں میں جائیں کیوں ویسے ہی تاریک بہت ہیں لمحے غم کی راتوں کے پھر میرے خوابوں میں یارو، وہ گیسو لہرائیں کیوں مجبوروں کی اِس بستی میں، کِس سے پُوچھیں، کون بتائے اپنا مُحلّہ بُھول گئی ہیں بے چاری لیلائیں کیوں...
  3. طارق شاہ

    ڈاکٹر وحید احمد ::::::اُس نے مٹھی کے گلداں میں ٹہنی رکھی::::::‎Dr. Waheed Ahmed

    "کولاژ" اُس نے مُٹھی کے گُلداں میں ٹہنی رکھی پتیوں کے کنارے چمکنے لگے پُھول بھرنے لگے اور چھلکنے لگے اُس نے پاؤں دھرے گھاس کے فرش پر پاؤں کا دُودِھیا پَن سوا ہوگیا سبزہ پہلے سے زیادہ ہرا ہوگیا اُس نے دیکھا اماوس بھری رات کو رات کے سنگ خارا میں روزن ہُوا نُور جوبن ہُوا، چاند روشن ہُوا اُس نے...
  4. طارق شاہ

    درد خواجہ میر درد :::: سر سبز نیستاں تھا میرے ہی اشکِ غم سے :::: Khwajah Meer Dard

    غزل سر سبز نیستاں تھا میرے ہی اشکِ غم سے تھے سینکڑوں ہی نالے وابسطہ ایک دَم سے واقف یہاں کسی سے ہم ہیں نہ کوئی ہم سے یعنی کہ آگئے ہیں بہکے ہُوئے عَدم سے مَیں گو نہیں ازل سے، پر تا ابد ہُوں باقی میرا حدوث آخر جا ہی بِھڑا قدم سے گر چاہیے تو مِلیے اور چاہیے نہ مِلیے سب تُجھ سے ہو سکے ہے، مُمکن...
  5. طارق شاہ

    فراز "Victor Motapanyane "Hope :::::ترجمہ احمد فرازؔ

    مترجم آس ۔ رات کے سُرخ انگارے غلامی کی مار کھائے ہُوئے ہمارے یخ بستہ دِلوں کو خطرے کا اشارہ دے رہے ہیں رات کی سیاہی میں انگار آنکھیں چمک رہی ہیں ہماری زندگیاں کتنی ہی اذیّتوں کے سایوں میں لپٹی ہُوئی ہیں مگر ہماری فطری انسانی اُمید مزاحمت اور نبردآرائی کے لیے ہمیں آگے اور آگے ہنکائے لیے جارہی...
  6. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::::عاصمہ، اب نہیں :::::Shafiq Khalish

    عاصمہ! میری من موہنی، پاسدارِ حقوق ! عاصمہ، اب نہیں ہاں نہیں وہ نہیں، اب کہِیں بھی نہیں دیکھ آؤ اُسے، ڈھونڈ لاؤ اُسے جو دِلوں میں رہی تو زباں پر کہِیں شاخِ سایہ تھی وہ! بس تَنی ہی رہی، جو جُھکی ہی نہیں ظُلمتوں کے مقابل ڈٹی ہی رہی ڈر سے طُوفاں کے ہرگز رُکی ہی نہیں کہہ رہے ہیں سبھی! اب رہی...
  7. طارق شاہ

    فراز احمد فرازؔ ::::::شاعر ::::::Ahmad Faraz

    شاعر جس آگ سے جل اُٹّھا ہے جی آج اچانک پہلے بھی مرے سینے میں بیدار ہُوئی تھی جس کرب کی شدّت سے مری رُوح ہے بےکل پہلے بھی مرے ذہن سے دوچار ہُوئی تھی جس سوچ سے میں آج لہو تُھوک رہا ہُوں پہلے بھی مرے حق میں یہ تلوار ہُوئی تھی وہ غم، غَمِ دُنیا جسے کہتا ہے زمانہ وہ غم! مجھے جس غم سے سروکار نہیں تھا...
  8. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: کب زیست منحرف تھی یوُں اپنے مدار سے:::::Shafiq Khalish

    غزل کب زیست منحرف تھی یوُں اپنے مدار سے وابستہ اِک اُمید نہ جانِ بہار سے بھاگ آئے دُور دیس ہم اپنے دِیار سے باقی نہ کچھ کسی پہ رہے اعتبار سے مطلق ہماری ذات پہ راغب ہی جو نہ ہوں! کیوں مانگتے ہیں ہم اُنھیں پروردگار سے خواہش ہماری کوئی بھی پُوری نہیں ہُوئی یہ تک کہ کاش مر بھی چُکیں ایک بار سے...
  9. طارق شاہ

    کیفی اعظمی :::::وہ بھی سراہنے لگے اربابِ فن کے بعد ::::::Kaifi Azmi

    کیفی اعظمی غزل وہ بھی سراہنے لگے اربابِ فن کے بعد دادِ سُخن ملی مجھے ترکِ سُخن کے بعد دِیوانہ وار چاند سے آگے نِکل گئے ٹھہرا نہ دِل کہِیں بھی تری انجمن کے بعد ہونٹوں کو سی کے دیکھیے پچھتائیے گا آپ ہنگامے جاگ اُٹھتے ہیں اکثر گھٹن کے بعد غربت کی ٹھنڈی چھاؤں میں یاد آئی اُس کی دُھوپ قدرِ وطن...
  10. طارق شاہ

    مجاز لکھنوی ::::::بس اِس تقصیر پر اپنے مقدّر میں ہے مرجانا :::::Majaz Lakhnawi

    (اسرارالحق مجازؔ) غزل بس اِس تقصیر پر اپنے مقدّر میں ہے مرجانا تبسّم کو تبسّم کیوں،نظر کو کیوں نظر جانا خِرد والوں سے حُسن و عِشق کی تنقید کیا ہوگی نہ افسونِ نِگہ سمجھا، نہ اندازِ نظر جانا مئے گُلفام بھی ہے، سازِ عشرت بھی ہے،ساقی بھی ! بہت مشکل ہے آشوبِ حقیقت سے گزر جانا غمِ دَوراں میں...
  11. طارق شاہ

    مجرُوح سُلطانپوری :::::: اہلِ طُوفاں! آؤ دِل والوں کا افسانہ کہیں :::::: Majrooh Sultanpuri

    غزل اہلِ طُوفاں! آؤ دِل والوں کا افسانہ کہیں موج کو گیسُو، بھنوَر کو چشمِ جانانہ کہیں دار پر چڑھ کر، لگا ئیں نعرۂ زُلفِ صَنم! سب، ہمیں باہوش سمجھیں چاہے دِیوانہ کہیں یارِ نکتہ داں کدھر ہے، پھر چلیں اُس کے حضوُر زندگی کو دِل کہیں اور دِل کو نذرانہ کہیں تھامیں اُس بُت کی کلائی اور کہیں اُس کو...
  12. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: خاموش و درگزر کی مری عادتوں کے بعد:::::Shafiq Khalish

    غزل خاموش و درگزر کی مری عادتوں کے بعد نادم تو وہ ر ہے تھے دِیے تہمتوں کے بعد پہچان کچھ نِکھر سی گئی شدّتوں کے بعد کندن ہُوئے ہیں غم سے جُڑی حدّتوں کے بعد دستک ہُوئی یہ کیسی درِ در گزر پہ آج شعلہ سا ایک لپکا بڑی مُدّتوں کے بعد حیراں ہمارے صبر پہ احباب تک ہُوئے راس آئے درد وغم ہمیں جب شدّتوں...
  13. طارق شاہ

    یاس ؐمیرزا یاسؔ، یگانہ، چنگیزیؔ :::::آنکھ کا مارا مرے نزدیک آزاری نہیں ::::::yas, yagana,changezi

    میرزایاسؔ، یگانہ، چنگیزیؔ غزل آنکھ کا مارا مرے نزدیک آزاری نہیں اور جو سچ پُوچھو تو اچّھی کوئی بیماری نہیں کہہ رہا ہُوں قابِلِ مرہم نہیں زخمِ جگر چارہ سازو! یہ دِل آزاری ہے غم خواری نہیں پھینک دو آئینۂ دِل کو جو گاہک اُٹھ گئے اب کہِیں بازار میں اِس کی خریداری نہیں دیکھتے ہی دیکھتے بدلا...
  14. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::::کہو تو ہم سے کہ آخر ہمارے کون ہو تم ::::::Shafiq Khalish

    غزل کہو تو ہم سے کہ آخر ہمارے کون ہو تم دل و دماغ ہیں تابع تمھارے، کون ہو تم جو آکے بیٹھ گئے ہو مکین و مالک سا دل و جگر میں محبت اُتارے کون ہو تم خیال و خواب میں خوش کن جمالِ خُوب لیے بسے ہو زیست کے بن کر سہارے کون ہو تم تمھاری ذات سے منسُوب و منسلک سے رہیں اُمید و بِیم کے سارے اِشارے کون ہو...
  15. طارق شاہ

    محشر بدایونی :::::چمن دہل گیا موسم پہ کچھ اثر بھی نہ تھا :::::Mehshar Badayuni

    غزل چمن دہل گیا موسم پہ کچھ اثر بھی نہ تھا کٹے وہ شاخ سے، جن کو شعورِ پر بھی نہ تھا نمودِ ضُو کو ہی، گر زندگی کہا جائے ! تو بے چراغ تو بستی میں ایک گھر بھی نہ تھا یہ قافلے تو یہیں منسلک ہُوئے ہم سے چلے تھے موج میں، تو ایک ہمسفر بھی نہ تھا سوادِ شہر سے ہم دشت میں بھی ہو آئے سلامتی کا...
  16. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::::اِک بھی الزام بدگماں پہ نہیں::::::Shafiq Khalish

    غزل اِک بھی الزام بدگماں پہ نہیں بس کرم رب کا بے اماں پہ نہیں ذکر لانا ہی اب زباں پہ نہیں فیصلہ سُود اور زیاں پہ نہیں دسترس یوُں بھی داستاں پہ نہیں اِختیار اُن کے رازداں پہ نہیں کیا جوانی تھی شہر بھر سے لئے اِک ہجوم اب جو آستاں پہ نہیں کچھ تو دِل اپنا فیصلوں کا مجاز ! کچھ بھروسہ بھی آسماں...
  17. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::::تقابل کسی کا ہو کیا نازبُو سے::::::Shafiq Khalish

    غزل تقابل کسی کا ہو کیا نازبُو سے نہیں اِک مشابہ مری خُوبرُو سے کہاں باز آئے ہم اِک آرزو سے ! نکھرتے مہکتے ترے رنگ و بُو سے ہُوا کچھ نہ حاصل تری جستجو سے رہے پیرہن تر ہم اپنے لہو سے اِطاعت، بغاوت میں ڈھل جائے اکثر نتیجہ نہ حاصل ہو جب گفتگو سے پیامِ بہم روشنی کی کرن ہے! ہٹے نا اُمیدی بھی...
  18. طارق شاہ

    حسرت موہانی :::::: مقرر کُچھ نہ کُچھ اِس میں رقیبوں کی بھی سازش ہے:::::Hasrat Mohani

    غزل مقرّر کچھ نہ کچھ اِس میں رقیبوں کی بھی سازش ہے وہ بے پروا الٰہی مجھ پہ کیوں گرمِ نوازش ہے پے مشق ِتغافل آپ نے مخصُوص ٹھہرایا ہمیں یہ بات بھی مُنجملۂ اسبابِ نازش ہے مِٹا دے خود ہمیں گر شِکوۂ غم مِٹ نہیں سکتا جفائے یار سے یہ آخری اپنی گزارش ہے کہاں ممکن کسی کو باریابی اُن کی...
  19. طارق شاہ

    جگر مُراد آبادی :::::: اب کہاں زمانے میں دُوسرا جواب اُن کا :::::: Jigar Muradabaadi

    اب کہاں زمانے میں دُوسرا جواب اُن کا فصلِ حُسن ہے اُن کی، موسمِ شباب اُن کا اوج پر جمال اُن کا، جوش پر شباب اُن کا عہدِ ماہتاب اُن کا، دَورِ آفتاب اُن کا عرضِ شوق پر میری پہلے کُچھ عتاب اُن کا خاص اِک ادا کے ساتھ اُف وہ پِھر حجاب اُن کا رنگ و بُو کی دُنیا میں اب کہاں جواب اُن کا عِشق...
  20. طارق شاہ

    شاذ تمکنت شاؔذ تمکنت :::::: زمِیں کا قرض ہے ہم سب کے دوش و گردن پر:::::: Shaz Tamkanat

    "زمِیں کا قرض" زمیں کا قرض ہے ہم سب کے دوش و گردن پر عجیب قرض ہے یہ ،قرضِ بے طَلب کی طرح ہَمِیں ہیں سبزۂ خود رَو ، ہَمِیں ہیں نقشِ قَدم کہ زندگی ہے یہاں موت کے سَبب کی طرح ہر ایک چیز نُمایاں ، ہر ایک شے پِنہاں کہ نیم روز کا منظر ہے نیم شب کی طرح تماشہ گاہِ جہاں عِبرَتِ نظارہ ہے زِیاں...
Top