زخمِ امید بھر گیا کب کا
قیس تو اپنے گھر گیا کب کا
آپ اک اور نیند لے لیجئے
قافلہ کُوچ کر گیا کب کا
دکھ کا لمحہ ازل ابد لمحہ
وقت کے پار اتر گیا کب کا
اپنا منہ اب تو مت دکھاؤ مجھے
ناصحو، میں سُدھر گیا کب کا
نشہ ہونے کا بےطرح تھا کبھی
پر وہ ظالم اتر گیا کب کا
آپ اب پوچھنے کو آئے...
آج ذرا فرصت پائی تھی ، آج اُسے پھر یاد کیا
بند گلی کے آخری گھر کو کھول کے پھر آباد کیا
کھول کے کھڑکی چاند ہنسا پھر چاند نے دونوں ہاتھوں سے
رنگ اُڑائے ، پھول کھلائے ، چڑیوں کو آزاد کیا
بڑے بڑے غم کھڑے ہوئے تھے ، رستہ روکے راہوں میں
چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے ہی ہم نے دل کو شاد کیا
بات...
جناب ذوالفقار زلفی کی ایک خوبصورت غزل آپ کی بصارتوں کی نظر۔
آرزو آنکھ دریچے میں کھڑی رہتی ہے
آمدِ یار کی ہر وقت پڑی رہتی ہے
ہمنشیں تو بھی مجھے چھوڑ گیا ہے تنہا
اور ابھی آگے مسافت بھی کڑی رہتی ہے
ایک دل ہے کہ بچھا جائے ترے قدموں میں
اور میری یہ انا ہے کہ اڑی رہتی ہے
اگلے پل کی تو...
اک بار جو بچھڑے وہ دوبارہ نہیں ملتا
مل جائے کوئی شخص تو سارا نہیں ملتا
اس کی بھی نکل آتی ہے اظہار کی صورت
جس شخص کو لفظوں کا سہارا نہیں ملتا
پھر ڈوبنا یہ بات بہت سوچ لو پہلے
ہر لاش کو دریا کا کنارا نہیں ملتا
یہ سوچ کے دل پھر سے ہے آمادہء الفت
ہر بار محبت میں خسارہ نہیں ملتا
کیوں...
بہت عرصے کے بعد کچھ کہنے کی جسارت کی ہے سو اہلِ محفلِ سخنوراں و سخن شناساں کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں:
غم نہیں، دُکھ نہیں، ملال نہیں
لب پہ جو ایک بھی سوال نہیں
کیوں ملے مُجھ کو تیسرا درجہ
کیا مرے خوں کا رنگ لال نہیں؟
فکرِ سُود و زیاں سے ہے آزاد
کار و بارِ جنوں وبال نہیں
نظر آتا ہے ہر جمال...
مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا، سرِ بزم رات یہ کیا ہوا
مری آنکھ کیسے چھلک گئی، مجھے رنج ہے یہ برا ہوا
مری زندگی کے چراغ کا یہ مزاج کوئی نیا نہیں
ابھی روشنی ابھی تیرگی، نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا
مجھے جو بھی دشمنِ جاں ملا وہی پختہ کارِ جفا ملا
نہ کسی کی ضرب غلط پڑی، نہ کسی کا تیر خط ہوا
مجھے آپ کیوں...
ہم سے کیا پُوچھتے ہو کیا ہے، رات
اُس کی باتوں کا سِلسلہ ہے ، رات
آسماں تک جو لے کے جاتا ہے
ایک ایسا ہی راستہ ہے ، رات
فلسفہ رات کا بس اتنا ہے
اک عجوبہ ہے ، معجزا ہے ، رات
رات کو تم حقیر مت جانو
دن اگر جسم ہے ، رداء ہے رات
رات آنکھوں میں کاٹنے والو
اک تم ہی جانتے ہو ، کیا ہے ،...
محبت میں مسافت کی نزاکت مار دیتی ہے
یہاں پر ایک ساعت کی حماقت مار دیتی ہے
محبت کے سفر میں ثالثی سے بچ کے رہنا تم
کہ اس راہِ محبت میں شراکت مار دیتی ہے
غلط ہے یہ گماں تیرا کوئی تجھ پر فدا ہو گا
کسی پر کون مرتا ہے ضرورت مار دیتی ہے
ہمارے ساتھ چلنا ہے تو منزل تک چلو ہم دم
ادھورے راستوں...
زندگی یہ تو نہیں تجھ کو سنوارا ہی نہ ہو
کچھ نہ کچھ تیرا احسان اُتارا ہی نہ ہو
کُوئے قاتل کی بڑی دھوم ہے، چل کر دیکھیں
کیا خبر کُوچہء دلدار سے پیارا ہی نہ ہو
دل کو چُھو جاتی ہے رات کی آواز کبھی
چونک اُٹھتا ہوں کہیں تم نے پُکارا ہی نہ ہو
کبھی پلکوں پہ چمکتی ہے جو اشکوں کی لکیر
سوچتا...
سر جھکاؤ گے تو پتھر دیوتا ہو جائے گا
اتنا مت چاہو اسے وہ بے وفا ہو جائے گا
ہم بھی دریا ہیں ہمیں اپنا ہنر معلوم ہے
جس طرف بھی چل پڑیں گے راستہ ہو جائے گا
کتنی سچائی سے مجھ سے زندگی نے کہہ دیا
تو نہیں میرا تو کوئی دوسرا ہو جائے گا
میں خدا کا نام لے کر پی رہا ہوں دوستو
زہر بھی اس میں...
گُریز پا ہے جو مجھ سے ، اُسی کے پاس بہت ہوں
میں اپنے وعدے پہ قائم ہوں ، اور اُداس بہت ہوں
یہ قید وہ ہے، کہ زنجیر بھی نظر نہیں آتی
یہ پیرہن ہے کچھ ایسا کہ بے لباس بہت ہوں
نہیں شریک ِسفر وہ ، مگر ملال بہت ہے
کہ جس مقام پہ بھی ہوں ، میں اُس کی آس بہت ہوں
خموش اس لیئے رہتا ہوں ، میرے...
شمع مزار تھی نہ کوئی سوگوار تھا
تم جس پہ رو رہے تھے یہ کس کا مزار تھا
تڑپوں گا عمر بھی دل مرحوم کے لیے
کمبخت نامراد،؛لڑکپن کا یار تھا
سودائے عشق اور ہے ، وحشت کچھ اور شے
مجنوں کا کوئی دوست فسانہ نگار تھا
جادو ہے یا طلسم تمہاری زبان میں
تم جھوٹ کہ رہے تھے مجھے اعتبار تھا...
آلام روزگار کو آساں بنا دیا
جو غم ہوا اسے غم جاناں بنا دیا
میں کامیاب دید بھی محروم دید بھی
جلوں کے اژدہام نے حیراں بنا دیا
یوں مسکرائے جاں سی کلیوں میں پڑ گئی
یوں لب کشا ہوئے کہ گلستاں بنا دیا
کچھ شورشوں کی نذر ہوا خون عاشقاں
کچھ جم کے رہ گیا اسے حرماں بنا دیا
کچھ آگ دی ہوس میں تو تعمیر...
دل قتیلِ ادا تھا پہلے بھی
کوئی ہم سے خفا تھا پہلے بھی
ہم تو ہر دَور کے مسافر ہیں
ظلم ہم پر رَوا تھا پہلے بھی
ہر سہارا پہاڑ کی صورت
اپنے سر پر گرا تھا پہلے بھی
دل کے صحراؤں کو بسائے کوئی
شہر تو اک بسا تھا پہلے بھی
وقت کا کوئی اعتبار نہیں
ہم نے تم سے کہا تھا پہلے بھی
آپ ہی اپنے سامنے تھے ہم...
ترے جلوں کے آگے ہمت شرح و بیاں رکھ دی
زبان بے نگہ رکھ دی نگاہ بے زبان رکھ دی
مٹی جاتی تھی بلبل جلوہ گل ہائے رنگیں پر
چھپا کر کس نے ان پردوں میں برق آشیاں رکھ دی
نیاز عشق کو سمجھا ہے کیا اے واعظ ناداں !
ہزاروں بن گئے کعبے جبیں میں نے جہاں رکھ دی
قفس کی یاد میں یہ اضطراب دل، معاذ اللہ...
کھُل جائے ہم پہ بھید جو اس کائنات کا
ہوجائے ختم دہر میں مقصد حیات کا
کیا ڈھونڈتے ہیں جا کے ستاروں کے شہر میں
خود جن پہ انکشاف نہیں اپنی ذات کا
دیکھیں تو ہر ثواب پہ لالچ کا پیرہن
سوچیں تو ہر گناہ میں پہلو نجات کا
شبنم ہے توُ تو پھیل اسی وقت پھول پر
اب کون انتظار کرے آدھی رات کا...
کوئی تازہ کنول نہیںملتا
تیرا نعم البدل نہیں ملتا
اک حقیقت ہے دوستوں کا خلوص
ہاں مگر آج کل نہیں ملتا
ذہن حسّاس ہو تو دنیا میں
چین کا ایک پل نہیں ملتا
اے خدا مجھ کو دے میں سلجھا دوں
مشکلیں جن کا حل نہیں ملتا
چھان ماری ندیم بزمِ سخن
تیرا رنگِ غزل نہیں ملتا
رات رو رو کے سو گئیں آنکھیں
چہرہء غم کو دھو گئیں آنکھیں
نیند کے نیم سبز کھیتوں میں
فصل خوابوں کی بو گئیں آنکھیں
دیکھ کر سنگدل زمانے کو
خود بھی پتھر کی ہو گئیں آنکھیں
رنج و غم کے سفید دھاگے میں
سرخ موتی پرو گئیں آنکھیں
دل کی بینائی سے جلا کے چراغ
سفرِ دید کو گئیں آنکھیں
پھر...
جسم کو روح کو بینائی دے
تاکہ صورت تری دکھلائی دے
اجڑے شہروں کی حکایات سنوں
گونگے کھنڈرات کو گویائی دے
مجھ سے قبریں نہیںدیکھی جاتیں
دے مجھے اذنِ مسیحائی دے
دیکھ کر چہرہء اقدارِ قدیم
اِک نئ شکل کو زیبائی دے
ڈوب کر بحرِ معانی میں ندیم
سطحِ الفاظ کو گہرائی دے
خوب تر کی جسے تلاش نہیں
اُس پہ جینے کا راز فاش نہیں
روح کا انگ انگ زخمی ہے
جسم پر ایک بھی خراش نہیں
میں نے پا تو لیا خدا کو مگر
وہ میرا حاصلِ تلاش نہیں
خود تراشو مجسمے اپنے
زندگی دستِ بت تراش نہیں
گرچہ طوفاں ہے زیرِ آب ندیم
سطحِ دریا پہ ارتعاش نہیں