یہ کہانی ایک گاوں کی ہے جو بہت ہی خوبصورت ہرا بھرا گاوں۔ نوراں کا تعلق غریب گھرانے سے تھا شادی بھی غریب گھر میں ہوئی چچا کے بیٹے سے شادی کے پندرہ سال بعد شہور کا انتقال ہو گیا۔ اللہ نے چار بچوں سے نوازا وقت کے ساتھ ساتھ بچے بھی بڑے ہوگے زاہد بڑا بیٹا تھا کریم اور رحیم بہن سب سے چھوٹی تھی نوراں سارادن محنت مزدوری کرتی اوراپ ے بچوں کا پیٹ پالتی ۔ نوراں کا باپ بہت ہی سخت اور سر پھرا ادمی تھا۔ نوراں کی ماں بھی بیمار ہونے لگی نوراں کا باپ سارا دن ٹانگہ گھوڑا چلاتا اور اپنا پیٹ پالتا بیوی کی کوئی دیکھ بھال نہ کرتا نوراں اپنی ماں کو اپنے گھر لے آئی وقت اور حالات کے مطابق علاج شروع کردیا۔اسطرح وقت گزرتا رہا اور نوارں کی ماں کی حالت اور بگڑتی گی نوراں اور اسکی بیٹی تسلیم سارا دن کیھتوں پر کام کرتی اور شام کا گزارہ کرتی زاہد کے پیسوں سے نانی کا علاج ہوتا کریم اور ریحم تو سارا دن آورہ گردی کرتے باپ نے تو ماں کی خبر لینی ہی چھوڑ دی ۔ نوراں کی ماں کوایسی بیماری لاحق ہو گی تھی کے اٹھنے اور بیٹھنے کے قابل بھی نہ رہی ۔ نوراں بھی ماں سے اب تنگ آنے لگی نوراں کی دلچسبی بھی ماں سے ہٹتی گی تسلیم بھی نانی کو خاص پسند نہ کرتی ۔ روتی سسکتی ہوئی نانی تسلیم کو آوازیں دتی رہی ۔پر اسکی کوئی نہ پروا کرتا۔ ایک کنال میں کچا مکان دو کمروں پہ مشتمل تھا ساتھ ہی چھوٹی سی چھوپنڑی تھی۔جو کہ سردیوں کے موسم میں اپنے بال بچوں کو بیٹھاتی اورانیٹی پر لکڑیاں جلاتی سامنے تھوڑا دور نلکہ اور نلکے کے ساتھ نہانے کے لیے غسل خانہ تھا۔ا یک چار پائی پر گندی پرانی چٹائی بیچھی ہوئی نوراں کی ماں اس پہ لیٹی کرلاتی رہی۔اسے لگا کے بس اب آخری وقت ہے ملک الموت آے گا اور روح قبض کر کے لے جاے گا۔ نہر کے کنارے نوراں کپڑے دھوتی ہوئی اپنی ہی دنیا میں مگن تھی سب بستی کی جاننے والی شام ڈھلنےسے پہلے ہی اپنے کام دھونے والا لا رہی تھی کوئی کپڑے دھو رہی ہے تو کوئی برتن آب رواں پانی کنھی ناپاک نہں ہوتا اسلیے گاوں کی عورتیں ایسے پانی میں کام کرنا پسند کرتی ہیں۔ شام کو تھکی ہاری گھر آئی ۔