ہستی کو تیرے پیار نے بادل بنادِیا
نظروں میں لیکن اوروں کی پاگل بنادِیا
اعزاز یہ ازل سے ہے تفوِیضِ وقت کہ
ہر یومِ نَو کو گُذرا ہُوا کل بنادِیا
اب تشنگی کا یُوں مجھے احساس تک نہ ہو
دِل ہی تمھاری چاہ کا چھاگل بنادِیا
جا حُسنِ پُرشباب پہ ٹھہرے وہیں نِگاہ !
نظروں کو شوقِ دِید نے ،آنچل بنادِیا...
اب کی چلی وطن میں ہَوا کِس طرف کی ہے
پھیلی نویدِ صُبحِ جزا کِس طرف کی ہے
ہو احتساب اگر تو بِلا امتیاز ہو!
مغرب کی گر نہیں تو وَبا کِس طرف کی ہے
محفِل عدُو کے گھر سی ہے غُربت کدہ پہ بھی !
نیّت ، اے جانِ بزم! بتا کِس طرف کی ہے
احساس و عقل سے جو تِری بالا تر ہے تو
"مٹّی اُڑا کے دیکھ ہَوا کِس...
غزل.
اِسم تبدیلی سے کیا ہوتا ہے
عیب کب اِس سے چھپا ہوتا ہے
اچھے اوصاف ہوں سب پر ظاہر
جُھوٹ بھی سب پہ کُھلا ہوتا ہے
بات بے بات ہو تقرار جہاں
جہل پہ جہل ڈٹا ہو تا ہے
باز گشت اپنی سماعت پہ گراں
دہنِ جاہل کا رَٹا ہوتا ہے
وہ بھی کیا شخص ہے محِفل میں، خلؔش !
مَیں ہی قابل ، پہ ڈٹا ہوتا ہے...
غزل.
مُمکن ہے اِلتجا میں ہماری اثر نہ ہو
ایسا نہیں کہ اُس کو ہماری خبر نہ ہو
خاک ایسی زندگی پہ کہ جس میں وہ بُت، مِرے
خواب و خیال میں بھی اگر جلوہ گر نہ ہو
وہ حُسن ہے سوار کُچھ ایسا حواس پر!
خود سے توکیا، اب اوروں سے ذکرِ دِگر نہ ہو
ہو پیش رفت خاک، مُلاقات پر ہی جب!
کھٹکا رہے یہ دِل میں...
غزل
بے اعتناعی کی بڑھتی ہُوئی سی یہ تابی
کہیں نہ جھونک دے ہم کو بجنگِ اعصابی
گئی نظر سے نہ رُخ کی تِری وہ مہتابی
لیے ہُوں وصل کی دِل میں وہ اب بھی بیتابی
مَیں پُھول بن کے اگر بُت سے اِک لِپٹ بھی گیا
زیادہ دِن تو میّسر رہی نہ شادابی
مِری نمُود و نمائش ہے خاک ہی سے ، مگر
سکُھا کے خاک...
غزل
نہیں کہ پیار ، محبّت میں کاربند نہیں
بس اُس کی باتوں میں پہلے جو تھی وہ قند نہیں
نظر میں میری ہو خاطر سے کیوں گزند نہیں
خیال و فکر تک اُس کے ذرا بُلند نہیں
کب اپنے خواب و تمنّا میں کامیاب رہے
ہم ایک وہ جو کسی مد میں بہرہ مند نہیں
تمام زیور و پازیب ہم دِلا تو چکے!
ملال پِھر بھی ،کہ...
راہ ِحق میں ہُوئے لڑکر ،کبھی مر کر لاکھوں
زندہ جاوید ہر اِک دیس کے گھر گھر لاکھوں
ہو محبّت کے خزانے میں کہاں کُچھ بھی کمی!
چاہے دامن لئےجاتے رہیں بھر بھر لاکھوں
کوچۂ یار کومیلے کا سماں دیتے ہیں
اِک جَھلک دِید کی خواہش لئے دِن بھر لاکھوں
کردے مرکوُز جہاں بَھر کی نِگاہیں خود پر
چاند پِھر...
غزل
تھی نہ قسمت میں مِری ،ذات وہ ہرجائی کی
ایک نسبت تھی بلا وجہ کی رُسوائی کی
راہیں مسدُود رہیں اُن سے شَناسائی کی
دِل کی دِل ہی میں رہی ساری تمنائی کی
باعثِ فخر ، یُوں نسبت رہی رُسوائی کی
تہمتوں کی بھی ، دِل و جاں سے پزِیرائی کی
کوشِشیں دَر کی، کبھی کام نہ آنے دیں گی!
وُسعتیں دشت سی...
یادوں سے سیلِ غم کو ہیں آنکھوں میں روکے ہم
کب بھُولے، زندگی سے محبّت کے بوسے ہم
دیکھیں برستی آگ لبِ نغمہ گو سے ہم
حیراں ہیں گفتگو کو مِلی طرزِ نَو سے ہم
سب دوست، آشنا جو تھے تاتاری بن گئے
آئے وطن، تو بیٹھے ہیں محبوس ہوکے ہم
اپنی روایتوں کا ہَمَیں پاس کب رہا !
کرتے شُمار خود کو ہیں اِس...
غزل
کچھ نہ ہم کو سُجھائی دیتا ہے
ہر طرف وہ دِکھائی دیتا ہے
خود میں احساس اب لئے اُن کا
لمحہ لمحہ دِکھائی دیتا ہے
ہوگئے خیر سے جواں ہم بھی
گُل بھی کیا گُل دِکھائی دیتا ہے
دسترس میں ہے کُچھ نہیں پھر بھی
اُونچا اُونچا سُجائی دیتا ہے
کب محبّت میں سُرخ رُو ہونا
اپنی قسمت دِکھائی دیتا...
غزل
آئیں اگر وہ یاد تو مرتے نہیں ہیں ہم
حالت خراب دِل کی گو کرتے کہیں ہیں کم
دِل خُون ہے اگرچہ شب و روز ہجر میں
آنکھوں کو اپنی شرم سے کرتے نہیں ہیں نم
ایسا بُجھادِیا ہَمَیں فُرقت کی دُھوپ نے
کوشِش رہے ہزار نِکھرتے کہیں ہیں ہم
اِک پَل نہ ہوں گوارہ کسی طور یُوں ہَمَیں
دِل پر سوار ہو کے...
غزل
جیسی چاہی تھی مُلاقات نہ ہونے پائی
آج پِھر اُن سے مِری بات نہ ہونے پائی
بِکھرے بِکھرے ہی رہے مجھ میں مِرے خواب و خیال !
مجتمع مجھ سے مِری ذات نہ ہونے پائی
ضبط نے پھوڑے اگرچہ تھے پھپھولے دِل کے
شُکر آنکھوں سے وہ برسات نہ ہونے پائی
سر پہ ہر وقت چمکتا رہا میرے سُورج
دِن گُزرتے گئے اِک رات...
شفیق خلش
غزل
سائے ہیں بادلوں کے وہ، چَھٹتے نہیں ذرا
لا لا کے غم سروں پہ یہ، تھکتے نہیں ذرا
کیسے قرار آئے دلِ بے قرار کو
گھر سے اب اپنے وہ، کہ نکلتے نہیں ذرا
کیا وہ بچھڑگئے، کہ خُدائی بچھڑ گئی
دُکھ اب ہماری ذات کے بٹتے نہیں ذرا
سُوجھے کوئی نہ بات ہَمَیں آپ کے بغیر
موسم تخیّلوں کے بدلتے نہیں...
ابھی کُچھ ہیں مِلنے کو باقی سزائیں
وہ گِنتے ہیں بیٹھے ہماری خطائیں
نہیں آتے پل کو جو پہروں یہاں تھے
اثر کھو چُکی ہیں سبھی اِلتجائیں
زمانہ ہُوا چھوڑ آئے وطن میں
نظر ڈُھونڈتی ہے اب اُن کی ادائیں
مِرے خونِ ناحق پہ اب وہ تُلے ہیں
جو تھکتے نہ تھے لے کے میری بَلائیں
خَلِشؔ تم زمیں کے، وہ ہیں...
غزل
تمھاری، دِل میں محبّت کا یُوں جواب نہیں
کہ اِس سے، ہم پہ مؤثر کوئی عذاب نہیں
ہزاروں پُوجے مگر بُت کوئی نہ ہاتھ آیا
تمام عُمْر عبادت کا اِک ثواب نہیں
اُمیدِ وصْل سے قائم ہیں دھڑکنیں دِل کی
وگرنہ ہجر میں ایسا یہ کم کباب نہیں
سِوائے حُسن کسی شے کی کب اِسے پروا
ہمارے دِل سے بڑا دہرمیں...
غزل
عذابِ زِیست کی سامانیاں نہیں جاتیں
مِری نظر سے وہ رعنائیاں نہیں جاتیں
بچھڑ کے تجھ سے بھی پرچھائیاں نہیں جاتیں
جو تیرے دَم سے تھیں شُنوائیاں، نہیں جاتیں
گو ایک عُمر جُدائی میں ہو گئی ہے بَسَر
خیال وخواب سے انگڑائیاں نہیں جاتیں
مُراد دِل کی بھی کوئی، کہاں سے بھرآئے
جب اِس حیات سے ناکامیاں...
غزل
جتنے کم مجھ سے مُلاقات کے اِمکاں ہونگے
اُتنا اُتنا ہی، وہ مِلنے کو پریشاں ہونگے
ہیں فقط ہم ہی نہیں دِید کے طالِب اُس کے !
گھر سے نِکلیں جو کبھی جان کے حیراں ہونگے
ہر قدم اُس کو دِلائے گا مِرا ہی احساس
اُس کی راہوں میں بِچھے یُوں مِرے ارماں ہونگے
پھر بہار آئی گی، اور پھر مِری یادیں...
غزل
دبائے دانتوں میں اپنی زبان بیٹھے ہیں
ہم اُن سے کچھ نہ کہیں گے یہ ٹھان بیٹھے ہیں
رہِ غزال میں باندھے مچان بیٹھے ہیں
ہم آزمانے کو قسمت ہی آن بیٹھے ہیں
کُشادہ دل ہیں، سِتم سے رہے ہیں کب خائف
کریں وہ ظُلم بھی ہم پرجو ٹھان بیٹھے ہیں
نہیں ہے اُن سے ہماری کوئی شناسائی
گلی میں شوقِ تجلّی میں...
روز و شب کا رہا خیال نہیں!
کیوں یُوں گذریں کا بھی ملال نہیں
اک تنومند ہے شجر دُکھ کا
غم مِرا، اب غمِ نہال نہیں
لوگ پُوچھیں ہیں نام تک اُس کا
صرف افسُردگی سوال نہیں
کچھ بھی کہنا کہاں ہے کچھ مُشکل
کچھ کہوں دِل کی، یہ مجال نہیں
لوگ ہنستے ہیں حال پر جو مِرے
میں بھی ہنستا ہوں کیا کمال نہیں
آ...
غزل
جان لینے کو یہ احساس کہِیں کُچھ کم ہے
پیار مجھ سے تمھیں پہلا سا نہیں، کُچھ کم ہے
زیست، کب اُس کے تخیّل سے حَسیں کُچھ کم ہے
اب بھی صُورت ہے وہی دِل کے قرِیں، کُچھ کم ہے
اُن پہ دعویٰ ،کہ ہیں پریوں سے حَسِیں، کُچھ کم ہے
کون کہہ سکتا ہے حُوروں سی نہیں، کُچھ کم ہے
رُخِ سیماب پہ...