جو خیال تھے نا قیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جو محبتوں کی اساس تھے،وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جنہیں مانتا ہی نہیں یہ دل،وہی لوگ میرے ہیں ہمسفر
مجھے ہر طرح سے جو راس تھے،وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
مجھے لمحہ بھر کی رفاقتوں کے سراب اور ستایئں گے
میری عمر بھر کی جو پیاس تھے، وہی لوگ مجھ...
اک پریشاں سی روایت ہم ہیں
کچھ سہی پھر بھی غنیمت ہم ہیں
جب یہ سوچا ہے تو اور اُلجھے ہیں
اتنے کیوں سادہ طبیعت ہم ہیں
ہر قدم کہتے ہیں کچھ تازہ نقوش
اے مسافر تری ہمت ہم ہیں
کوئی قاتل ہو تو دیں اُس کا پتہ
کُشتہء تیغ شرافت ہم ہیں
چشمِ تحقیق سے دیکھا تو کُھلا
وقت کی ساری اذیت ہم ہیں...
ہر بے زباں کو شعلہ نوا کہہ لیا کرو
یارو سکوت ہی کو صدا کہہ لیا کرو
خود کو فریب دو کہ نہ ہو تلخ زندگی
ہر سنگ دل کو جانِ وفا کہہ لیا کرو
گر چاہتے ہو خوش رہیں کچھ بندگانِ خاص
جتنے صنم ہیں ان کو خدا کہہ لیا کرو
یارو یہ دور ضعفِ بصارت کا دور ہے
آندھی اُٹھے تو اِس کو گھٹا کہہ لیا کرو
انسان کا...
اس طرح دھڑکتا ہے کوئی دل مرے دل میں
ہو جیسے مرا مدمقابل مرے دل میں
ہاتھوں سے ترے غم کا سرا چھوٹ رہا ہے
یا ڈوب رہا ہے کوئی ساحل مرے دل میں
رہنا تھا مرے دل میں کسی غنچہ دہن کو
اور بس کیا اک شور سلاسل مرے دل میں
لپٹے رہے اک چاند کے دامن سے کنائے
اک درد سے ہوتی رہی جھلمل مرے دل میں...
ڈھونڈتے کیا ہو ان آنکھوں میں
خود میں گم رہنا تو عادت ہے پرانی میری
بھیڑ مین بھی تمہیں مل جاؤں گا آسانی سے
کھویا کھویا ہوا رہنا ہے نشانی میری
میں نے اک بار کہا تھا کہ بہت پیاسا ہوں
تب سے مشہور ہوئی تشنہ دہانی میری
یہی دیوار و درو بام تھے میرے ہم راز
انہی گلیوں میںبھٹکتی تھی جوانی...
یونہی بے سودا جینا ہے تو سر کا کیا کروں
دید بھی نادید ہو جب تو نظر کیا کیا کروں
جب ارادہ ہی نہ ہو جب کو جادہ ہی نہ ہو
پاؤں کا میں کیا کروں میں رہگزر کا کیاکروں
جب نہ اڑنے اور اڑنے کا محاصل ایک ہو
بے پری کیا کیا کروں میں بال و پر کا کیا کروں
گو پڑی ہے عجلت دل کو سہولت کی مگر
اس اگر...
کتنے اچھے تھے ہم دونوں
دھن کے پکے تھے ہم دونوں
مخلص مخلص پاگل پاگل
ایک ہی جیسے تھے ہم دونوں
مل جاتے تو پورے ہوتے
آدھے آدھے تھے ہم دونوں
واپس آنا تھا ناممکن
گزرے لمحے تھے ہم دونوں
خشک ہوئے صحرا کی صورت
جھیل سے گہرے تھے ہم دونوں
سلب کیا حالات نے ہم کو
خودرو پودے تھے ہم دونوں...
ریاض خیرآبادی اردو شاعری میں خمریات کے امام ہیں، انکی ایک غزل نمونۂ کلام کے طور پر:
جس دن سے حرام ہو گئی ہے
مے، خلد مقام ہو گئی ہے
قابو میں ہے ان کے وصل کا دن
جب آئے ہیں شام ہو گئی ہے
آتے ہی قیامت اس گلی میں
پامالِ خرام ہو گئی ہے
توبہ سے ہماری بوتل اچھّی
جب ٹوٹی ہے، جام ہو گئی ہے
مے...
مینا کماری جس کا اصل نام 'ماہ جبین بانو' تھا انڈین فلموں میں ٹریجڈی کوئین کے طور پر مشہور ہوئی۔ وہ ایک شاعرہ بھی تھی اور ناز تخلص کرتی تھی۔
مینا کماری ناز کی ایک غزل کے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
ذیل میں مینا کماری کی اپنی آواز میں اس غزل کی آڈیو بھی منسلک کر رہا ہوں...
کون دہرائے وہ پرانی بات
غم بھی سویا ہے جگائے کون
وہ جو اپنے ہیں ، کیا وہ اپنے ہیں
کون دُکھ جھیلے ، آزمائے کون
اب سُکھ ہے تو بھلانے میں ہے
لیکن اُس شخص کو بھلائے کون
آج پھر دل ہے کچھ اداس اداس
دیکھیئے آج یا د آئے کون ؟؟؟ جاوید اختر ۔
؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏
کوئی بھی آدمی پورا نہیں ہے
کہیں آنکھیں، کہیں چہرا نہیں ہے
یہاں سے کیوں کوئی بیگانہ گزرے
یہ میرے خواب ہیں رستہ نہیں ہے
جہاں پر تھے تری پلکوں کے سائے
وہاں اب کوئی بھی سایا نہیں ہے
زمانہ دیکھتا ہے ہر تماشہ
یہ لڑکا کھیل سے تھکتا نہیں ہے
ہزاروں شہر ہیں ہمراہ اس کے
مسافر دشت میں تنہا نہیں ہے...
خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی
شۂ بے خودی نے عطا کیا، مجھے اب لباسِ برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی، نہ جنوں کی پردہ دری رہی
چلی سمتِ غیب سے اک ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی
نظرِ تغافلِ...
پوچھا کسی نے حال کسی کا تو رو دیے
پانی میں عکس چاند کا دیکھا تو رو دیے
نغمہ کسی نے ساز پہ چھیڑا تو رو دیے
غنچہ کسی نے شاخ سے توڑا تو رو دیے
اڑتا ہوا غبار سرِ راہ دیکھ کر
انجام ہم نے عشق کا سوچا تو رو دیے
بادل فضا میں آپ کی تصویر بن گئے
سایہ کوئی خیال سے گزرا تو رو دیے
رنگِ شفق سے آگ...
ہم نے ہی لَوٹنے کا ارادہ نہیں کیا
اس نے بھی بھول جانے کا وعدہ نہیں کیا
دکھ اوڑھتے نہیں کبھی جشنِ طرب میں ہم
ملبوس دل کو تن کا لبادہ نہیں کیا
جو غم ملا ہے بوجھ اٹھایا ہے اس کا خود
سر زیرِ بارِ ساغر و بادہ نہیں کیا
کارِ جہاں ہمیں بھی بہت تھے سفر کی شام
اس نے بھی التفات زیادہ نہیں کیا
آمد...
جس قدر خود کو وہ چھپاتے ہیں
لوگ گرویدہ ہوتے جاتے ہیں
جو بھی ہمدرد بن کے آتے ہیں
غم کا احساس ہی جگاتے ہیں
عہدِ ماضی کے زرفشاں لمحے
شدتِ غم میں مسکراتے ہیں
خود کو بدنام کررہا ہوں میں
ان پہ الزام آئے جاتے ہیں
اجنبی بن کے جی رہا ہوں میں
لوگ مانوس ہوتے جاتے ہیں
شکیب جلالی
نصیب عشق دل بے قرار بھی تو نہیں
بہت دنوں سے تیرا انتظار بھی تو نہیں
تلافی ستم روزگار کون کرے
تم ہم سخن بھی نہیں رازدار بھی تو نہیں
زمانہ پرسش غم بھی کرے تو کیا حاصل
کہ تیرا غم ،غم لیل و نہار بھی تو نہیں
تیری نگاہ تغافل کو کون سمجھائے
کہ اپنے دل پہ مجھے اختیار بھی تو نہیں
تو ہی...
کسے دیکھا کہاں دیکھا نہ جائے
وہ دیکھا ہے جہاں دیکھا نہ جائے
میری بربادیوں پر رونے والے
تجھے محو فغاں دیکھا نہ جائے
زمیں لوگوں سے خالی ہو رہی ہے
یہ رنگ آسماں دیکھا نہ جائے
سفر ہے اور غربت کا سفر ہے
غم صد کارواں دیکھا نہ جائے
کہیں آگ اور کہیں لاشوں کے انبار
بس اے دور زماں دیکھا نہ...
وہ دلنواز ہے لیکن نظر شناس نہیں
مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں
تڑپ رہے ہیں زباں پر کئی سوال مگر
مرے لیے کوئی شایانِ التماس نہیں
ترے جلو میں بھی دل کانپ کانپ اٹھتا ہے
مرے مزاج کو آسودگی بھی راس نہیں
کبھی کبھی جو ترے قرب میں گزارے تھے
اب ان دنوں کا تصور بھی میرے پاس نہیں
گزر رہے...
یونس رضا صاحب نے فرمایا تھا کہ انہیں گذشتہ 9 سال سے اس غزل کی تلاش تھی۔
262803
فراق گورکھپوری کی یہ غزل انہی کی نذر
رات بھی نیند بھی کہانی بھی
ہائے کیا چیز ہے جوانی بھی
ایک پیغامِ زندگانی بھی
عاشقی مرگِ ناگہانی بھی
اس ادا کا تری جواب نہیں
مہربانی بھی سرگرانی بھی
دل کو اپنے بھی...