جب سے شعور کی آنکھ کھُلی امّی جان کو لوگوں کے کام آتے دیکھا۔جانوروں سے بھی رحم کا برتاؤ کرتی ہیں۔ اکثر یہ جُملہ کہتی سُنائی دیتی ہیں۔
" پتہ نہیں اللہ کیس گل توں راضی اے۔"
میٹرک کے امتحان ہو رہے تھے۔ لگتا تھا میرے نہیں امّی جان کے اِمتحان ہو رہے ہیں۔رات کو دیر تک پڑھ کے اُن سے کہتی کہ مجھے تین بجے جگا دیجئے گا۔ وہ جاگتی رہتیں کہ اُن کی آنکھ نہ کھُل سکی تو میرا نقصان ہو گا۔ ایک رات باہر کُتا بھونکا تو اُنہوں نے اُسے روٹی دے دی۔ پھر تو وہ روز آنے لگا۔تین بجے رات کو آتا اور دروازہ ایسے کھٹکھٹاتا جیسے کوئی اِنسان کھٹکھٹاتا ہو۔ اُس کے لئے روٹی کا پہلے سے اِنتظام ہوتا تھا۔ امّی جان مسکراتیں اور اُسے روٹی دیتیں۔وہ مزے سے کھاتا جاتا اور دُم ہِلاتا جاتا۔
اتنا اچھا لگا جاسمن بہنا ۔اپنی سادہ سی جنتی امّاں جانی یاد آگئیں آنسووں کی جھڑی لگی رہی اور اماّں کے لئیے مغفرت دعا ساتھ ساتھ جاری جاری رہی۔یہ قرینہ ساری زندگی اپنائےرکھا ۔جب تک اس دارِفانی سے کوچ نہ کر گئیں۔جب سے ہوش سنبھالا یہ دیکھا کراچی کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھی جانا پڑتا تو جاتیں جب تک جس کا کام لے لیتں اُسکو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا دیتں۔اور ہر دم یہی وردِ زبان پتہ نہیں کس بات پر اللّہ مجھ سے راضی ہو جائے۔اپنے ہاتھوں سے کھانا بناکر اور لوگوں کھلا کر اس قدر خوش ہوتییں گویا پوری دنیا کی دولت مل گئی،نہ گرمی کی پرواہ۔ نہ سردی کی حیرت تو اس بات پہ ہوتی مشکل سے مشکل کام کسی کا بھی ہوتا اس خوش اسلوبی سے کرتیں کہ دوسرے کو اندازہ ہ نہ ہوتا کہ اِس کی تکمیل میں کتنی مشکلات اُنکو اپنی ذات پر جھیلنا پڑیں ۔ہمیں جب پتہ چلتا جب سب کچھ کر کے حوالے کر رہ ہوتیں۔بہ خدا ماں باپ کو کھونا ایسا دکھ ہے۔جو لفظ بیان نہیں کرسکتے ۔بس اپنے پیارے اللّہ میاں سے ہر دم دعا رہتی ہے جس آرام سے تو نے اُنکو اپنے پاس بلایا۔اُنکا انتقال بارہ رمضان کو ہوا۔مغفرت کا عشرہ تھا فجر کی نماز پڑھ کر لیٹیں اور باوضو اُس کے دربار میں پیش ہوگییں۔تو مالک اپنی اِس چاہنے والی ہستی پر آسانیاں فرمادے ۔اُن سے راضی ہوجانا میرے مالک۔۔
ہ جو اک دعائے سکون تھی مرے رخت میں ، وہی کھو گئی
مرے چار سو ہے دُھواں دُھواں
مرے خواب سے مری آنکھ تک
یہ جو سیلِ اشک ہے درمیاں
اُسی سیلِ اشک کے پار ہے
کہیں میری ماں
ترے رحم کی نہیں حد کوئی
ترے عفو کی نہیں انتہا
کہ تو ماں سے بڑھ کے شفیق ہے
وہ رفیق ہے
کہ جو ساتھ ہو تو یہ زندگی کی مسافتیں
یہ اذیتیں یہ رکاوٹیں
فقط اک نگاہ کی مار ہیں
یہ جو خار ہیں
ترے دست معجزہ ساز ہیں
گل خوش جمال بہار ہیں
مری التجا ہے تو بس یہی
مری زندگی کا جو وقت ہے
کٹے اُس کی اُجلی دعاؤں میں
تری بخشِشوں کے دِیار میں
مری ماں کی روحِ جمیل کو
سدا رکھنا اپنے جوار میں
سد ا پُر ِفضا وہ لحد رہے تیری لطفِ خاص کی چھاؤں میں
وہ جو ایک پارہء ابر تھا سرِ آسماں
پس ہر گماں
وہ جو ایک حرفِ یقین تھا
مرے ہر سفر کا امین تھا
وہ جو ایک باغ ارم نما ، سبھی موسموں میں ہرا رہا
وہ اجڑ گیا
وہ جو اک دُعا کا چراغ سا ، مرے راستوں میں جلا رہا
وہ بکھر گیا
میری پیاری اماّں کی نذر امجد اسلام صاحب کی نظم