ظہیراحمد کی شاعری

  1. ظہیراحمدظہیر

    وطنِ عزیز میں حکومت کی تبدیلی پر

    وطنِ عزیز میں حکومت کی تبدیلی پر ×××××× ایک چہرہ بدل گیا ہوگا ایک پرچم اتر گیا ہوگا ایک دنیا سَنور چلی ہوگی ایک عالَم بکھر گیا ہوگا نشرگاہوں سے پھر فضاؤں میں وعدہء خوب تر گیا ہو گا پھر خوشامد کا حرفِ بے توقیر سرخیوں میں اُبھر گیا ہوگا کچھ سیاسی بیان بازوں کا آج قبلہ سدھر گیا ہوگا رُخ بدلتے وفا...
  2. ظہیراحمدظہیر

    مرے شہر ِ ذرہ نواز کا وہی سرپھرا سا مزاج ہے

    ( پاکستان سے واپسی پر ۔ ۔ ۔ ۔ فروری ۲۰۰۴ ) مرے شہر ِ ذرّہ نواز کا وہی سرپھرا سا مزاج ہے کبھی زیبِ سر ہے غبارِ رہ ، کبھی زیرِ پا کوئی تاج ہے کہیں بے طلب سی نوازشیں ، کہیں بے حساب محاسبے کبھی محسنوں پہ ملامتیں ، کبھی غاصبوں کو خراج ہے وہی بے اصول مباحثے ، وہی بے جواز مناقشے وہی حال زار ہے...
  3. ظہیراحمدظہیر

    ترک ِ تعلقات کا وعدہ نہ کر سکیں

    ایک اور بہت پرانی غزل احباب کی کشادہ دلی کی نذر !! بس یہ چار اشعار قلمزد ہونے سے بچ گئے ہیں ۔ :) ترک ِ تعلقات کا وعدہ نہ کر سکیں چاہیں بھی ہم اگر کبھی ایسا نہ کرسکیں سر سے تمھارے عشق کا سودا نہ جا سکے تا عمر ہم کسی کو بھی اپنا نہ کرسکیں جلتے رہیں سدا یونہی رستوں کی دھوپ میں یادوں کے سائبان...
  4. ظہیراحمدظہیر

    ترکِ یقین کرکے اُس کو بھلا رہا ہوں

    ایک بہت پرانی غزل احباب کی خدمت میں ۔ نومشقی کے زمانے کا اکثر کلام تو مسترد کرکے ضائع کرچکا ہوں سوائے دو تین غزلوں کے۔ اس غزل کو صرف اسی لئے محفوظ رکھا ہے کہ کچھ یادیں اس سے وابستہ ہیں ۔ ترکِ یقین کرکے اُس کو بھلا رہا ہوں برسوں میں جس کی خاطر محوِ دعا رہا ہوں شاید ملے دفینہ بنیاد میں...
  5. ظہیراحمدظہیر

    میں بھی کسی کے درد کا درمان بن گیا

    میں بھی کسی کے درد کا درمان بن گیا ادنیٰ سا آدمی تھا میں انسان بن گیا اپنی حدیں ملی ہیں تو ادراکِ حق ہوا عرفانِ ذات باعثِ ایمان بن گیا ہمسر تھا جبرئیل کا جب تک تھا سجدہ ریز جیسے ہی سر اٹھایا تو شیطان بن گیا خیراتِ عشق کیا پڑی کشکولِ ذات میں اتنے کھلے گلاب کہ گلدان بن گیا کچھ بھی نہیں تھا...
  6. ظہیراحمدظہیر

    بات جو دل میں نہیں ، لب سے ادا کیسے کروں

    بات جو دل میں نہیں لب سے ادا کیسے کروں میں خفا تو ہوگیا اُس سے ، گلہ کیسے کروں دل کے ٹوٹے آئنے میں عکس ہے اک خواب کا قیدِ رنگ و روپ سے اُس کو رہا کیسے کروں سوچتا ہوں اک ہجومِ صد بلا کے درمیاں عافیت کے خواب کو میں واقعہ کیسے کروں روز و شب کے گنبدِ بے دَر سے مشکل ہے فرار دَر اگر مل جائے بھی...
  7. ظہیراحمدظہیر

    جس خاک سے بنے تھے ہم اُس خاک پر گرے

    جس خاک سے بنے تھے ہم اُس خاک پر گرے شاخِ شجر سے ٹوٹ کے جیسے ثمر گرے سونپی ہیں راہِ شوق نے وہ وہ امانتیں کاندھوں سے رہ نورد کے زادِ سفر گرے آیا ہے کس کا نام یہ نوکِ قلم پر آج کاغذ پر آکے سینکڑوں شمس و قمر گرے خاشاک بن گئے ہیں ہواؤں کے ہاتھ میں اپنی جڑوں سے ٹوٹ کے جتنے شجر گرے گھر ٹوٹنے کا...
  8. ظہیراحمدظہیر

    میں ہوں چہرہ تری خواہش کا ، مرے بعد تو دیکھ

    میں ہوں چہرہ تری خواہش کا ، مرے بعد تو دیکھ آئنہ دیکھ تو دانش کا ، مرے بعد تو دیکھ مجھ پہ ناکامی کے عنوان ابھی سے نہ لگا تُو نتیجہ مری کاوش کا مرے بعد تو دیکھ تُو مرے ہاتھ میں بجھتی ہوئی مشعل پہ نہ جا دُور تک سلسلہ تابش کا مرے بعد تو دیکھ پیاسی مٹی مجھے پی جائے گی مانا ،لیکن قطرہ پہلا ہوں...
  9. ظہیراحمدظہیر

    الفاظ کے پردے میں اگر تُو نہیں نکلے

    الفاظ کے پردے میں اگر تُو نہیں نکلے پھر نوک ِ قلم سے کوئی جادو نہیں نکلے دُھلتا ہے مرے اشکوں سے ہر رات یہ پھر بھی تکیے سے ترے قرب کی خوشبو نہیں نکلے منصف تو بڑی بات اگر ڈھونڈ نے جاؤ اِس شہر ِ ستم گر میں ترازو نہیں نکلے روئے جو کبھی نیشہء حالات پہ ہم لوگ اک زہر...
  10. ظہیراحمدظہیر

    سوچا ہے یہ ہم نے تمہیں سوچا نہ کریں گے

    سوچا ہے یہ ہم نے تمہیں سوچا نہ کریں گے ہم تم کو تصور میں بھی رُسوا نہ کریں گے گر تم کو بچھڑنے پہ نہیں کوئی ندامت مل جاؤ تو ہم بھی کوئی شکوہ نہ کریں گے رستے میں اگرچہ ہیں ہواؤں کے نشیمن ہم مشعلِ خود داری کو نیچا نہ کریں گے ہاں ذوقِ سفر بڑھ کے ہے منزل کی ہوس سے ہم کھو بھی گئے تو کوئی شکوہ...
  11. ظہیراحمدظہیر

    ڈرتا ہوں کسی دن نظروں کا دھوکا نہ کہیں ہو جاؤ تم

    ڈرتا ہوں کسی دن نظروں کا دھوکا نہ کہیں ہو جاؤ تم تعبیر سمجھتا ہوں تم کو ، سپنا نہ کہیں ہو جاؤ تم ہر روز بدلتے ہو منزل ، ہر سمت میں چلتے ہو کچھ دیر خواہش کے سفر میں رستے کا حصہ نہ کہیں ہو جاؤ تم افسانے کچھ اپنے عنواں کے برعکس بھی نکلا کرتے ہیں چہروں کی کتابیں پڑھتے ہو، ضایع نہ کہیں ہو جاؤ تم...
  12. ظہیراحمدظہیر

    زندگی کے رنگوں سے بام و در سجانے میں

    زندگی کے رنگوں سے بام و در سجانے میں ایک عمر لگتی ہے گھر کو گھر بنانے میں بام و در کو حیثیت آدمی سے ملتی ہے خالی گھر نہیں ہوتے معتبر زمانے میں نفرتوں کے بدلے میں ہم کسی کو کیا دیں گے خرچ ہوگئے ہم تو چاہتیں کمانے میں پھول کھل اٹھے دل میں ، شبنمی ہوئیں آنکھیں ذکر آگیا کس کا ہجر کے فسانے...
  13. ظہیراحمدظہیر

    سر پہ رکھے گا مرے دستِ اماں کتنی دیر

    سر پہ رکھے گا مرے دستِ اماں کتنی دیر باد ِ بے درد میں تنکوں کا مکاں کتنی دیر پوچھتی ہیں مری اقدار مرے بچوں سے ساتھ رکھو گے ہمیں اور میاں کتنی دیر بجھ گئی آگ تمناؤں کی جلتے جلتے کچھ دھواں باقی ہے لیکن یہ دھواں کتنی دیر رزق برحق ہے مگر یہ کسے معلوم کہ اب رزق لکھا ہے مقدر میں کہاں کتنی دیر...
  14. ظہیراحمدظہیر

    تمام رنگ وہی ہیں ترے بگڑ کر بھی

    تمام رنگ وہی ہیں ترے بگڑ کر بھی اے میرے شہر تُو اجڑا نہیں اجڑ کر بھی ہیں آندھیاں ہی مقدر تو پھر دعا مانگو شجر زمین پر اپنی رہیں اُکھڑ کر بھی ہم ایسی خاک ہیں اس شہر ِزرگری میں جسے بدل نہ پائے گا پارس کوئی رگڑ کر بھی ملا ہے اب تو مسلسل ہی روئے جاتا ہے وہ ایک شخص جو ہنستا رہا بچھڑ کر بھی عجب...
  15. ظہیراحمدظہیر

    تری نظر نے مرے قلب و جاں کے موسم میں

    تری نظر نے مرے قلب و جاں کے موسم میں یقیں کے رنگ بھرے ہیں گماں کے موسم میں زکوٰۃِ درد ہے واجب متاعِ الفت پر حسابِ غم کرو سود وزیاں کے موسم میں نہ اب تلاشِ بہاراں ، نہ ڈر خزاؤں کا ٹھہر گیا ہے چمن درمیاں کے موسم میں وہ انتظار کا موسم بہت غنیمت تھا بڑھی ہے تشنگی ابرِ رواں کے موسم میں حلیف...
  16. ظہیراحمدظہیر

    بے نسب درہم و دینار کا ورثہ کیسا

    بے نسب درہم و دینار کا ورثہ کیسا ہم نہ اپنائیں جو میراث تو حصہ کیسا نام کی تختی لگانے سے نہ ہوگا ثابت تم جو گھر پر نہیں موجود تو قبضہ کیسا دوستی آگ سے کاغذ کی جلادےگی شہر پھول رکھئے کف قرطاس پہ شعلہ کیسا میں فقط میں ہوں مجھے نسبتِ الفاظ سے جان مسلکِ لوح و قلم میں کوئی فرقہ کیسا دو دو...
  17. ظہیراحمدظہیر

    اس خاک سےجو ربطِ وفا کاٹ رہے ہیں

    اس خاک سےجو ربطِ وفا کاٹ رہے ہیں پرواز کی خواہش میں سزا کاٹ رہے ہیں اس روزِخوش آثار کی سچائی تو یہ ہے اک رات سر ِدشتِ بلا کاٹ رہے ہیں حبس اتنا ہے سینے میں کہ لگتا ہے مسلسل ہم سانس کے آرے سے ہوا کاٹ رہے ہیں بیکار کہاں بیٹھے ہیں مصروف ہیں ہم لوگ ہم اپنی صداؤں کا گلا کاٹ رہے ہیں خیاطِ...
  18. ظہیراحمدظہیر

    زنجیر کس کی ہےکہ قدم شاد ہوگئے

    زنجیر کس کی ہےکہ قدم شاد ہوگئے بیڑی پہن کے لگتا ہے آزاد ہوگئے جتنے بھی حرفِ سادہ ہوئے اُس سے منتسب ہم رنگِ نقش ِ مانئ و بہزاد ہوگئے سنگِ سخن میں جوئے معانی کی جستجو ! گویا قلم بھی تیشئہ فرہاد ہوگئے زندہ رہے اصولِ ضرورت کے ماتحت جب چاہا زندگی نے ہم ایجاد ہوگئے خود بیتی لگتی ہے...
  19. ظہیراحمدظہیر

    تمھاری گلیوں میں پھر رہے تھے اسیرِ ِ درد و خراب ِ ہجراں

    تمھاری گلیوں میں پھر رہے تھے اسیرِ ِ درد و خراب ِ ہجراں ملی اجازت تو آگئے پھر حضورِ عشق و جناب ِ ہجراں وہ ملنے جلنے کی ساری رسمیں دراصل فرقت کے سلسلے تھے گئے دنوں کی رفاقتوں میں چھپا ہوا تھا سراب ِ ہجراں مٹے نہیں ہیں حروفِ ظلمت ، ابھی گریزاں ہے صبح ِ برات ابھی پڑھیں گے کچھ اور بھی ہم...
  20. ظہیراحمدظہیر

    نشانِ منزلِ من مجھ میں جلوہ گر ہے تو

    نشانِ منزلِ من مجھ میں جلوہ گر ہے تو مجھے خبر ہی نہیں تھی کہ ہمسفر ہے تو سفالِ کوزہء جاں ! دستِ مہر و الفت پر تجھے گدائی میں رکھوں تو معتبر ہے تو علاجِ زخمِ تمنا نے مجھ کو ماردیا کسی کو کیسے بتاؤں کہ چارہ گر ہے تو چراغِ بامِ تماشہ کو بس بجھادے اب میں جس مقام پہ بیٹھا ہوں باخبر ہے تو یہ کس...
Top