رضوان
محفلین
فیوڈل فینٹسی
ہر شخص کے ذہن میں عیش و فراغت کا ایک نقشہ رہتا ہے جو دراصل چربہ ہوتا ہےاس ٹھاٹ باٹ کا جو دوسروں کے حصے میں آیاہے۔ لیکن جو دکھ آدمی سہتا ھے، وہ تنہا اس کا اپنا ہوتا ہے۔ بلاشرکت غیرے۔ بالکل نجی،بالکل انوکھا۔ ہڈیوں کوپگھلا دینے والی جس آگ سے وہ گزرتا ہے اس کا کون اندازہ کرسکتا ہے۔ آتش دوزخ میں یہ گرمی کہاں۔ جیسا داڑھ کا درد مجھے ہو رہا ہے ویسا کسی اور کو نہ کبھی ہوا، نہ ہوگا۔ اس کے برعکس، ٹھاٹ باٹ کا بلُو پرنٹ ہمیشہ دوسروں سے چُرایا ہوا ہوتا ہے۔ بشارت کے ذہن میں عیش و تنعم کا جو صد رنگ و ہزار پیوند نقشہ تھا وہ بڑی بوڑھیوں کی اس رنگا رنگ رلّی کی مانند تھا جو وہ مختلف رنگ کی کترنوں کو جوڑ جوڑ کر بناتی ہیں۔ اس میں اس وقت کا جاگیردارانہ طنطنہ اور ٹھاٹ،بگڑے رئیسوں کا تیہا اورٹھسا، مڈل کلاس دکھاوا، قصباتی اِتروناپن، ملازمت پیشہ نفاست، سادہ دلی اورندیدہ پن- سب بری طرح سے گڈمڈ ہو گئے تھے۔ انھی کا بیاں ہے کہ بچپن میں میری سب سے بڑی تمنّا یہ تھی کہ تختی پھینک پھانک، قاعدہ پھاڑپھوڑ کر مداری بن جاوں، شہر شہر ڈگڈگی بجاتا، بندر، بھالو، جھمورا نچاتا اور “بچہ لّوگ“ سے تالی بجواتا پھروں۔ جب ذرا عقل آئی، مطلب یہ کہ بد اور بدتر کی تمیز پیدا ہوئی تو مداری کی جگہ اسکول ماسٹر نے لے لی۔ اور جب موضع دھیرج گنج میں سچ مچ ماسٹربن گیا تومیرے نزدیک انتہائے عیاشی یہ تھی کہ مکھن زین کی پتلون، دو گھوڑا بوسکی کی قمیض، ڈبل قفوں میں سونے کے چھٹانک چھٹانک بھر کے بٹن، نیا سولا ہیٹ جس پر میل خورا غلاف نہ چڑھا ہو اور پیٹنٹ لیدر کےپمپ شوز پہن کراسکول جاؤں اور اپنی غزلیات پڑھاؤں۔ سفید سلک کی اچکن جس میں بدری کے کام والے بٹن نرخرے تک لگے ہوں۔ جیب میں گنگا جمنی کام کی پانوں کی ڈبیا۔ سر پر سفید کمخواب کی رام پوری ٹوپی۔ ترچھی، مگر ذرا شریفانہ زاویے سے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ نرے شریف ہی ہو کے رہ جائیں۔ چھوٹی بوٹی کی چکن کا سفید کرتا جو موسم کی رعایت سے عطِر حنا یا خس میں بسا ہو۔ چوڑی دار پاجامے میں خوبرو دو شیزہ کے ہاتھ کا بُنا ہوا سفید ریشمی ازاربند۔ سفید نری کا سلیم شاھی جوتا۔ پیروں پر ڈالنے کے لئے اٹالین کمبل جو فٹن میں جتے ھوئے سفید گھوڑے کی دُم اور دُور مار بول و براز سے پاجامے کو محفوظ رکھے۔ فٹن کے پچھلے پائیدان پر “ھٹو! بچو!“ کرتا اور اس پر لٹکنے کی کوشش کرنے والے بچّوں کو چابک مارتا ہوا سائیس، جس کی کمر پر زردوزی کے کام کی پیٹی اور ٹخنے سے گھٹنے تک خاکی نمدے کی نواری پٹیاں بندھی ہوں۔ بچہ اب سیانا ہو گیا تھا۔ بچپن رخصت ہو گیا، پر بچپنا نہیں گیا۔
بچّہ اپنے کھیل میں جیسی سنجیدگی اور ہمہ تن محویت اور خودفراموشی دکھاتا ہے، بڑوں کے کسی مشن اور مہم میں اس کا عشر عشیر بھی نظر نہیں آتا۔ اس میں شک نہیں کہ دنیا کا بڑے سے بڑا فلسفی بھی کسی کھیل میں منھمک بچّے سے زیادہ سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔ کھلونا ٹوٹنے پر بچّے نے روتے روتے اچانک روشنی کی طرف دیکھا تھا تو آنسو میں دھنک جھلمل جھلمل کرنے لگی تھی۔ پھر وہ سبکیاں لیتے لیتے سو گیا تھا۔ وہی کھلونا بڑھابے میں کسی جادو کے زور سے اس کے سامنے لا کر رکھ دیا جائے تو وہ بھونچکا رہ جائے گا کہ ا کے ٹوٹنے پر بھی بھلا کوئی اسطرح جی جان سے روتا ہے۔ یہی حال ان کھلونوں کا ہو تا ہے جن سے آدمی زندگی بھر کھیلتا رھتا ہے۔ ہاں، عمر کے ساتھ ساتھ یہ بھی بدلتے اور بڑے ہوتے رہتے ھیں۔ کچھ کھلونے خود بخود ٹوٹ جاتے ہیں۔ کچھ کو دوسرے توڑ دیتے ہیں۔ کچھ کھلونے پروموٹ ہو کر دیوتا بن جاتے ہیں اور کچھ دیویاں دل سے اترنے کے بعد گودڑ بھری گڑیاں نکلتی ہیں۔ پھر ایک ابھاگن گھڑی ایسی آتی ھے جب وہ ان سب کو توڑ دیتا ہے۔ اس گھڑی وہ خود بھی ٹوٹ جاتا ہے۔
ہر شخص کے ذہن میں عیش و فراغت کا ایک نقشہ رہتا ہے جو دراصل چربہ ہوتا ہےاس ٹھاٹ باٹ کا جو دوسروں کے حصے میں آیاہے۔ لیکن جو دکھ آدمی سہتا ھے، وہ تنہا اس کا اپنا ہوتا ہے۔ بلاشرکت غیرے۔ بالکل نجی،بالکل انوکھا۔ ہڈیوں کوپگھلا دینے والی جس آگ سے وہ گزرتا ہے اس کا کون اندازہ کرسکتا ہے۔ آتش دوزخ میں یہ گرمی کہاں۔ جیسا داڑھ کا درد مجھے ہو رہا ہے ویسا کسی اور کو نہ کبھی ہوا، نہ ہوگا۔ اس کے برعکس، ٹھاٹ باٹ کا بلُو پرنٹ ہمیشہ دوسروں سے چُرایا ہوا ہوتا ہے۔ بشارت کے ذہن میں عیش و تنعم کا جو صد رنگ و ہزار پیوند نقشہ تھا وہ بڑی بوڑھیوں کی اس رنگا رنگ رلّی کی مانند تھا جو وہ مختلف رنگ کی کترنوں کو جوڑ جوڑ کر بناتی ہیں۔ اس میں اس وقت کا جاگیردارانہ طنطنہ اور ٹھاٹ،بگڑے رئیسوں کا تیہا اورٹھسا، مڈل کلاس دکھاوا، قصباتی اِتروناپن، ملازمت پیشہ نفاست، سادہ دلی اورندیدہ پن- سب بری طرح سے گڈمڈ ہو گئے تھے۔ انھی کا بیاں ہے کہ بچپن میں میری سب سے بڑی تمنّا یہ تھی کہ تختی پھینک پھانک، قاعدہ پھاڑپھوڑ کر مداری بن جاوں، شہر شہر ڈگڈگی بجاتا، بندر، بھالو، جھمورا نچاتا اور “بچہ لّوگ“ سے تالی بجواتا پھروں۔ جب ذرا عقل آئی، مطلب یہ کہ بد اور بدتر کی تمیز پیدا ہوئی تو مداری کی جگہ اسکول ماسٹر نے لے لی۔ اور جب موضع دھیرج گنج میں سچ مچ ماسٹربن گیا تومیرے نزدیک انتہائے عیاشی یہ تھی کہ مکھن زین کی پتلون، دو گھوڑا بوسکی کی قمیض، ڈبل قفوں میں سونے کے چھٹانک چھٹانک بھر کے بٹن، نیا سولا ہیٹ جس پر میل خورا غلاف نہ چڑھا ہو اور پیٹنٹ لیدر کےپمپ شوز پہن کراسکول جاؤں اور اپنی غزلیات پڑھاؤں۔ سفید سلک کی اچکن جس میں بدری کے کام والے بٹن نرخرے تک لگے ہوں۔ جیب میں گنگا جمنی کام کی پانوں کی ڈبیا۔ سر پر سفید کمخواب کی رام پوری ٹوپی۔ ترچھی، مگر ذرا شریفانہ زاویے سے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ نرے شریف ہی ہو کے رہ جائیں۔ چھوٹی بوٹی کی چکن کا سفید کرتا جو موسم کی رعایت سے عطِر حنا یا خس میں بسا ہو۔ چوڑی دار پاجامے میں خوبرو دو شیزہ کے ہاتھ کا بُنا ہوا سفید ریشمی ازاربند۔ سفید نری کا سلیم شاھی جوتا۔ پیروں پر ڈالنے کے لئے اٹالین کمبل جو فٹن میں جتے ھوئے سفید گھوڑے کی دُم اور دُور مار بول و براز سے پاجامے کو محفوظ رکھے۔ فٹن کے پچھلے پائیدان پر “ھٹو! بچو!“ کرتا اور اس پر لٹکنے کی کوشش کرنے والے بچّوں کو چابک مارتا ہوا سائیس، جس کی کمر پر زردوزی کے کام کی پیٹی اور ٹخنے سے گھٹنے تک خاکی نمدے کی نواری پٹیاں بندھی ہوں۔ بچہ اب سیانا ہو گیا تھا۔ بچپن رخصت ہو گیا، پر بچپنا نہیں گیا۔
بچّہ اپنے کھیل میں جیسی سنجیدگی اور ہمہ تن محویت اور خودفراموشی دکھاتا ہے، بڑوں کے کسی مشن اور مہم میں اس کا عشر عشیر بھی نظر نہیں آتا۔ اس میں شک نہیں کہ دنیا کا بڑے سے بڑا فلسفی بھی کسی کھیل میں منھمک بچّے سے زیادہ سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔ کھلونا ٹوٹنے پر بچّے نے روتے روتے اچانک روشنی کی طرف دیکھا تھا تو آنسو میں دھنک جھلمل جھلمل کرنے لگی تھی۔ پھر وہ سبکیاں لیتے لیتے سو گیا تھا۔ وہی کھلونا بڑھابے میں کسی جادو کے زور سے اس کے سامنے لا کر رکھ دیا جائے تو وہ بھونچکا رہ جائے گا کہ ا کے ٹوٹنے پر بھی بھلا کوئی اسطرح جی جان سے روتا ہے۔ یہی حال ان کھلونوں کا ہو تا ہے جن سے آدمی زندگی بھر کھیلتا رھتا ہے۔ ہاں، عمر کے ساتھ ساتھ یہ بھی بدلتے اور بڑے ہوتے رہتے ھیں۔ کچھ کھلونے خود بخود ٹوٹ جاتے ہیں۔ کچھ کو دوسرے توڑ دیتے ہیں۔ کچھ کھلونے پروموٹ ہو کر دیوتا بن جاتے ہیں اور کچھ دیویاں دل سے اترنے کے بعد گودڑ بھری گڑیاں نکلتی ہیں۔ پھر ایک ابھاگن گھڑی ایسی آتی ھے جب وہ ان سب کو توڑ دیتا ہے۔ اس گھڑی وہ خود بھی ٹوٹ جاتا ہے۔
ترشیدم، پرستیدم، شکستم
آج ان طفلانہ تمناؤں پرخود ان کو ہنسی آتی ہے۔ مگر یہ اس وقت کی حقیقت تھی۔ بچّے کے لیے اس کے کھلوننے سے زیادہ ٹھوس اوراصل حقیقت ساری کائنات میں کوئی نہیں ہوسکتی۔ جب خواب- خواہ وہ خوابِ نیم شبی ہو یا خوابِ بیداری- دیکھا جا رہا ہوتا ہے تو وہی اور صرف وہی اس لمحے کی واحد حاضر و موجود حقیقت ہوتی ہے۔ یہ ٹوٹا کھلونا، یہ آنسوؤں میں بھیگی پتنگ اور الجھی ہوئی ڈور جس پر ابھی اتنی مار کٹائی ہوئی، یہ جلتا بجھتا جگنو، یہ تنا ہوا غبارہجو اگلے لمحے ربر کے گِلگِلے ٹکڑوں میں تبدیل ہو جائے گا، میری ہتھیلی پر سرسراتی یہ مخملی بیربہوٹی، آواز کی رفتار سے بھی تیز چلنے والی یہ ماچس کی ڈبیوں کی ریل گاڑی، یہ صابن کا بُلبُلا جس میں میرا سانس تھرّا رہا ہے، دھنک پر یہ پریوں کا رتھ جسے تتلیاں کھینچ رہی ہیں- اس پل اس آن بس یہی حقیقت ہے-اور یہ عالم تمام وہم وطلسم و مجاز