اٹھ کے کیا ہم تری گلی سے گئے
جان سے، دل سے، زندگی سے گئے
ہم نے اخلاص کی حدیں چھو لیں
دوست پھر بھی نہ دشمنی سے گئے
اِک کلی کے بدن کو چھو کر ہم
عمر بھر کے لئے ہنسی سے گئے
تیرے اِک شاہکار کی خاطر
اے خدا تیری بندگی سے گئے
بجھ گیا آس کا چراغ ندیم
ذہن و دل دونوں روشنی سے گئے
میں گلستاں میں نشیمن ہوں پھر بنانے کو
خبر کرو کسی بجلی کے تازیانے کو
متاعِ درد ملی ہے ہزار جتنوں سے
بہت سنبھال کے رکھا ہے اس خزانے کو
پکارتی ہے تمہیں بام و در کی تاریکی!
کبھی تو روشنی بخشو غریب خانے کو
کہو اندھیروں سے چاہیں تو راستہ روکیں
میں جا رہا ہوں چراغِ وفا جلانے کو
سوائے...
یاد یوں آئی اس کے آنچل کی
شاخ لہرائے جیسے صندل کی
تو بھی رویا ہے یاد کرکے ہمیں
کہہ رہی ہے لکیر کاجل کی
تیری آنکھوں پہ آکے ختم ہوا
ذکر قاتل کا، بات مقتل کی
پھول پر جیسے قطرہء شبنم
اُس بدن پر قمیض ململ کی
کتنا آرام دہ تھا اُس کا بدن
جیسے چادر سفید مخمل کی!
میرے نزدیک شعر کی...
جب تک اُمیدِ وصل کے صحراؤں میں رہا
اِک آبلہ جنوں کا مرے پاؤں میں رہا
یہ ہونٹ پھر بھی خشک رہے ریت کی طرح
گو میرا جِسم وصل کے دریاؤں میں رہا
کیسے پسند آئے اسے سایہء شجر
جو شخص گیسوؤں کی گھنی چھاؤں میں رہا
اس حوصلے کی داد تو دو دوستو مجھے
میں قتل کرنے والے مسیحاؤں میں رہا
دیکھیں نہ...
گلوں کی جلوہ گری، مہر و مہ کی بوالعجبی
تمام شعبدہ ہائے طلسم بے سببی
گذر گئی ترے مستوں پہ وہ بھی تیرہ شبی
نہ کہکشاں نہ ثریا نہ خوشہ عنبی
یہ زندگی ہے یہی اصل علم و حکمت ہے
جمال دوست و شب مہ و بادہ عنبی
فروغ حسن سے تیرے چمک گئی ہر شے
ادا و رسم بلالی و طرز بولہبی
ہجوم غم میں نہیں...
یہ عشق نے دیکھا ہے، یہ عقل سے پنہاں ہے
قطرہ میں سمندر ہے، ذرہ میں بیاباں ہے
ہے عشق کہ محشر میں یوں مست و خراماں ہے
دوزخ بگریباں ہے، فردوس بہ داماں ہے
ہے عشق کی شورش سے رعنائی و زیبائی
جو خون اچھلتا ہے وہ رنگ گلستاں ہے
پھر گرم نوازش ہے ضو مہر درخشاں کی
پھر قطرہ شبنم میں ہنگامہ...
اپنے مسلک سے ہٹ گئے رستے
راستے سے پلٹ گئے رستے
دیکھ لیں راہروانِ راہِ خرد
کتنی گلیوں میں بٹ گئے رستے
کارواں کو تھی زندگی کی تلاش
اور لاشوں سے پٹ گئے رستے
اہلِ دل جس طرف سے گزرے ہیں
احتراماً سمٹ گئے رستے
اب تو اے دوستو بڑھاؤ قدم
گردوطوفاں سے چھٹ گئے رستے
شوق کو رہنما بنایا تھا...
کسی سے عہد و پیماں کر نہ رہیو
تُو اس بستی میں رہیو پر نہ رہیو
سفر کرنا ہے آخر دو پلک بیچ
سفر لمبا ہے بے بستر نہ رہیو
ہر اک حالت کے بیری ہیں یہ لمحے
کسی غم کے بھروسے پر نہ رہیو
ہمارا عمر بھر کا ساتھ ٹھیرا
سو میرے ساتھ تُو دن بھر نہ رہیو
بہت دشوار ہو جائے گا جینا
یہاں تُو ذات کے اندر نہ رہیو...
بادباں کب کھولتا ہوں ، پار کب جاتا ہوں میں
روز رستے کی طرح ، دریا سے لوٹ آتا ہوں میں
صبحِ دم میں کھولتا ہوں ، رسّی اپنے پاؤں کی
دن ڈھلے خود کو ، کہیں سے ہانک کر لاتا ہوں میں
اپنی جانب سے بھی دیتا ہوں ، کچوکے جسم کو
اس کی جانب سے بھی ، اپنے زخم سہلاتا ہوں میں
ایک بچّے کی طرح ، خود...
اس اپنی کرن کو آتی ہوئی صُبحوں کے حوالے کرنا ہے
کانٹوں سے اُلجھ کر جینا ہے پھولوں سے لپٹ کر مرنا ہے
شاید وہ زمانہ لوٹ آئے، شاید وہ پلٹ کر دیکھ بھی لیں
ان اُجڑی اُجڑی نظروں میں پھر کوئی فسانہ بھرنا ہے
یہ سوزِ دروں یہ اشکِ رواں یہ کاوشِ ہستی کیا کہیے
مرتے ہیں کہ کچھ جی لیں ہم، جیتے ہیں کہ...
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم، اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
اے درد بتا کچھ تُو ہی بتا! اب تک یہ معمہ حل نہ ہوا
ہم میں ہے دلِ بےتاب نہاں یا آپ دلِ دلِ بےتاب ہیں ہم
میں حیرت و حسرت کا مارا، خاموش کھڑا ہوں ساحل پر
دریائے محبت کہتا ہے، آ! کچھ بھی نہیں...
تم یہ کیسے جدا ہوگئے
ہر طرف ، ہر جگہ ہوگئے
اپنا چہرہ نہ بدلا گیا
آئینے سے ، خفا ہوگئے
جانے والے گئے بھی کہاں
چاند سورج ، گھٹا ہوگئے
بے وفا تم نہ وہ تھے نہ ہم
یوں ہوا ، بس جدا ہوگئے
آدمی بننا آساں نہ تھا
شیخ جی ، پارسا ہوگئے
تم بیٹھے ہو ، لیکن جاتے دیکھ رہا ہوں
میں تنہائی کے دن ، آتے دیکھ رہا ہوں
آنے والے لمحے سے ، دل سہما ہے
تم کو بھی ڈرتےگھبراتے ، دیکھ رہا ہوں
کب یادوں کا زخم بھرے ، کب داغ مٹے
کتنے دن لگتے ہیں بھلاتے ، دیکھ رہا ہوں
اس کی آنکھوں میں بھی کاجل پھیلا ہے
میں بھی مڑ کے ، جاتے جاتے...
یارو کہاں تک محبت نبھاؤں میں
دو مجھ کو بددعا کہ اسے بھول جاؤں میں
دل تو جلاگیا ہے وہ شعلہ سا آدمی
اب کس کو چھو کے اپنا ہاتھ جلاؤں میں
سنتا ہوں اب کسی سے وفا کررہا ہے وہ
اے زندگی خوشی سے کہیں مر نہ جاؤں میں
اک شب بھی وصل کی نہ مرا ساتھ دے سکی
عہد فراق آکہ تجھے آزماؤں میں
بدنام میرے قتل سے...
زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں
اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں
سچ گھٹے یا بڑے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں
اتنے حصّوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصّے میں کچھ بچا ہی نہیں
زندگی، موت تیری منزل ہے
دوسرا کوئی راستا ہی نہیں
جس کے کارن فساد ہوتے ہیں
اُس کا کوئی اتا پتا ہی نہیں
اپنی رچناؤں میں...
دیار غیر میں کیسے تجھے سدا دیتے
تو مل بھی جاتا تو آخر تجھے گنوا دیتے
تمہی نے نہ سنایا اپنا دکھ ورنہ
دعا وہ دیتے کہ آسماں ہلا دیتے
وہ تیرا غم تھا کہ تاثیر میرے لہجے کی
کہ جسے حال سناتے اُسے رولا دیتے
ہمیں یہ زعم تھا کہ اب کہ وہ پکاریں گے
انہیں یہ ضد تھی کہ ہر بار ہم صدا دیتے
تمھیں...
ضبط اپنا شعار تھا، نہ رہا
دل پہ کچھ اختیار تھا، نہ رہا
دلِ مرحوم کو خدا بخشے
ایک ہی غم گسار تھا، نہ رہا
موت کا انتظار باقی ہے
آپ کا انتظار تھا، نہ رہا
اب گریباں کہیں سے چاک نہیں
شغلِ فصلِ بہار تھا، نہ رہا
آ، کہ وقتِ سکونِ مرگ آیا
نالہ نا خوش گوار تھا، نہ رہا
ان کی بے مہریوں کو کیا...
http://www.divshare.com/download/4544020-59e
پوچھتے ہو تو سنو کیسے بسر ہوتی ہے
رات خیرات کی، صدقے کی سحر ہوتی ہے
سانس بھرنے کو تو جینا نہیں کہتے یا رب!
دل ہی دُکھتا ہے نہ اب آستیں تر ہوتی ہے
جیسے جاگی ہوئی آنکھوں میں چبھیں کانچ کے خواب
رات اس طرح دوانوں کی بسر ہوتی ہے
غم ہی دشمن ہے مرا،...
تھیں گلستاں میں رونقیں جن کے شباب سے
مرجھا کے رہ گئے ہیں وہ چہرے گلاب سے
جب کر چکا ہے باغباں آندھی سے ساز باز
کیسے بچیں گے پیڑ خزاں کے عذاب سے
کیوں بھیجتے ہو ہم کو بتاؤ تو زرد پھول
رشتہ اگر نہیں ہے ہمارا جناب سے
آنکھوں سے روح تک جو فروزاں ہیں ساقیا
کیسے مٹیں گے نقش بھلا وہ شراب سے...
متاعِ شیشہ کا پروردگار سنگ ہی سہی
متاعِ شیشہ پہ کب تک مدار کارگہی
بہار میں بھی وہی رنگ ہے وہی انداز
ہنوز اہلِ چمن ہیں شکار کم نگہی
فسردہ شبنم و بےنور دیدہء نرگس
دریدہ پیرہنِ گل، ایاغِ لالہ تہی
بلند بانگ بھی ہوتے گناہ کرتے اگر
نوائے زیرِ لبی ہے ثبوتِ بے گہنی
اُس ایک بات کے افسانے...