ظہیراحمد کی شاعری

  1. ظہیراحمدظہیر

    کس طور اُن سے آج ملاقات ہم کریں

    کس طور اُن سے آج ملاقات ہم کریں شکوہ کریں کہ شرحءحالات ہم کریں کچھ دیر کو سہی ، پہ ملے درد سے نجات کچھ دیر کو تو دل کی مدارات ہم کریں مانا کہ اُن کی بزم میں ہے اذنِ گفتگو اتنا بھی اب نہیں کہ سوالات ہم کریں جب تک ہیں درمیان روایات اور اصول دشمن سے کیسے ختم تضادات ہم کریں وقتِ عمل ہے دوستو ...
  2. ظہیراحمدظہیر

    سب کاروبار ِ نقد و نظر چھوڑنا پڑا

    سب کاروبار ِ نقد و نظر چھوڑنا پڑا بکِنے لگے قلم تو ہُنر چھوڑنا پڑا قربانی مانگتی تھی ہر اک شاخ ِ بے ثمر بسنے نہ پائے تھے کہ شجر چھوڑنا پڑا کرنا تھا جو سفر ہمیں ہم نے نہیں کیا بچوں کو آج اس لئے گھر چھوڑنا پڑا آ تو گئے ہو ، سوچ لو جاؤ گے پھر کہاں یہ شہر ِ بد لحاظ اگر چھوڑنا...
  3. ظہیراحمدظہیر

    ضبطِ غم توڑ گئی بھیگی ہوا بارش میں

    ضبطِ غم توڑ گئی بھیگی ہوا بارش میں دل کہ مٹی کا گھروندا تھا گرا بارش میں شادیء مرگ کو کافی تھا بس اک قطرۂ آب شہر ِتشنہ تو اجڑ سا ہی گیا بارش میں روشنی دل میں مرے ٹوٹ کے رونے سے ہوئی اک دیا مجھ میں عجب تھا کہ جلا بارش میں لاج رکھ لی مرے پندار کی اک بادل نے میرے آنسو نہ کوئی دیکھ سکا بارش...
  4. ظہیراحمدظہیر

    خیالِ خاطر ِاحباب ہمسفر رکھنا

    خیالِ خاطر ِاحباب ہمسفر رکھنا سفر کہیں کا ہو آغاز پر نظر رکھنا شعاع ِ نور ِ محبت کو رکھنا قبلہ نما جہاں یہ دل کرے سجدہ وہیں پہ سر رکھنا تمام روپ محبت کے خوبصورت ہیں کوئی بھی رشتہ کسی سے ہو معتبر رکھنا چراغ بن نہیں سکتے تو بن کے تم فانوس کسی چراغ کو موسم سے بے خطر رکھنا قلم کو رکھنا...
  5. ظہیراحمدظہیر

    لہروں پہ سفینہ جو مرا ڈول رہا ہے

    لہروں پہ سفینہ جو مرا ڈول رہا ہے شاید مری ہمت کو بھنور تول رہا ہے شیریں ہے تری یاد مگر ہجر لہو میں شوریدہ ہواؤں کا نمک گھول رہا ہے پتوار بنا کرمجھے طوفانِ حوادث قامت مری پرچم کی طرح کھول رہا ہے ساحل کی صدا ہے کہ سمندر کا بلاوا گہرائی میں سیپی کی کوئی بول رہا ہے یہ وقت مجھے موتی بنائے...
  6. ظہیراحمدظہیر

    ہم کو حصارِ حلقہء احباب چھوڑکر

    ہم کو حصارِ حلقہء احباب چھوڑکر صحرا ملا ہے گلشن ِ شاداب چھوڑ کر ملتی نہیں کہیں بھی سوائے خیال کے اٹھے ہیں ایسی صحبتِ نایاب چھوڑ کر سب کچھ بہا کے لے گئی اک موجِ اشتعال دریا اتر گیا ہمیں غرقاب چھوڑ کر اوج ِ فلک سے گرگیا تحت الثریٰ میں عشق طوفِ حریمِ ناز کے آداب چھوڑ کر مسجد کی پاسبانی پر...
  7. ظہیراحمدظہیر

    کب تلک بھیڑ میں اوروں کے سہارے چلئے

    کب تلک بھیڑ میں اوروں کے سہارے چلئے لوگ رستے میں ہوں اتنے تو کنارے چلئے اب تو مجبور یا مختار گزارے چلئے قرض جتنے ہیں محبت کے اتارے چلئے جس نے بخشی ہے مسافت وہی منزل دیگا ہوکے راضی برضا اُس کے اشارے چلئے اُن کے لائق نہیں کچھ اشکِ محبت کے سوا بھر کے دامن میں یہی چاند ستارے چلئے معتبر ہوتی...
  8. ظہیراحمدظہیر

    لب پہ شکوہ بھی نہیں ، آنکھ میں آنسو بھی نہیں

    لب پہ شکوہ بھی نہیں ، آنکھ میں آنسو بھی نہیں مجھ سے دل کھول کے لگتا ہے مِلا تو بھی نہیں اُن کی آنکھوں کے ستارے توبہت دور کی بات ہم وہاں ہیں کہ جہاں یاد کے جگنو بھی نہیں جب سے گردن میں نہیں ہے کوئی بانہوں کی کمان میرے سینے میں کوئی تیر تراز و بھی نہیں یا تو ماضی کی مہک ہے...
  9. ظہیراحمدظہیر

    سنگِ ستم سے کوئی بھی شیشہ نہیں بچا

    سنگِ ستم سے کوئی بھی شیشہ نہیں بچا محفوظ وہ رہا جو دریچہ نہیں بچا بازیگرانِ شہر ِسیاست ہوئے خموش اب دیکھنے کو کوئی تماشہ نہیں بچا کیسی چڑھی ہے دھوپ سرِ شہر ِ بد لحاظ برگد ہرے بھرے ہوئے سایا نہیں بچا پھیلاؤ کی ہوس بھرے دریا کو پی گئی پانی چڑھا تو کوئی کنارہ نہیں بچا بجھنے لگے چراغ مرے جسم...
  10. ظہیراحمدظہیر

    بجھتے بجھتے بھی اندھیروں میں کرن چھوڑ گیا

    بجھتے بجھتے بھی اندھیروں میں کرن چھوڑ گیا وہ مرا شوخ ستارہ جو گگن چھوڑ گیا خواب تو خواب مجھے نیند سے ڈر لگتا ہے جانے والا مری پلکوں پہ شکن چھوڑ گیا اُس نے بھی چھوڑدیا مجھ کو زمانے کیلئے جس کی خاطر میں زمانے کے جتن چھوڑ گیا کسی زیور کی طرح اُس نے نکھارا مجھ کو پھر کسی اور کی جھولی میں یہ...
  11. ظہیراحمدظہیر

    طوفان میں جزیرہ ملا ہے ، زمیں ملی

    طوفان میں جزیرہ ملا ہے ، زمیں ملی پانی کی قید سے تو رہائی نہیں ملی ابر ِ رواں کے پیچھے چلے آئے ہم کہاں بارش ہوئی تو مٹی کی خوشبو نہیں ملی دوزخ سمجھ کے چھوڑی جو تپتی ہوئی زمین چھالے پڑے تو پاؤں کو ٹھنڈک وہیں ملی جھوٹی انا کا تخت ، زر ِ مصلحت کا تاج جب کھو دیئے تو دولتِ...
  12. ظہیراحمدظہیر

    سادگی ہوئی رخصت ، زندگی کہاں جائے

    سادگی ہوئی رخصت ، زندگی کہاں جائے زندگی کی خاطر اب آدمی کہاں جائے جرم ہے دیا رکھنا شب پرست گلیوں میں کس قدر اندھیرا ہے ، روشنی کہاں جائے ہر طرف مکان اونچے چیختی صداؤں کے آسمان تکنے کو خامشی کہاں جائے آنگنوں میں پہرے ہیں رات بھر اجا لوں کے دشت میں نہ جائےتو چاندنی کہاں جائے سُر...
  13. ظہیراحمدظہیر

    لوگوں نے ایک واقعہ گھر گھر بنادیا

    لوگوں نے ایک واقعہ گھر گھر بنادیا اُس کی ذرا سی بات کا دفتر بنادیا پہرے قیامتوں کے لگا کر زبان پر دل کو ترے خیال نے محشر بنادیا صادق تھے ہم بھی جذبہء منزل میں اسقدر رستے کا ہر سراب سمندر بنادیا لے لے کے نقشِ بندگی دہلیز سے تری ہم نے جبین ِ عشق کا زیور بنادیا شہر ِ وصال دیکھنا چاہا پلٹ کے...
  14. ظہیراحمدظہیر

    پھر لگا ہے دوستوں کا تازیانہ مختلف

    پھر لگا ہے دوستوں کا تازیانہ مختلف تیر دشمن کی طرف ہیں اور نشانہ مختلف بے نیازی برطرف ، اب لازمی ہے احتیاط وقت پہلا سا نہیں اب ، ہے زمانہ مختلف آشیانہ چھوڑنے کی اک سزا یہ بھی ملی روز لاحق ہے تلاشِ آب و دانہ مختلف اک شکم پروَر زمیں رکھتی ہے پابستہ مجھے اور وفائیں مانگتی ہیں اک ٹھکانہ مختلف...
  15. ظہیراحمدظہیر

    رہبری کے زخموں کا چارہ گر نہیں ملتا

    رہبری کے زخموں کا چارہ گر نہیں ملتا واپسی کے رستے میں ہمسفر نہیں ملتا شہر ہے یا خواہش کی کرچیوں کا صحرا ہے بے خراش تن والا اک بشر نہیں ملتا ہر طرف ضرورت کی اک فصیلِ نادیدہ بے شگاف ایسی ہے جس میں دَر نہیں ملتا قہقہوں کے سائے میں بے بسی کا عالم ہے مرگِ آدمیت کو نوحہ گر نہیں ملتا انقلابِ...
  16. ظہیراحمدظہیر

    سرحدِ شہر ِقناعت سے نکالے ہوئے لوگ

    سرحدِ شہر ِقناعت سے نکالے ہوئے لوگ کیا بتائیں تمہیں کس کس کے حوالے ہوئے لوگ اپنی قیمت پہ خود اک روز پشیماں ہونگے سکّہء وقت کی ٹکسال میں ڈھالے ہوئے لوگ آئینوں سے بھی نہ پہچانے گئے کچھ چہرے آتشِ زر میں جلے ایسے کہ کالے ہوئے لوگ کب سے ہے میرے تعاقب میں دہن کھولے ہوئے ایک عفریت شکم جس کے...
  17. ظہیراحمدظہیر

    غم نیا تھا تو نیا عہدِ وفا رکھنا تھا

    غم نیا تھا تو نیا عہدِ وفا رکھنا تھا حوصلہ غم سے بہرحال سوا رکھنا تھا کیسے اُس پر میں مقدر کی سیاہی رکھتا جس ہتھیلی پہ مجھے رنگِ حنا رکھنا تھا ایسا کیا ڈر تھا بھلا تیز ہوا سے لوگو! بجھ گئیں شمعیں تو آنکھوں کو کُھلا رکھنا تھا ہم نہ خوشبو تھے ، نہ آواز ، نہ بادل کوئی پھر ہواؤں سے تعلق بھلا...
  18. ظہیراحمدظہیر

    عشق

    عشق پیکرِ خاک میں تاثیرِ شرر دیتا ہے آتشِ درد میں جلنے کا ثمر دیتا ہے اک ذرا گردشِ ایّام میں کرتا ہے اسیر دسترس میں نئے پھر شام و سحر دیتا ہے پہلے رکھتا ہے یہ آنکھوں میں شب ِ تیرہ وتار دستِ امکان میں پھر شمس و قمر دیتا ہے دل پہ کرتا ہے یہ تصویر جمالِ ہستی پھر مٹاکر اُسے اک رنگِ دگر...
  19. ظہیراحمدظہیر

    اہلِ دل چشمِ گہربار سے پہچانے گئے

    اہلِ دل چشمِ گہربار سے پہچانے گئے دیدہ ور تیرے ہی دیدار سے پہچانے گئے ہم نے کب دعویٰ زمانے میں کیا الفت کا ہم تو چپ تھے ، ترے انکار سے پہچانے گئے خود کو آزاد سمجھتے تھے مگر وقتِ سفر ایک زنجیر کی جھنکار سے پہچانے گئے معرکے جو بھی سمندر سے ہوئے ساحل تک میری ٹوٹی ہوئی پتوار سے پہچانے گئے...
  20. ظہیراحمدظہیر

    زندہ حقیقتوں سے چھپایا گیا ہمیں

    احباب ِ محفل ! اس مسلسل سی غزل میں نہ تو کوئی نئی بات ہے اور نہ ہی اس کا پس منظر بتانے کی کوئی ضرورت ہے ۔ بس اس تلخ نوائی پر معذرت چاہتا ہوں۔ زندہ حقیقتوں سے چھپایا گیا ہمیں ماضی کی داستاں میں بسایا گیا ہمیں چھینا گیا لبوں سے تبسم بنامِ سوز قصے کہانیوں پہ رُلایا گیا ہمیں اپنے سوا ہر عکس ہی...
Top