آؤ دوستو کہانی لکھیں۔۔۔۔۔

آرزو

محفلین
عبد القیوم بھا ئی آپ کا بہت شکریہ جو آپ نے بھی اس کہا نی کو پسند کیا ۔ مجھ نہ چیز پر جو نظر ثانی کی آپ کا شکریہ ۔
 
منظر کشی کے ساتھ ساتھ کرداروں اور منظرنامہ کا قاری کے ساتھ جڑا ہونا ضروری ہے۔ ایسی صورت میں ہی قاری خود کو اس منظر کا حصہ سمجھتا ہے۔ مثال کے طور پر کہانی کا اختصار اچھی بات ہے اگر کہانی کو آگے لے کر بڑھتا ہو تو۔ اور طوالت عموما وقت کا ضیاع ہوتی ہے ۔ بہت لمبے ناولز یا افسانے بہت منجھے ہوئے قلم کار ہی تحریر کرتے ہیں جبکہ اس میں تھوڑی سی بھی کم مہارت کی صورت میں لمبے لمبے اور طویل ناولز فیل ہو جاتے ہیں کیونکہ جتنی طویل کہانی ہوگی اتنا ہی اس میں پڑھنے والے کو خود کے ساتھ باندھ کر رکھنے کا مادہ قائم رکھنا مشکل ہوتا جائے گا۔
 

آرزو

محفلین
جی فیصل بھائی آپ نے بلکل ٹیھک فرمایا ۔ مہارت کی کمی کی وجہ سے ناولز فیل ہو جاتے ہیں اور آپ نے جو مجھے سمجانے کی کوشش کی ہیں میں سمجھ گی ہوں ۔ اس کہانی میں ٹیھک کرنے کی کوشش کروں گی
۔آپ کا بہت شکریہ جو آپ نے میرے لیے اتنا وقت نیکالا ۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔
 

آرزو

محفلین
جنوری کا موسم ختم ہونے کو تھا ۔سردی بھی عروج پر تھی ۔ گاوں کو ہر طرف سردی نے اپنی لپیٹ میں لیے رکھا تھا ۔ شام ہونے سے پہلے ہی لوگ اپنے اپنے گھروں میں گھس جاتے ۔تسلیم ایک گرم چادر اوڑھے باہر نلکے کی جانب بڑھی ۔ غسل خانے پر ما ں کے لٹکے میلے کپڑے اٹھاے اور دھونے شروع کیے ۔ ٹھنڈی یخ نلکے کی ہتھی کو پکڑتے ہی ہا تھ برف کی طرح ہونے لگے ۔ پر تسلیم نے ہمت نہ ہاری ۔کپڑے دھوکہ فورا صحن میں لگی رسی میں ڈال دیے ۔رقیہ پتر باہر سے جا کے لکڑیاں لے آ ۔ بہت ٹھنڈ پڑ رہی ہے اندر آگ جلا لے اور سب بچوں کو بھی اندر بیٹھا دے ورنہ بچے بیمار ہو جاہیں گے ۔ اچھا خالہ میں ابھی جاتی ہوں صحن میں بچے کھیل رہے تھے اور سردی کا کوئی ہوش نہ تھا ۔ رقیہ نے باہر جاتے ہوے ایک ایک کو جھاڑ سناتی گی ۔ اور تنبیہ۔ کرگی کہ میں آوں تو تم سب اندر کمرے میں ہو ۔یہ کہتی ہوئی وہ باہر گلی کی جانب بڑھی اور سامنے ہی لکڑیوں کا ڈھیر لگا ہو ا تھا ۔ اپنی گرم چادر کو ادھی ناک تک ڈالی اور جلدی سے لکڑیاں اٹھاے واپسی بڑھی ۔ اور سامنے سے زاہد سکڑاسکڑا کر چل رہا تھا ۔ رقیہ نے دیکھااور اس کا دل گھبرانے لگا ۔ اور فورا اندر کی جانب بڑھی ۔ زاہد آہستہ آہستہ سکڑ کر اندر کمرے میں چلا گیا ۔ اماں جالدی سے مجھے رضائی دے آج میری طبیعت بہت خراب ہے سردی سے ہونٹ لزر رہے تھے ۔ کیا ہو ا میرے بچے کو میں صدقے جاوں میرے پتر کو اتنی سردی لگی ہے ۔ اما ں جلدی سے لکڑیا ں جلا میری سردی نہیں اتر رہی ۔
رقیہ تو ایسا کر ادھر کمرے میں لکڑیا ں جلا لے خالہ اندر کمرے میں لکڑی جلاوں گی تو دھواں ہو جاے گا اور کمرا کالا ہوجا ےگا ۔ ارے پگلی تو تو چریا ہو گی یے ۔میرے بیٹے کی جان پر بنی ہے اور تجھے کمرے کی پڑی ہے ۔جلدی کر ۔ اچھا خالہ ۔ بھیا اگر اتنی طبیعت خرا ب تھی تو کام پر نہ جاتے ۔ اما ں میں شیراز بھائی کو بولا کر لاتی ہوں ہاں تو جا شیراز کو بولا کر لا ۔ شام ہونے کو تھی سردی کاچاروں طرف کہرام مچا ہوا تھا ۔ کچھ ہی پلیں شیراز بھی آگیا ۔ ارے کیا ہوا بگے ؟ شیراز زاہد کو پیار سے بگے کہتا تھا کیونکہ زاہد رنگت میں کافی سانوالا تھا تو اس کو چھیڑنے کے لے بگے کہتا تھا ۔ بس شیراز بھائی کچھ دنوں سے طبیعت خراب یے اچھا ہو کیا یے ؟ بخار ہے اور پیٹ میں کافی دنوں سے درد ہے ۔ اچھا میں ایسا کرتا ہوں کہ ڈاکٹر کویہی پر لے آتا ہوں اب تو تو جا نہیں سکتا ۔ سردی سے کاپنتے ہوے اثبات میں سر ہلایا ۔
 

آرزو

محفلین
کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر بھی آگیا ۔ڈاکٹر نے ساری حقیقت جان کر دوائی دے دی ۔ اچھا چچی میں بھی چلتا ہوں ۔ اس بگے کا بھی دھیان رکھنا اچھا پتر اللہ تجھے خوش رکھے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ۔ساتھ زاہد اور زیادہ بیمار رہنے لگا ۔ کبھی طبیت ٹیھک ہوتی تو کام پر چلا جاتا ورنہ گھر پر رہتا ۔گاوں سے کچھ ہی دور چوک پر ایک ڑاکٹربیٹھا تھا ۔اسی سے سارے گاوں والے اپنا علاج کرواتے ۔ ڈاکٹر کافی سمجھ دار تھا ۔ اپنی سمجھ بوچھ کے مطابق شیراز کو مشورہ دیا کہ زاہد کو شہر کے بڑے ڈاکٹر کو دیکھایں ۔ وہ تزبزب میں تھا دیکھو شیراذ تم ایسے پرشان مت ہو ایک با ر شہر لے جا کر دیکھانے میں کیا حرج ہے ۔ ڈاکٹر نے خوب تاکید کی ۔ چلو ٹیھک ہے ڈاکٹر میں اسے کل ہی لے جاوں گا ۔ شیراز نے ڈاکٹر کو اپنے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا ۔ اور کلینک سے باہر نکلا ۔ موٹر بائک سے سیدھا گھر کو روانہ ہوا۔ اور کچھ ہی پل میں گھر کی گلی سے گزرتا ہوا اندر گھر کے صحن میں آپہنچا ۔بائک کو ایک سایٹ کھڑی کی اور سامنے ہی زاہد چار پائی پر لیٹا ہوا تھا ۔ بائک کی چابی کو ہاتھ میں لیے زاہد کی سامنے والی چار پائی پے بیٹھ گیا۔ سنا !بگے کیسی طبیعت ہے تیری ۔ بس یار ٹیھک ہوں چار پائی کی سایٹ والی جگہ کو پکڑ کر مضمحل سی حالت میں اٹھنے کی کوشش کر نے لگا ۔ ارےیار! تو بس لیٹا رے اچھا ایسا کر کل تو تیار ہو جا کل ہم شہر چلیں گیں ۔ اب میں تجھے بڑے ڈاکٹر کو دیکھاوں گا ۔ پتر ہم کیسے علاج کرواسکتے ہیں بڑے ڈاکٹر کی فیس تو بہت زیادہ ہو گی ۔چچی تو کیوں فکر کرتی ہے میں ہوں نہ میں کر لوں۔گا ۔ شیراز زاہد کو بہت چاہتا تھا ۔ اس نے طے کر لیا تھا کہ اب علاج کروا کہ رہوں گا ۔ دوسرے دن زاہد نے چیکپ کروایا تو پتہ چلا کہ ۔ کچھ خطرے والی بات نہیں ہے ۔ زاہد مطمعین ہو کے واپس آگیا ۔
 

آرزو

محفلین
فیصل بھائی سلام علیکم ۔ آپ کیسے ہیں ۔ بھائی کہانی میں کچھ انیس بیس کا فرق آیایا نہیں ۔ آپ کی اصلاح کا کچھ اثربھی ہوا یا بس ۔۔۔۔ اگر ریال میں سے نوس یا گروش کا بھی فاہدہ ہے تو میری خوش نصیبی یے ورنہ مجھے لگتا ہے میرے بس کی بات نہیں ۔۔۔۔۔۔ آپ کے علاوہ کوئی اور بھی پڑھ رہا ہے نہیں ۔ میری کہانی پڑھنےکے لیے سٹاف کے پاس ٹائم بھی ہیں کہ نہیں؟ جواب ضرور دیجے گا
 
فیصل بھائی سلام علیکم ۔ آپ کیسے ہیں ۔ بھائی کہانی میں کچھ انیس بیس کا فرق آیایا نہیں ۔ آپ کی اصلاح کا کچھ اثربھی ہوا یا بس ۔۔۔۔ اگر ریال میں سے نوس یا گروش کا بھی فاہدہ ہے تو میری خوش نصیبی یے ورنہ مجھے لگتا ہے میرے بس کی بات نہیں ۔۔۔۔۔۔ آپ کے علاوہ کوئی اور بھی پڑھ رہا ہے نہیں ۔ میری کہانی پڑھنےکے لیے سٹاف کے پاس ٹائم بھی ہیں کہ نہیں؟ جواب ضرور دیجے گا
پہلی بات یہ ہے کہ آپ کی تحاریر باقاعدگی سے پڑھی جاتی ہیں. البتہ اس میں دخل اندازی نہیں کی جاتی جسکی وجہ غیر معیاری نہیں بلکہ آپ کی تحریر کا تسلسل خراب نہ ہونے دینا ہے.

اب آتے ہیں آپ کی تحاریر میں اصلاح کا اثر ہونے یا نہ ہونے کا یہ فیصلہ ہمارا نہیں ہوتا بلکہ آپکا ہوتا ہے کہ آپ نے اصلاح کا کتنا اثر قبول کیا ہے.

تیسری بات یہ محفل ایک ایسا خاندان ہے جس کے انتظامات اس خاندان کے افراد نے ہی سنبھال رکھے ہیں اور کوئی اسٹاف ممبر یا ملازم نہیں ہوتا لہذا یہاں جو بھی کام ہو رہا ہے وہ اس اردو سے محبت رکھنے والے خاندان کا مشترکہ اثاثہ ہے اور اس خاندان کا آپ بھی حصہ ہیں
 

آرزو

محفلین
شکریہ فیصل بھائی ۔ آپ نے تو بہت کام کا کام کیا ہے کیابات ہے بھائی مجھے اب اور مزید جان کاری ہو جاے گی ۔ شکریہ بھائی آپ کا ۔ لگتا ہے میں اس ویپ پہ جاکے کچھ جان پاوں گی ۔ آپ کا بہت شکریہ ۔
 

آرزو

محفلین
بڑی بے بسی اور مایوسی کے عالم میں ماں سے مخاطب ہوا۔چہرے پر بس کوفت کے اثقال تھے ۔ پتر تو اتنا کیوں خوف زدہ ہو رہا ہے ؟ اماں میں بہت پریشان ہو ں مجھے تو کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا ۔لگتا ہے اب میں ٹیھک نہیں ہو سکتا پتہ نہیں اماں میرا دل بہت گھبرا رہا ہے میرا بچہ تو ٹیھک ہو جاے گا ۔ تو ایسی باتیں کیو م کرتا ہے ۔ نوراں نے بیٹے کو دیکھا تو کلیجہ منہ کو آگیا ۔ اور جھٹ سے بیٹے کو سینے سے لگا لیا ۔ خالہ جان تو بھی نہ ۔۔۔۔ حد کوتی ہے بیٹے کو ڈرا بھی رہی ہے اور تسلی بھی دے رہی ہے کچھ بھی نہیں ہو گا ٹیھک ہو جا ے گا زاہد ۔پانی کا گلاس پکڑے کھڑی خالہ کو تسلی دے رہی تھی ۔ رحیموں اور کریم بھی گھر آچکے تھے آتے ہی انھیں پیٹ نے آوازیں دینی شروع کی ۔ ارے کمبختو تمھارا بھائی بیمار ہے اور کام پر جاتا نہیں تو پیسے کہاں سے لاوں ۔ تو اماں آج ہم کیآ ایسے ہی بھوکے سو جا یں ۔ دودھ رکھا ہے جا کے گرم گرم دودھ کے ساتھ کھا لے ۔رقیہ ۔۔ جی خالہ ۔۔ ۔ منہ میں دھواں اور آنکھوں میں پانی کی لہر دوڑی اور گھوٹی آواز نکلی ۔ پھر سے اپنے کام کو انجام دنے لگی رقیہ دو روٹی ڈال دے ۔۔۔ اچھا کر رہی ہوں ۔۔ ۔ بھابھی تو ہٹ جا میں پھونک مارتا ہوں دیکھنا ایک ہی پھونک سے آگ مچ جاے گی ۔ متورم آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی اور ایک ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوے بولی چل تو بھی شوق پورا کرلے ۔ اچھا تو اٹھ جا اپنے بھائی کو تھوڑی مالش کر لے ۔ شام کا سورج ڈھلتے ہی نوراں اپنے دیے جلانے لگتی ۔ اگر دیا بجھ بھی جاتا تو اتنے سیاہ اندھرے میں ایسی ہوتی جیسے اس کی آنکھیں اندھرے میں بھی روشنی دے رہی ہوں ۔ وقت اور حالات کافی بدل چکے تھے ۔ زاہد کی حالت اور بگڑتی گی ۔ ڈاکٹروں کو اب تک سمجھ نہ آئی کہ بیماری کیا ہے پیٹ کا درد اور بڑھتا گیا ۔ زاہد نے اپنی جوانی چند ہی مہینوں میں چارپائی سے لگا لی ۔ دوائیاں لینے میں شیراز نے کوئی کمی نہ چھوڑی پر اللہ کی طرف سے اسے کوئی صحت یابی نہ ہوئی ۔۔ نوراں کا پورا گھر مصیبت کی ذاد میں تھا ۔بستی کا ہر عورت آدمی اسکی عیادت کو آتے ۔ ہر کوئی دعا کر رہا تھا نوراں اتنی غفلت میں تھی کہ اسے یہ تک نہ سوجھا کہ اٹھ کرنماز پڑھ کر اللہ سے گڑگڑا کر اپنے بیٹے کی زندگی کی دعایں ہی مانگ لوں ۔ پر وہ تھی ہی غفلت میں ۔ ۔ اب ہر وقت رقیہ اس کی خدمت میں لگی رہتی ۔ رقیہ آج تو تو وہ والا سوٹ پہن جو مجھے پسند ہے اچھا جامنی والا ۔ ۔ اچھا جی ٹیھک ہو جاوں گے تو پہن لوں گی ۔ پیشانی کو آہیستہ سے دباتی ہوئی دھرے سے گویا ہوئی ۔۔ نہیں تو آج کیوں نہیں پہن سکتی ؟ نہیں میرا دل نہیں کرتا ذاہد ۔۔۔ تجھے کچھ ہو گا تو نہیں ؟ اچانک سے ہی بد حواس ہوکر بولی ۔ نہیں نہیں ایسا کچھ نہیں ہو گا ۔ دیکھنا تو ٹیھک ہو جاے گاخود کو ہی تسلیاں دیتی ریی ۔ لگتا تو نہیں ہے رقیہ ۔کہ میں ٹیھک ہو ں ۔ایسا کیوں بولتے جی ۔ بس آپ آرام سے سو جاو اب ہم کل بات کریں گیں ۔ اچھا آخری بات مان میری ۔ کیوں جی ایسی بات کیوں کرتے ہو ۔ آخری کیوں سو منواو جی آج رات میرے ساتھ ہی لیٹ جا و ۔ جی ایک ہی چار پائی پہ ہم دونوں کیسے ۔۔۔۔ اری پگلی تو میرے غلط سمجھ رہی ہیں کافی دونوں سے مجھے درد کی وجہ سے نید ہی نہیں آئی سوچ رہا ہوں آج تو میری بانیوں کے حصار میں ہو گی تھوڑا سکون کی نید آجاے ۔ دیکھو جی تم ایسی باتیں کرتے ہو تو مجھے حول پڑتے ہیں رقیہ بد حواس ہونے لگی۔ اج کی رات اسے کہاں نید آنی تھی ۔ ساتھ لیٹے کافی دیر آسمان کی صرف دیکھتی رہی ذہین منتشیر سوچوں میں گم تھا نید آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔ کچھ ہی پل میں رقیہ نےسر اٹھا کر دیکھا ۔ زاہد سو چکا تھا ۔ رات کا فی گزر چکی تھی پر رقیہ کو کہاں نید آنی تھی ہر رات سے زیادہ بھاری رات تھی ہر طرح سے مخل اس کے ذہین میں چل رہے تھے ۔ ساری رات انگاروں پے کٹی ۔مرغے کی اذان پر چونکی ۔ انکھیں موندیں اور پر سے لیٹ گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

آرزو

محفلین
دن چڑھتے ہی زاہد کی حالت اور گمبھیر ہوتی گی شیراز فورا چوک روانہ ہو گیا ڈاکٹر کےگھر پہچنےسے پہلے ہی زاہد اس دنیا کو خیر باد کہہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ۔ ڈاکٹر نے نبض چیک کرتے ہی شیراز کے کندھوں پر ہاتھ رکھا ۔ شیراز تو جیسے ڈھے سا گیا ۔۔ نورا ں تو جیسے سکتے میں اگی ۔ کچھ ہی لمحے بعد اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے پیٹنے لگی اللہ میں برباد ہو گی میرا سب کچھ چلا گیا ۔ میرا لال میرے کلیجے کا ٹکڑا تو مجھے چھوڑ کے کیوں چلا گیا ۔ ادھر رقیہ بھی اپنے حواس کھو بیٹھی ۔ اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا ۔ ایک واویلا سا مچ گیا سرا گاوں اکٹھا ہوا گیا نوراں کے گھر اک قیامت برپا تھی ۔ تسلیم بھی آچکی تھی ہر کو ئی اپنے غم میں نڈھال تھا ۔ اپنے مقام پر سرانجام دینے کا ٹائم آچکا تھا ۔ جب جناذہ اٹھایا گیا تو ماں بیچاری کو کو ئی ہوش نہ تھا ۔ بین کیے جا رہے تھے زاہد کے بچے یتیم ہو چکے تھے رقیہ اپنے بچوں کو گلے لگاے روے جا رہی تھی ۔ ڈھلتی دھوپ کا سایہ بھی ختم ہو چکا تھا جس طرح اس کا سر کاسائیں ساتھ چھوڑ گیا ۔مغرب ہوتے ہی کالی سیاہ رات نےمحول کو اپنی گرفت میں لیا ایسی کا لی راتیں اب ان کا مقدر بن چکی تھیں ۔
 
Top