آبِ گم (اسکول ماسٹر کا خواب) از مشتاق احمد یوسفی

رضوان

محفلین
فیوڈل فینٹسی

ہر شخص کے ذہن میں عیش و فراغت کا ایک نقشہ رہتا ہے جو دراصل چربہ ہوتا ہےاس ٹھاٹ باٹ کا جو دوسروں کے حصے میں آیاہے۔ لیکن جو دکھ آدمی سہتا ھے، وہ تنہا اس کا اپنا ہوتا ہے۔ بلاشرکت غیرے۔ بالکل نجی،بالکل انوکھا۔ ہڈیوں کوپگھلا دینے والی جس آگ سے وہ گزرتا ہے اس کا کون اندازہ کرسکتا ہے۔ آتش دوزخ میں یہ گرمی کہاں۔ جیسا داڑھ کا درد مجھے ہو رہا ہے ویسا کسی اور کو نہ کبھی ہوا، نہ ہوگا۔ اس کے برعکس، ٹھاٹ باٹ کا بلُو پرنٹ ہمیشہ دوسروں سے چُرایا ہوا ہوتا ہے۔ بشارت کے ذہن میں عیش و تنعم کا جو صد رنگ و ہزار پیوند نقشہ تھا وہ بڑی بوڑھیوں کی اس رنگا رنگ رلّی کی مانند تھا جو وہ مختلف رنگ کی کترنوں کو جوڑ جوڑ کر بناتی ہیں۔ اس میں اس وقت کا جاگیردارانہ طنطنہ اور ٹھاٹ،بگڑے رئیسوں کا تیہا اورٹھسا، مڈل کلاس دکھاوا، قصباتی اِتروناپن، ملازمت پیشہ نفاست، سادہ دلی اورندیدہ پن- سب بری طرح سے گڈمڈ ہو گئے تھے۔ انھی کا بیاں ہے کہ بچپن میں میری سب سے بڑی تمنّا یہ تھی کہ تختی پھینک پھانک، قاعدہ پھاڑپھوڑ کر مداری بن جاوں، شہر شہر ڈگڈگی بجاتا، بندر، بھالو، جھمورا نچاتا اور “بچہ لّوگ“ سے تالی بجواتا پھروں۔ جب ذرا عقل آئی، مطلب یہ کہ بد اور بدتر کی تمیز پیدا ہوئی تو مداری کی جگہ اسکول ماسٹر نے لے لی۔ اور جب موضع دھیرج گنج میں سچ مچ ماسٹربن گیا تومیرے نزدیک انتہائے عیاشی یہ تھی کہ مکھن زین کی پتلون، دو گھوڑا بوسکی کی قمیض، ڈبل قفوں میں سونے کے چھٹانک چھٹانک بھر کے بٹن، نیا سولا ہیٹ جس پر میل خورا غلاف نہ چڑھا ہو اور پیٹنٹ لیدر کےپمپ شوز پہن کراسکول جاؤں اور اپنی غزلیات پڑھاؤں۔ سفید سلک کی اچکن جس میں بدری کے کام والے بٹن نرخرے تک لگے ہوں۔ جیب میں گنگا جمنی کام کی پانوں کی ڈبیا۔ سر پر سفید کمخواب کی رام پوری ٹوپی۔ ترچھی، مگر ذرا شریفانہ زاویے سے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ نرے شریف ہی ہو کے رہ جائیں۔ چھوٹی بوٹی کی چکن کا سفید کرتا جو موسم کی رعایت سے عطِر حنا یا خس میں بسا ہو۔ چوڑی دار پاجامے میں خوبرو دو شیزہ کے ہاتھ کا بُنا ہوا سفید ریشمی ازاربند۔ سفید نری کا سلیم شاھی جوتا۔ پیروں پر ڈالنے کے لئے اٹالین کمبل جو فٹن میں جتے ھوئے سفید گھوڑے کی دُم اور دُور مار بول و براز سے پاجامے کو محفوظ رکھے۔ فٹن کے پچھلے پائیدان پر “ھٹو! بچو!“ کرتا اور اس پر لٹکنے کی کوشش کرنے والے بچّوں کو چابک مارتا ہوا سائیس، جس کی کمر پر زردوزی کے کام کی پیٹی اور ٹخنے سے گھٹنے تک خاکی نمدے کی نواری پٹیاں بندھی ہوں۔ بچہ اب سیانا ہو گیا تھا۔ بچپن رخصت ہو گیا، پر بچپنا نہیں گیا۔
بچّہ اپنے کھیل میں جیسی سنجیدگی اور ہمہ تن محویت اور خودفراموشی دکھاتا ہے، بڑوں کے کسی مشن اور مہم میں اس کا عشر عشیر بھی نظر نہیں آتا۔ اس میں شک نہیں کہ دنیا کا بڑے سے بڑا فلسفی بھی کسی کھیل میں منھمک بچّے سے زیادہ سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔ کھلونا ٹوٹنے پر بچّے نے روتے روتے اچانک روشنی کی طرف دیکھا تھا تو آنسو میں دھنک جھلمل جھلمل کرنے لگی تھی۔ پھر وہ سبکیاں لیتے لیتے سو گیا تھا۔ وہی کھلونا بڑھابے میں کسی جادو کے زور سے اس کے سامنے لا کر رکھ دیا جائے تو وہ بھونچکا رہ جائے گا کہ ا کے ٹوٹنے پر بھی بھلا کوئی اسطرح جی جان سے روتا ہے۔ یہی حال ان کھلونوں کا ہو تا ہے جن سے آدمی زندگی بھر کھیلتا رھتا ہے۔ ہاں، عمر کے ساتھ ساتھ یہ بھی بدلتے اور بڑے ہوتے رہتے ھیں۔ کچھ کھلونے خود بخود ٹوٹ جاتے ہیں۔ کچھ کو دوسرے توڑ دیتے ہیں۔ کچھ کھلونے پروموٹ ہو کر دیوتا بن جاتے ہیں اور کچھ دیویاں دل سے اترنے کے بعد گودڑ بھری گڑیاں نکلتی ہیں۔ پھر ایک ابھاگن گھڑی ایسی آتی ھے جب وہ ان سب کو توڑ دیتا ہے۔ اس گھڑی وہ خود بھی ٹوٹ جاتا ہے۔
ترشیدم، پرستیدم، شکستم​
آج ان طفلانہ تمناؤں پرخود ان کو ہنسی آتی ہے۔ مگر یہ اس وقت کی حقیقت تھی۔ بچّے کے لیے اس کے کھلوننے سے زیادہ ٹھوس اوراصل حقیقت ساری کائنات میں کوئی نہیں ہوسکتی۔ جب خواب- خواہ وہ خوابِ نیم شبی ہو یا خوابِ بیداری- دیکھا جا رہا ہوتا ہے تو وہی اور صرف وہی اس لمحے کی واحد حاضر و موجود حقیقت ہوتی ہے۔ یہ ٹوٹا کھلونا، یہ آنسوؤں میں بھیگی پتنگ اور الجھی ہوئی ڈور جس پر ابھی اتنی مار کٹائی ہوئی، یہ جلتا بجھتا جگنو، یہ تنا ہوا غبارہجو اگلے لمحے ربر کے گِلگِلے ٹکڑوں میں تبدیل ہو جائے گا، میری ہتھیلی پر سرسراتی یہ مخملی بیربہوٹی، آواز کی رفتار سے بھی تیز چلنے والی یہ ماچس کی ڈبیوں کی ریل گاڑی، یہ صابن کا بُلبُلا جس میں میرا سانس تھرّا رہا ہے، دھنک پر یہ پریوں کا رتھ جسے تتلیاں کھینچ رہی ہیں- اس پل اس آن بس یہی حقیقت ہے-
اور یہ عالم تمام وہم وطلسم و مجاز​
 

رضوان

محفلین
اسکول ماسٹر کا خواب

کچھ قوسِ قزح سے رنگ لیا، کچھ نور چُرایا تاروں سے

یہ قصہ کھلونا ٹوٹنے سے پہلے کا ہے۔
وہ اس زمانے میں نئے نئے اسکول ماسٹر مقرر ہوئے تھے اور سیاہ فٹن ان کی تمناؤں کی معراج تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ اس یونیفارم یعنی سفید اچکن سفید جوتے سفید کرتے پاجامے اور سفید اِزاربند وغیرہ کی کھکھیڑ فقط خود کو سفید گھوڑے سے میچ کرنے کے لیے تھی، ورنہ اس بطخا بھیس پر کوئی بطخ ہی فریفتہ ہوسکتی تھی۔ انھیں چوڑی دار سے بھی سخت چِڑ تھی۔ صرف خوبرو دوشیزہ کے ہاتھ کے بُنے ہوئے سفید ازاربند کو استعمال کرنے کی خاطر یہ ستار کا غلاف ٹانگوں پر چڑھانا پڑا۔ اس ہوائی قلعہ کی ہر اینٹ فیوڈل گارے سے بنی تھی جو بورژواخوابوں سے گندھا تھا۔ اتنا ہی نہیں کہ ہر اینٹ کا سائزاور رنگ مختلف تھا، ہر ایک پر ان کی اُبھرواں شبیہ بھی بنی تھی۔ کچھ اینٹیں گول بھی تھیں، باریک سے باریک جزئیات، یہاں تک کہ اس حدِادب کا بھی تعین کر دیا تھا کہ ان کے حضور سفید گھوڑے کی دم کتنی ڈگری کے زاوئے تک اُٹھ سکتی ہے۔ اور ان کی سواری بادِبہاری کے “رو ٹ“ پر کس کس جھروکے کی چق کے پیچھے کس کلائی میں کس رنگ کی چوڑیاں چھنک رہی ہیں۔ کس کی ہتھیلی پر ان کا نام (مع بی اے کی ڈگری) مہندی سے لکھا ہے۔ اور کس کس کی سُرمگیں آنکھیں چلمن سے لگی راہ تَک رہی ہیں اور تیلیوں کو بار بار انگلیوں سے چوڑا کر کر کے دیکھ رہی ہیں کہ کب انقلابی شہزادہ یہ دعوت دیتا ھوا آتا ہے کہ
تم پرچم لہرانا ساتھی، میں بربط پر گاؤں گا
یہاں اتنا عرض کرتا چلوں کہ اس سے زیادہ محفوظ تقسیمِ کار اور کیا ہو گی کہ گھُمسان کے رن میں پرچم تو محبوب اٹھاے اٹھاے کٹتا مرتا پھرے اور خود شاعر دور کسی مرمریں مینار میں بیٹھا ایک متروک اور دقیانوسی ساز پر ویسا ہی کلام یعنی خود اپنا کلام گا رہا ہو۔ نثر میں اسی سچویشن کو دوسرے کو سولی پر چڑھ جانے کی تلقین اور رام بھلی کرنے والی کہاوت میں ذرا زیادہ پھوہڑ ایمانداری سے بیان کیا گیا ہے۔ لیجیے، مطلعے میں ہی سخن گسترانہ بات آپڑی۔ ورنہ کہنا صرف اتنا تھا کہ مزے کی بات یہ تھی کہ اس سوتے جاگتے خواب کے دوران، بشارت نے خود کو اسکول ماسٹر ہی کے “رول“ میں دیکھا۔ منصب بدلنے کی خواب میں بھی جراَت نہ ہوئی۔ شاید اس لئے بھی کہ فٹن اور ریشمی اِزاربند سے صرف اسکول ماسٹروں پر ہی رعب پڑ سکتا تھا۔ زمیںداروں اور جاگیرداروں کے لئے یہ چیزیں کیا حیثیت رکھتی تھیں۔ انھیں اپنی پیٹھ پر بیس برس بعد بھی اس آتشیں لکیر کی جلن محسوس ہوتی تھی جو چابک لگنے سے اس وقت اُپڑی تھی جب محلّے کے لونڈوں کے ساتھ شور مچاتے، چابک کھاتے وہ ایک رئیس کی سفید گھوڑے والی فٹن کا پیچھا کر رہے تھے۔

چوراہے بلکہ شش وپنج راہے پر
شعروشاعری چھوڑ کر اسکول ماسٹری اختیار کی۔ اسکول ماسٹری کو دَھتا بتا کر دکانداری کی۔ اورآخرکار دکان بیچ کھوچ کر کراچی آگئے۔ جہاں ہرچندرائے روڈ پر دوبارہ عمارتی لکڑی کا کاروبار شروع کیا۔ نیا ملک۔ بدلا بدلا سا رہن سہن۔ ایک نئی اور مصروف دنیا میں قدم رکھا۔ مگر اس سفید گھوڑے اور فٹن والی فینٹسی نے پیچھا نہیں چھوڑا۔ خوابِ نیم روز(day-dreaming) اور فینٹسی سے دو ہی صورتوں میں چھٹکارا مل سکتا ہے۔ اوّل، جب وہ فینٹسی نہ رہے، حقیقت بن جائے۔ دوم، انسان کسی چوراہے بلکہ ششو پنج راہے پر اپنے سوتے جاگتے ہمزاد سے سارے خواب بخشوا کر رخصت چاہے۔
Heart-breaker,dream-maker,thank you for the dream!
اور اس کُھونٹ نکل جائے جہاں سے کوئی نہیں لَوٹا۔ یعنی گھر گرہستی کی طرف۔ لیکن بشارت کو اس سے بھی افاقہ نہیں ہوا۔ وہ بھرا پُرا گھر اونے پونے بیچ کر اپنے حسابوں لٹے پٹے آیے تھے۔ پاکستان میں ایک دو سال میں ھی اللہ نے ایسا فضل کیا کہ کانپور ہیچ معلوم ہونے لگا۔سارے ارمان پورے ہو گئے۔ مطلب یہ کہ گھر اشیائے غیرضروری سے اٹا اٹ بھر گیا۔ بس ایک کمی تھی:
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ھے گھوڑے کے سوا
اب وہ چاہتے تو نئی نہ سہی سیکنڈ ھینڈ کار بآسانی خرید سکتے تھے۔ جتنی رقم میں آجکل چار ٹائر آتے ہیں، اس سے کم میں اس زمانے میں کار مل جاتی تھی۔ لیکن کار میں انہیں وہ رئیسانہ ٹھاٹ اور زمیں دارانہ ٹھسا نظر نہیں آتا تھا جو فٹن اور بگھی میں ہوتا ہے۔ گھوڑے کی بات ہی کچھ اور ہے۔

گھوڑے کی ساتھ شجاعت بھی گئی

مرزا عبدالودود بیگ کہتے ہیں کہ آدمی جب بالکل جزباتی ہو جائے تو اس سے کوئی عقل کی بات کہنا ایسا ہی ہے جیسے بگولے میں بیج بونا- چنانچہ بشارت کو اس شوقِ فضول سے باز رکھنے کے بجائے انہوں نے اُلٹا خوب چڑھایا۔ ایک دن آگ کو پٹرول سے بجھاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جب سے گھوڑا رخصت ہوا، دنیا سے شجاعت و سرفروشی، جاں بازی و دلاوری کی ریت بھی اٹھ گئی۔ جانوروں میں کتا اور گھوڑا انسان کے سب سے پہلے اور پکے رفیق ہیںجنہوں نے اسکی خاطر ہمیشہ کے لیئے جنگل چھوڑا۔ کتا تو خیر اپنے کتے پن کی وجہ سے چمٹا رہا۔ لیکن انسان نے گھوڑے کے ساتھ بیوفائی کی۔ گھوڑے کے جانے سے انسانی تہزیب کا ایک ساونتی باب ختم ہوتا ہے۔ وہ باب جب سورما اپنے دشمن کو للکار کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑتے تھے۔ موت ایک نیزے کی دوری پر ھوتی تھی اور یہ نیزہ دونوں کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ موت کا ذائقہ اجنبی سہی لیکن مرنے والا اور مارنے والا دونوں ایک دوسرے کا چہرہ پہچان سکتے تھے۔ غافل سوتے ہوئے۔ بے چہرہ شہروں پر مشروم بادل کی اوٹ سے آگ اور ایٹمی موت نہیں برستی تھی۔ گھوڑا صرف اس وقت بزدل ہو جاتا ہے جب اس کا سوار بزدل ہو۔ بہادر گھوڑے کی ٹاپ کے ساتھ دل دھک دھک کرتے اور اور دھرتی تھراتی تھی۔ پیچھے دوڑتے ہوئے بگولے، سموں سے اڑتی ہوئی چنگاریاں، نیزوں کی اَنی پر کرن کرن بکھرتے سورج اور سانسوں کی ہانپتی آندھیاں کوسوں دور سے شہ سواروں کی یلغار کا اعلان کردیتی تھیں۔ گھوڑوں کے ایک ساتھ دوڑنے کی آواز سے آج بھی لہو میں ہزاروں سال پرانی وحشتوں کے الاؤ بھڑک اتھتے ہیں۔
لیکن مرزا ذرا ٹھۃرو۔ اپنے توسنِ خطابت کو لگام دو۔ یہ کس گھوڑے کا ذکر کر رہے ہو؟ تانگے کے گھوڑے کا؟


(جاری!!!!!!!!!!!!)
 

رضوان

محفلین
گل جی کے گھوڑے
لیکن یہ ہم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ گھوڑے کے بغیر طالع آزمائی، ملک گیری، شجاعت اور “شولری“ کے عہد کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ “گھوڑے کی کاٹھی ہی ہمارا راج سنگھاسن ہے۔“ گائیکواڑوں کو اپنے قدیم شاہی “ماٹو“ پر بڑا ناز تھا- یورپ کو تاخت و تاراج کرنے والے ہُن شہ سواروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کبھی گھوڑے سے نہیں اترتے تھے۔ اس کی پیٹھ پر ھی سوتے، سستاتے، کھاتے، شراب نوشی اور خریدوفروخت کرتے۔ یہاں تک کے حوائج ضروری سے فارغ ہوتے۔ انگلینڈ میں اسٹب نامی ایک آرٹسٹ گزرا ہے جو صرف اعلٰی نسل کے گھوڑے پینٹ کرتا تھا۔ یورپ میں گھوڑوں۔ کتوں اور رائلٹی کی حد تک ولدیت اور شجرہ نسب اب بھی تھوڑے بہت معنی رکھتے ہیں۔ گھوڑے کو برہنہ ماڈلوں پر ترجیح دینے کی وجہ ہمیں تو بظاہر یہی معلوم ہوتی ہے کہ عورت کی دُم نہیں ہوتی۔
اس میں یہ عافیت بھی تھی کہ گھوڑا کبھی یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ تصویر اصل کے مظابق نہ ہو۔ بہتر ہو۔ ہم پاکستان کے ممتاز اور نامور آرٹسٹ گل جی کے گیارہ سال دیوار بیچ پڑوسی رہ چکے ہیں۔ انہیں بہت قریب سے پینٹ کرتے ہوئے دیکھاہے۔ وہ صرف رات کو، اور وہ بھی بارہ بجے کے بعد پینٹ کرتے ہیں- کافی عرصے تک ہم یہی سمجھتے رہے کہ شاید انہیں رات میں بہتر دکھائی دیتا ہے۔ لیکن جب سے ہم نے السر کی تکلیف کے سبب رات کو لکھنا پڑھنا شروع کیا، ہمسائے کے بارے میں بد گمانی سے کام لینا چھوڑ دیا۔
کیا تجھ کو خبر کون کہاں جھوم رہا ہے
انھیں بھی گھوڑوں سے بے انتہا شغف ہے۔ انکی تصویریں بنا کر لاکھوں کماتے ہیں۔ سنا ہے ایک دفعہ کسی نے ( ہم نے نہیں ) مزاق میں کہ دیا کہ جتنے کی آپ ایک گھوڑے کی تصویر بیچتے ہیں، اس میں تو تین زندہ گھوڑے بآسانی آ سکتے ھیں۔ اتنا تو ہم نے بھی دیکھا اسکے بعد وہ کینوس پر کم از کم تین گھوڑے بنانے لگے۔ یہ بھی دیکھا کہ جتنے پیار، تفصیل وار موشماری اور انسپریشن سے وہ گھوڑے کی دم بناتے ھیں، اس کا سوواں حصہ بھی گھوڑے اور سوارپرصرف نہیں کرتے۔ صرف گھوڑے ہی کی نہیں سوار کی بھی ساری پرسنلٹی کھینچ کر دُم میں آجاتی ہے۔ چنانچہ ہر دُم منفرد، البیلی اور انمول ہوتی ہے۔ دل کی بات پوچھیئے تو وھ فقط دم ہی بنانا چاہتے ہیں۔ باقی ماندہ گھوڑا انہیں فقط دُم کو اٹکانے کے لئیے طوعًا و کرہًا بنانا پڑتا ہے۔ کبھی کسی وی آئی پی خاتون کی پورٹریٹ خاص توجہ سے بہت ہی خوب صورت بنانی مقصود ہوتی تو اس کے بالوں کی پونی ٹیل بطور خاص ایسی بناتے کہ کوئی گھوڑا دیکھ لے تو بے قرار ہو ہو جائے۔
 

رضوان

محفلین
افضل تریں دُم
لیکن اونٹ کی دُم سے مادہ کو رجھانا تو درکنار، کسی بھی معقول یا نامعقول جزنے کا اضہار نہیں کیا جاسکتا۔ اس کو تو ٹھیک سے لٹکنا بھی نہیں آتا۔ سچ پوچھیے تو دُم تو بس مور، برڈ آف پیراڈائز اور کیسینو کی Bunnies کی ہوتی ہے۔ آخرالذکر ہمیں اس لیے بھی اچھی لگتی ہے کہ وہ ان کی اپنی نہیں ہوتی، اور اس کا مقصد آدمی کے اندر سوئے ہوئے اور ہارنے والے خرگوش کو گد گدا جگانا ہوتاہے۔ برڈ آف پیراڈائز چکور کے برابر ہوتا ہے۔ لیکن نر کی دُم، خدا جھوٹ نہ بلوائے، پندرہ پندرہ فٹ لمبی ہوتی ہے۔ اگر بہت سے نر اونچے اونچے درختوں پر اپنی متعلقہ دُمیں لٹکائے امیدوارِ کرم بیٹھے ہوں تو مادہ ان کی شوہرانہ اہلیت جانچنے کے لیے وہی پیمانہ استعمال کرتی ہے جس سے اگلے زمانے میں علما و فضلا کا علم ناپا جاتا تھا۔ مطلب یہ کہ فقط معلقات یعنی ڈاڑھی، شملہ اور دُم کی لمبائی پر فیصلے کا انحصار۔ جس کی دُم سب سے لمبی ہو، مادہ اسی کے پرلے سرے پر لگی ہوئی منّی سی چونچ میں اپنی چونچ ڈال دیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سب سے با مقصد دُم بچھو کی ہوتی ہے۔ سانپ کا زھر کچلی میں اور بچھو کا دُم میں ہوتا ہے۔ بھڑ کا زھر ڈنک میں اورپاگل کتے کا زبان میں۔ انسان واحد حیوان ہے جو اپنا زہر دل میں رکھتا ہے۔ لکھتے لکھتے یوں ہی خیال آیا کہ ہم بچھو ہوتے تو کس کس کو کاٹتے۔ اپنے نا پسندیدہ اشخاص کی فہرست کو دیکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ ایک زندگی تو اس مشن کے لیے بالکل نا کافی ہوتی۔ لیکن یہاں تک نوبت ہی نہ آتی، اس لیے کہ ہمارے معتوبین کی فہرست میں سب سے پہلا نام تو ہمارا اپنا ہی ہے۔ رہی سانپ کی دُم ، تو وہ ہمیں پسند تو نہیں fascinate (لبھاتی) ضرور ہے۔ اس میں وہی خوبی پائی جاتی ہے جو ہماری پیشانی میں ہے۔ کوئی نہیں بتا سکتا کہ وہ کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ پھن کو چھوڑ کر ہمیں تو سارا سانپ دُم ہی دُم معلوم ہوتا ہے۔ لیکن سب سے اعلٰی و افضل وہ دُم قرار پائے گی جو جھڑ چکی ہے، اس لیے کہ اس حادثے کے بعد ہی اشرف المخلوقات ور خلیفۃ الارض کا درجہ ملا ہے۔

ہماری سواری: کیلے کا چھلکا
فٹن اور گھوڑے سے بشارت کی شیفتگی کاذکر کرتے کرتے ہم کہاں آ نکلے۔ مرشدی و آقائی مرزا عبدالودود بیگ نے ایک دفعہ بڑے تجربے کی بات کہی۔ فرمایا“ جب آدمی کیلے کے چھلکے پر پھسل جائے تو پھر رکنے، بریک لگانے کی کوشش ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ اس سے اور زیادہ چوٹ آئے گی۔ بس آرام سے پھسلتے رہنا چاہیے اور پھسلنے کو انجوائے کرنا چاہیے۔ بقول تمہارے استاد ذوق کے، تم بھی چلے چلو یہ جہاں تک چلی چلے۔ کیلے کا چھلکا جب تھک جائے گا تو خود بخود رک جائے گا۔“ Just relax " لٰہزا قدم ہی نہیں، قلم یا نگاہِ تصوّر بھی پھسل جائے تو ہم اسی اصول پر عمل کرتے ہیں۔ بلکہ صاف صاف کیوں نہ اقرار کرلیں کہ زندگی کے طویل سفر میں کیلے کا چھلکا ہی ہماری واحد سواری رہا ہے۔ یہ جوکبھی کبھی ہماری چال میں جوانوں کی سی تیزی اور چلت پھرت آجاتی ہے تو یہ اسی کے طفیل ہے۔ ایک دفعہ رپٹ جائیں تو پھر یہ قلم چال جو بھی کنویں جھنکوائے اور جن گلیوں گلیاروں میں لے جائے وہاں بےارادہ لیکن بَرغبت جاتے ہیں۔ قلم کو روکنے تھامنے کی ذرا کوشش نہیں کرتے۔ اور جب بیروں کی پوٹ پھٹ کر کاغذ پر بکھر جاتی ھے تو ہماری مثال اس بچّے کی سی ہوتی ہے جس کی ٹھساٹس بھری ہوئی جیب کے تمام رازوں کو کوئی اچانک نکال کر سب کے سامنے میز پر لگادے۔ زیادہ خفت بڑوں کو ہوتی ھے کہ انہیں اپنا بھُولا بسرا بچپن اور اپنی موجودہ میز کی درازیں یاد آجاتی ھیں۔ جس دن بچّے کی جیب سے فضول چیزوں کے بجائے پیسے برآمد ھوں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب اسے بےفکری کی نیند کبھی نصیب نہیں ہوگی۔


ریس کورس سے تانگے تک

جیسے جیسے بزنس میں منافع بڑھتا گیا، فٹن کی خواہش بھی شدید تر ہوتی گئی۔ بشارت مہینوں گھوڑے کی تلاش میں سرگرداں رہے۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے گھوڑے کے بغیر انکے سارے کام بند ہیں۔ اور بادشاہ رچرڈ سوم کی طرح وہ ہر چیز گھوڑے کی خاطر تج دینے کے لئے تیار ہیں:
"A horse! a horse!my kingdom for a horse"
ان کے پڑوسی چودھری کرم الٰہی نے مشورہ دیا کہ ضلع سرگودھا کے پولیس اسٹڈ فارم سے رجوع کیجئے۔ ویاں پولیس کی نگرانی میں ‘تھارو بریڈ‘ اور اعلٰی ذات کے گھوڑوں سے افزائشِ نسل کروائی جاتی ہے۔ گھوڑے کا باپ خالص اور اصیل ہو تو بیٹا لامحالہ اسی پر پڑے گا۔ مثل ہے کہ باپ پرپُوت، پتا پر گھوڑا، بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا۔ مگر بشارت کہنے لگے کہ“ میرا دل نہیں ٹھکتا۔ بات یہ ہے کہ جس گھوڑے کی پیدائش میں پولیس کا حمل دخل ہو، وہ گھوڑا خالص ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ گھوڑا پولیس پر پڑے گا۔“
گھوڑے کے بارے میں یہ گفتگو سن کر پروفیسر قاضی عبد القدوس ایم اے-بی ٹی نے وہ مشہور شعر پڑھا اور حسبِ معمول بے محل پڑھا، جس میں دیدہ ور کی ولادت سے رونما ہونے والی پیچیدگیوں کے ڈر سے نرگس ہزاروں سال روتی ہے۔ مرزا کہتے ہیں کہ پروفیسر قاضی عبد القدوس اپنی دانست میں کوئی بہت ہی دانائی کی بات کہنے کے لئے اگر بیچ میں بولیں تو بیوقوف معلوم ہوتے ہیں۔ اگر نہ بولیں تو اپنے چہرے کے نارمل ایکسپریشن کے سبب اور زیادہ بیوقوف لگتے ہیں۔ گویا:
گویم مہمل وگرنہ گویم مہمل
پوفیسر مزکور کے نارمل ایکسپریشن سے مراد چہرے پر وہ رنگ ہیں جو اس وقت آتے اور جاتے ہیں جب کسی کی زپ اَدھ بیچ میں اٹک جاتی ہے۔
خدا خدا کر کے ایک گھوڑا پسند آیا جو ایک اسٹیل ری رولنگ مل کے سیٹھ کا تھا۔ تین چار دفعہ اسے دیکھنے گئے اور ہر دفعہ پہلے سے زیادہ مطمئن لوٹے۔ اس کا سفید رنگ ایسا بھایا کہ اٹھتے بیٹھتے اسی کے چرچے، اسی کے قصیدے۔ ہم نے ایک دفعہ پوچھا “پچ کلیان ہے؟“ حقارت آمیز انداز سے ہنسے۔ فرمایا “پچ کلیان تو بھینس بھی ہو سکتی ہے۔ فقط چہرہ اور ہاتھ پیرسفید ہونے سے گھوڑے کی دُم میں سُرخاب کا پر نہیں لگ جاتا۔ گھوڑا وہ جو آٹھوں گانٹھ کمیت ہو۔ چاروں ٹخنوں اور چاروں گھٹنوں کے جوڑ مضبوط ہونے چاہیئں۔ یہ بھاڑے کا ٹٹّو نہیں،ریس کا خاندانی گھوڑا ہے۔“ یہ گھوڑا ان کے اعصاب پر اس بُری طرح سوار تھا کہ اب اسے ان پر سے کوئی گھوڑی ہی اتار سکتی تھی۔ سیٹھ نے انھیں ایسوسی ایٹڈ پرنٹرز میں طبع شدہ کراچی ریس کلب کا وہ کتابچہ بھی دکھایا جو اس ریس سے متعلق تھا جس میں اس گھوڑے نے حصّہ لیا اور اوّل آیا تھا۔ اس میں اس کی تصویر اور تمام کوائف مع شجرہً نسب درج تھے۔ نام White Rose ولد Wild Oats ولد Old Devil۔ جب سے یہ اعلٰی نسل کا گھوڑا دیکھا، انھوں نے اپنے ذاتی بزرگوں پر فخر کرنا چھوڑ دیا۔ ان کے بیان کے مطابق اس کے دادا نے ممبئی میں تین ریسیں جیتیں۔ چوتھی میں دوڑتے ہوئے ہارٹ فیل ہو گیا۔ اس کی دادی بڑی نرچگ تھی۔ اپنے زمانے کے نامی گرامی ولایتی گھوڑوں سے اسکا تعلق رہ چکا تھا۔ اس کے دامنِ عصمت سے تمسّک و تمتّع کی بدولت چھ نرینہ اولادیں ھوئیں۔ ہر ایک اپنے متعلقہ باپ پڑی۔ سیٹھ سے پہلے وہائٹ روز ایک بگڑے ریئس کی ملکیت تھا جو باتھ آئی لینڈ میں ایک کوٹھی “ونڈر لینڈ“ نام کی اپنی اینگلوانڈین بیوی ایلس کے لئے بنوا رہا تھا۔ ری رولنگ مِل سے جو سَریا وہ خرید کر لے گیا تھا اس کی رقم کئی مہینے سے اس کے نام کھڑی تھی۔ ریس اور سٹے میں دِوالا نکلنے کے سبب ونڈرلینڈ ‌کی‌ تعمیر ‌رک ‌‌‌‌‌‌‌گئی اور‌‌‌‌ایلس ‌اسے ‌حیرت زدہ چھوڑ کر ملتان کے ایک زمیں دار کے ساتھ یورپ کی سیر کو چلی گئی۔ سیٹھ کو ایک دن جیسے ہی خبر ملی کہ ایک قرض خواہ اپنے واجبات کے عوض پلاٹ پر پڑی ہوئی سیمنٹ کی بوریاں اور سَریا اٹھوا کے لے گیا، اس نے اپنے منیجر کو پانچ لٹھ بند چوکیداروں کی نفری ساتھ لے کر باتھ آئی لینڈ بھیجا کہ بھاگتے بھوت کی جو چیز بھی ہاتھ لگے، کھسوٹ لائیں۔ لٰہذا وہ یہ گھوڑا اصطبل سے کھول لائے۔ وہیں ایک سیامی بلی نظر آگئی۔ سو اسے بھی بوری میں بھر کے لے آئے۔ گھوڑے کی ٹریجڈی کو پوری طرح ذہن نشین کرانے کے لئے بشارت نے ضمناً ہم سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ فرمایا “یہ گھوڑا تانگے میں جتنے کے لئے تھوڑا ھی پیدا ہوا تھا۔ سیٹھ نے بڑی زیادتی کی، مگر قسمت کی بات ہے۔ صاحب تین سال پہلے کون کہہ سکتا تھا کہ آپ یوں بینک میں جوت دیے جائیں گے۔ کہاں ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی کرسی اور کہاں بینک کا چار فٹ اونچا اسٹول!“
 

رضوان

محفلین
شاہی سواری
انہیں اس گھوڑے سے پہلی نظر میں محبت ہوگئی۔ اور محبت اندھی ہوتی ہے، خواہ گھوڑے سے ہی کیوں نہ ہو۔ انہیں یہ تک سجھائی نہ دیا کہ گھوڑے کی مدح میں اساتذہ کے جو اشعار وہ اوٹ پٹانگ پڑھتے پھرتے تھے، ان کا تعلق تانگے کے گھوڑے سے نہیں تھا۔ یہ مان لینے میں چنداں مضائقہ نہیں کہ گھوڑا شاہی سواری ہے۔ رعبِ شاہی اور شوکتِ شہانہ کا تصورگھوڑے کے بغیر ادھورا بلکہ بالکل آدھا رہ جاتا ہے۔ بادشاہ کے قد میں گھوڑے کے قد کا اضافہ کیا جائے تب کہیں وہ قدِ آدم نظر آتا ہے۔
لیکن ذرا غور سے دیکھا جائے تو شاہی سواری میں گھوڑا دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ اس لیے کہ بادشاہوں اور مطلق العنان حکمرانوں کی مستقل اور دلپسند سواری در حقیقت رعایا ہوتی ہے۔ یہ ایک دفعہ اس پر سواری گانٹھہ لیں تو پھر انھیں سامنے کوئی کنواں، کھائی، باڑھ اور رکاوٹ دکھائی نہیں دیتی۔ جوشِ شہ زوری و شہ سواری میں نوشتۃ دیوار والی دیوار بھی پھلانگ جاتے ہیں۔ یہ نوشتۃ دیوار اس وقت تک نہیں پڑھ سکتے جب تک وہ Braille میں نہ لکھا ہو۔ جسے وہ اپنا دربار سمجھتے ہیں، وہ دراصل انکا محاصرہ ہوتا ہے۔ جو انہیں یہ سمجھنے سے قاصر رکھتا ہے کہ جس منھ زور سر شور گھوڑے کو صرف ہنہنانے کی اجازت دیکر بآسانی آگے سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے، اسے وہ پیچھے سے قابو کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مطلب یہ کہ لگام کے بجائے دُم مڑوڑتا ہے۔ مگر اس بظاہر مسکیں سواری کا اعتبار نہیں کہ یہ ابلق لقاسد ایک چال نہیں چلتی:
اکثر یہ بد رکاب بنی اور بگڑ گئی
 

رضوان

محفلین
غُربا کشتن روزِ اوّل
لیکن جو حکمراں ہوشیار، مردم شناس اور رموز و مصلحتِ مملکت سے آشنا ہوتے ہیں، وہ پہلے ہی دن غریبوں کی سرکوبی کرکے خواص کو عبرت دلاتے ہیں:
غُربا کشتن روِز اوّل
ویسے خواص اور عمائد کو کسی تنبیہ اور آنکس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جو بھی ان پر سونے کی عماری، چاندی کی گھنٹیاں، زربفت کی جھول اور تمغوں کی مالا ڈال دے، اسی کا نشان ہاتھی بننے کے لئے کمربستہ رہتے ہیں۔ پہلے کمربستہ و دست و پا بستہ۔ پھر لب بستہ۔ اور آخر میں فقط بستہ بردار۔
چار دن کی زندگی ملی تھی۔ سو دو آرزوئے حضوری میں کٹ گئے، دو جی حضوری میں۔

ہمارا کجاوہ
ہم نے ایک دن گھوڑوں کی جناب میں کچھ گستاخی تو بشارت بھنّا گئے۔ ہم نے برسبیلِ تضحیک ایک تاریخی حوالہ دیا تھا کہ جب منگول ہزاروں کے غول بنا کر گھوڑوں پر نکلتے تو بدبو کے ایسے بھبھکے اٹھتے تھے کہ بیس میل دور سے پتہ چل جاتا تھا۔ ارشاد فرمایا، معاف کیجیے، آپ نے راجھستان میں، جہاں آپ نے جوانی گنوائی، اونٹ ہی اونٹ دیکھے، جن کی پیٹھ پر کلف دار راجپوتی صافے، چڑھواں داڑھیاں اور دس فٹ لمبی نال والی توڑےدار بندوقیں سجی ہوتی تھیں۔ اور نیچے کندھے پہ رکھی لاٹھی کے سِرے پر تیل پلائے ہوئے کچے چمڑے کے جُوتے لٹکائے، اردلی میں ننگے پیر جاٹ۔ گھوڑا تو آپ نے پاکستان میں آن کر دیکھا ہے۔ میاں احسان الٰھی گواہ ہیں، انھی کے سامنے آپ نے ان ٹھاکر صاحب کا قصّہ سنایا تھا جو مہاراجا کی شترنال پلٹن میں رسال دار تھے۔ جب ریٹائر ہو کر اپنے آبائی قصبے-کیا نام تھا اس کا- اودے پور توراواٹی پہنچے تو اپنی گڑھی میں ملاقاتیوں کے لئے دس بارہ مونڈھے ڈلوا دیے اور اپنے لئے سرکاری اونٹ جنگ بہادر کا پرانا کجاوہ۔ اسی پر اپنی پلٹن کا شنگرفی رنگ کا صافہ باندھے، سینے پر تمغے سجائے صبح سے شام تک بیٹھے ہلتے رہتے۔ ایک دن ہل ہل کر جنگ بہادر کے کارنامے بیان کر رہے تھے اور میڈل جھن جھن کر ریے تھے کہ دل کا دورہ پڑا۔ کجاوے پر ھی طائرِ روح قفسِ عنصری سے پرواز کر کے اپنے عمودی سفر پر روانہ ہو گیا۔ دمِ واپسیں لبوں پر مسکراہٹ اور جنگ بہادر کا نام۔ معاف کیجیے، یہ سب آپ ہی کے لیے ہوئے اسنیپ شاٹس ہیں۔ بندہ پرور! آپ بھی تو اپنے کجاوے سے نیچے نہیں اُترتے۔ نہ اُتریں مگر یہ کجاوہ خاکسار کی پیٹھ پر رکھا ہوا ہے۔ صاحب، آپ گھوڑے کی قدر کیا جانیں۔ آپ تو یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ سمندِ سیاہ زانو کس چڑیا کا نام ہے۔ خچر کا ‘کراس‘ کیسے ہوتا ہے؟ کھریرا کس شکل کا ہوتا ہے؟ کنوتیاں کہاں ہوتی ہیں؟ بیل کے آر کہاں چبھوئی جاتی ہے؟ چلغوزہ کس زبان کا لفظ ہے؟
آخری دو سوال کلیدی اور فیصلہ کن تھے۔ اس لیے کہ ان سے پتا چلتا تھا کہ بحث کس نازک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ یہ کج بحثی ہمیں اس لیے اور بھی ناگوار گزری کہ ہمیں ایک بھی سوال کا جواب نہیں آتا تھا۔ وہ “اوکھے“ نہیں طبعاً بہت دھیمے اور میٹھے آدمی ہیں۔ لیکن جب وہ اسطرح پٹڑی سے اتر جائیں تو ہمیں دور تک کچے میں کھدیڑتے، گھسیٹتے لے جاتے ہیں۔ کہنے لگے“ جو شخص گھوڑے پر نہیں بیٹھا، وہ کبھی سیر چشم، غیوّر اور شیر دلیر نہیں ہو سکتا“۔ ٹھیک ہی کہتے ہونگے۔ اس لیے کہ وہ خود بھی کبھی گھوڑے پر نہیں بیٹھے تھے۔
 

رضوان

محفلین
جنازے سے دُور رکھنا

انھیں ایک عرصے سے زندگی میں جو روحانی خلا محسوس ہو رہا تھا، وہ اس گھوڑے نے پر کردیا۔ انہیں بڑی حیرت ہوتی تھی کہ اس کے بغیر اب تک کیسے بلکہ کاہے کو جی رہے تھے!
I wonder by my troth what thou and I did till we loved____Donne
اس گھوڑے سے ان کی شیفتگی اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ فٹن کا خیال چھوڑ کر سیٹھ کا تانگا بھی ساڑھے چار سو روپے میں خرید لیا، حالانکہ انھیں بالکل پسند نہیں تھا۔ بہت بڑا اور گنوارو تھا۔ کیلن کیا کیا جائے سارے کراچی میں ایک بھی فتن نہیں تھی۔ سیٹھ گھوڑا اور تانگا ساتھ بیچنا چاھتا تھا۔ یہی نہیں اس نے دانے کی دو بوریوں، گھاس کے پانچ پولوں، گھوڑے کے فریم کیے ہوئے فوٹو، ہاضمے کے نمک، دوا اور تیل پلانے کی نال، کھریرے اور توبڑے کی قیمت ساڑھے انتیس روپے علیحدہ سے دھروالی۔ وہ اس دھاندلی کو “پیکج ڈیل“ کہتا تھا۔ گھوڑے کے بھی منہ مانگے دام دینے پڑے۔ گھوڑا اگر اپنے منہ سے دام مانگ سکتا تو یقینًا سیٹھ کے مانگے ہوئے داموں یعنی نو سو روپے سے کم ہی ہوتے۔ گھوڑے کی خاطر بشارت کو سیٹھ کا تکیہ کلام “کیا؟“ اور “سالا“ بھی برداشت کرنا پڑا۔ چکتا حساب کرکے جب انھوں نے لگام اپنے ہاتھ میں لی اور یہ یقین ہو گیا کہ اب دنیا کی کوئی طاقت ان سے انکے خواب کی تعبیر نہیں چھیں سکتی تو انہوں نے سیٹھ سے پوچھا کہ آپ نے اتنا اچھا گھوڑا کیوں بیچ دیا؟ کوئی عیب ہے؟ اس نے جواب دیا “دو مہینے پہلے کی بات ہے، میں تانگے میں لارنس روڈ سے لی مارکیٹ جا رہا تھا۔ میونسپل ورک شاپ کے سامنے پہنچا ہوں گا کہ سامنے سے ایک سالا جنازہ آتا دکھلائی پڑا۔ کیا؟ کسی پولیس افسر کا تھا۔ گھوڑا آل آف اے سڈن بدک گیا۔ پر کندھا دینے والے اس سے بھی زیادہ بدکے۔ بے فضول ڈر کے بھاگ کھڑے ہوئے ۔ کیا؟ بیچ سڑک کے جنازے کی مٹی خراب ہوئی۔ ہم سالا اُلو کی موافق بیٹھا دیکھتا پڑا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ، بیکار بندھا کھا رہا ہے۔ دل سے اتر گیا۔ کیا؟ ویسے عیب کوئی نہیں۔ بس جنازے سے دور رکھنا اچھا۔ سلامالیکم“
“آپ نے یہ پہلے کیوں نہیں بتایا؟“
“تم نے پہلے کیوں نہیں پوچھا؟ سلامالیکم“
 

رضوان

محفلین
جگ میں چلے پَون کی چال
انہوں نے ایک کوچوان رحیم بخش نامی ملازم رکھ لی۔ تنخواہ منھ مانگی، یعنی پنتالیس روپے اور کھانا کپڑا۔ گھوڑا انہوں نے صرف رنگ، دانت اور گھنیری دُم دیکھ کر خریدا تھا۔ اور وہ ان حصوں سے اتنے مطمئن تھے کہ باقی ماندہ گھوڑے کی جانچ پڑتال ضروری نہیں سمجھی۔ کوچوان بھی کچھ اسی طرح رکھا۔ یعنی صرف زبان پر ریجھ کر۔ باتیں بنانے میں طاق تھا۔گھوڑے جیسا چہرہ۔ ہنستا تو معلوم ہوتا گھوڑا ہنہنا رہا ہے۔ تیس سال سے گھوڑوں کی صحبت میں رہتے رہتے ان کی تمام عادتیں، عیب اور بدبوئیں اپنا لیں تھیں۔ گھوڑے کی اگر دو ٹانگیں ہوتیں تو یقینًا اسیطرح چلتا، بچوں کو اکثر اپنا بایاں کان ہلا کر دکھاتا۔ فٹ بال کو ایڑھی سے دولتی مارکر پیچھے کی طرف گول کرتا تو بچّے خوشی سے تالیاں بجاتے۔ گھوڑے کے چنے کی چوری کرتا تھا۔ بشارت کہتے تھے ،، ‌یہ‌منحوس چوری چھپے گھاس بھی کھاتا ہے، ورنہ ایک گھوڑا اتنی گھاس کھا ہی نہیں سکتا۔ جبھی تو اس کے بال ابھی تک کالے ہیں ۔ دیکھتے نہیں حرام خور تین عورتیں کر چکا ہے!،، موضوع کچھ بھی ہو تمام تر گفتگو سائیسی اصطلاحوں میں کرتا اور رات کو چابکلیکر سوت۔ دومیل کے دائرے میں کہیں بھی گھوڑا یا گھوڑی ہو، وہ فوراً بُو پا لیتا اور اس کے نتھنے پھڑکنے لگتے۔ راستے میں کوئی خوبصورت گھوڑی نظر آ جائے تو وہیں رک جاتا اور آنک مار کے تانگے والے سے اس کی عمر پوچھتا۔ پھر اپنے گھوڑے کا چرمی چشم بند اٹھا تے ہوئے کہتا،،پیارے! تو بھی جلوہ دیکھ لے۔ کیا یاد کرے گا!،، اور پنکج ملک کی آواز، اپنی لے اور گھوڑے کی ٹاپ کی تال پر،، جگ میں چلے پون کی چال،، گاتا ہوا آگے بڑھ جاتا۔ مرزا کہتے تھے یہ شخص پچھلے جنم میں گھوڑا تھا اور اگلے جنم میں بھی گھوڑا ہی ہوگا۔ یہ سعادت صرف مہا تماؤں اور رشیوں منیوں کو ہی حاصل ہوتی ہے کہ جو وہ پچھلے جنم میں تھے، اگلے میں بھی وہی ہوں۔ ورنہ ہما شما کی تو ایک ہی دفعہ مین جون پلٹ جاتی ہے۔
 

رضوان

محفلین
دست بد یوار واں گیا

گھوڑے تانگے کا افتتاح کہیے، مہورت کہیے، breaking - in کہیے--- اس کی رسم بشارت کے والد نے انجام دی۔ ستر کے پیٹے بلکہ لپیٹے میں آنے کے بعد مستقل بیمار رہنے لگے تھے۔ کراچی آنے کے بعد انھوں نے بہت ہاتھ پاؤں مارے، لیکن نہ کوی مکان اور جائداد الاٹ کراسکے، نہ کوئی دھنگ کی بزنس شروع کر پائے۔ بنیادی طور پر وہ بہت سیدھے آدمی تھے۔ بدلے ہوئے حالات میں بھی وہ اپنے بندھے ٹکے اصولوں اور آؤٹ آف ڈیٹ طرزِ زندگی میں تبدیلی پیدا کرنے کو سراسر بدمعاشی گر دانتے تھے۔ چنانچہ ناکامی سے دل گرفتہ یا شرمسار ہونے کی بجائے ایک گونہ افتخار اور طمانیت محسوس کرتے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو زندگی میں ناکام ہونے کو اپنی نیکی اور راست بازی کی سب سے روشن دلیل سمجھتے تھے۔ بے حد حساس، کم آمیز اور خوددار انسان تھے۔ کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا تھا۔ پامسٹ کے سامنے بھی نہیں ۔ اب یہ بھی کیا۔خوشامد سے کبھی زبان کو آلودہ نہیں کیا تھا۔ یہ قسم بھی ٹوٹی مگر کار بر آری نہ ہونا تھی، نہ ہوئی۔ بقل مرزا عبدالودود بیگ، جب غیّور اور با اصول آدمی حتی المقدر دھکے کھانے کے بعد “ ڈی موریلائز“ ہو کر کامیاب لوگوں کے ہتھکنڈے اپنانے کی بھونڈی کوشش کرتا ہے تو رہی سہی بات اور بگڑ جاتی ہے۔ یکایک انپر فالج کا حملہ ہوا جسم کا بایاں حصہ مفلوج ہوگیا۔ ذیابطیس، الرجی، پارکنسن کا عارضہ اور اللہ جانے کیا کیا لاحق ہوگیا۔ کچھ نے کہا ان کی مجروح انّا نے بیماریوں میں پناہ تلاش کرلی ہے۔ خود تندرست نہیں ہونا چاہتے کہ پھر کوئی ترس نہیں کھائے گا۔ اب انہیں اپنی ناکامیوں کا ملال نہیں تھا جتنا کہ عمر بھر کی وضع داری ہوتھ سے چھوٹنے کا قلق۔ لوگ آ آ کر انہیں حوصلہ دلاتے اور کامیاب ہونے کی ترکیبیں سجھاتے تو ان کے آنسو رواں ہو جاتے۔
تم تو کرو ہو صاحبی بندے میں کچھ رہا نہیں​
(میر کی مراد صاحبی سے “صاحب پن“ نہیں بلکہ ناز و غمزہ اور تغافلِ معشوقانہ ہے۔)
سُبکی، بے وقری اور ذلت کی سب سے ذلیل صورت یہ ہے کہ آدمی کود اپنی نظر میں بے وقعت وبےتوقیر ہو جائے۔ سو وہ اس جہنم سے گزرے:


[align=right:b0adb542fb]جانا نہ تھا جہاں سو بار واں گیا
ضعفِ قویٰ سے دست بدیوار واں گیا
محتاج ہو کے ناں کا طلب گار واں گیا
چارہ نہ دیکھا مظطر ولاچار واں گیا[/align:b0adb542fb]
[align=left:b0adb542fb]اس جانِ ناتواں پہ کیا صبر اختیار[/align:b0adb542fb]
[align=right:b0adb542fb]در پر ہر اک دنّی کے سماجت مِری گئی
نا لائقوں سے ملتے لیاقت مِری گئی
کیا مفت ہائے شانِ شرافت مِری گئی
ایسا پھرایا اس نے کہ طاقت مِری گئی[/align:b0adb542fb]
[align=left:b0adb542fb]مشہور شہر اب ہوں سبک سار و بے وقار[/align:b0adb542fb]

بشارت بیان کرتے ہیں کہ“ باوا جب دست بد دیوار، والا مصرع پڑھتے تو ہَوا میں دائیں ہاتھ سے دیوار پکڑ پکڑ کر چلنے کی تصویر سی کھینچ دیتے۔ بایاں بے جان ہاتھ لٹکا الگ اپنی با تصویر کہانی سناتا۔ لیکن بے کسی اور بے بسی کی تصویر کھینچنے کے لیے انھیں کچھ زیادہ کاوش کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ وہ ساری عمر داغ کی گزلوں پر سر دھنا کیے۔ انھوں نے کبھی کسی طوائف کو فانی یا میر کی غزل گاتے نہیں سنا۔ دراصل ان دنوں محفلِ رقص و سرود میں کسی شعلہ رو، شعلہ گُلو سے فانی یا میر کی غزل گوانا ایسا ہی تھا جیسے شراب میں برابر کا نیبوکا رس نچوڑ کر پینا پلانا! گستاخی معاف۔ ایسی مردافگن پینے کے بعد تو آدمی صرف طبلہ بجانے کے قابل رہ جئے گا! تو صاحب، باوا ساری عمر فانی اور میر سے نفور رہے۔ اب جو پناہ ملی تو انھیں کے ابیات میں ملی۔ وہ قوی اور بہادر آدمی تھے۔ میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ کبھی ان کو روتے ہوئے دیکھوں گا۔ مگر دیکھا۔ ان آنکھوں سے اکثر۔“
کراچی میں ان کا آدھا وقت تو یارانِ رفتہ کی یاد میں گزرتا تھا۔ بقیہ آدھا یارانِ ازکارِ رفتہ ضائع کر دیتے تھے۔
 

رضوان

محفلین
الٰہ دین ہشتم
بزرگوار کے امراض نہ صرف متعدد تھے، بلکہ متعدّی بھی۔ ان میں سب سے موذی مرض بڑھاپا تھا۔ ان کا ایک داماد ولایت سے سرجری میں تازہ تازہ ایف آر سی ایس کر کے آیا تھا۔ اس نے اپنی سسرال میں کسی کا اپنڈکس سلامت نہ چھوڑا۔ کسی کی آنکھ میں بھی تکلیف ہوتی تو اس کا اپنڈکس نکال دیتا تھا۔ حیرت اس پر ہوتی کہ آنکھ کی تکلیف جاتی رہتی تھی۔ بزرگوار حالاں کہ تمام عمر دردِ شکم میں مبتلا رہے، لیکن اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر حلفیہ کہتےتھے کہ میں نے آج تک کسی ڈاکٹر کو اپنے اپنڈکس پر ہاتھ نہیں ڈالنے دیا۔ ایک مدت سے صاحبِ فراش تھے لیکن ان کی معذوری ابھی نامکمل تھی۔ مطلب یہ کہ سہارے سے چل پھر سکتے تھے۔ انھوں نے رسمِ افتتاح اس طرح ادا کی کہ اپنے کمرے کے دروازے میں جس سے نکلے انہیں کئی مہینے ہو گئے تھے، ایک سرخ ربن بندھوا کر اپنے ڈانواں ڈول ہاتھ سے قینچی سے کاٹی۔ تالی بجانے والے بچوں میں لڈو تقسیم کرنے کے بعد دو رکعت نمازِ شکرانہ ادا کی۔ پھر گھوڑے کو اپنے ہاتھ سے گیندے کا ہار پہنایا۔ اس کی پیشانی پر ایک بڑی سی بھونری تھی۔ زعفران میں انگلی ڈبو کر اس پر،اللہ ، لکھا اور کچھ پڑھ کر دَم کیا۔ چاروں سموں اور دونوں پہیوں پر شگون کے لیے سیندور لگا کر دعا دی کہ جیتے رہو سدا سرپٹ چلتے رہو۔ رحیم بخش کوچوان کا منھ کھلوا کر اس میں سالم لڈو فٹ کیا۔ خود ورقِ نقرہ میں لپٹی ہوئی گلوری کلے میں دبائی۔ پرانی کشمیری شال اوڑھ لپیٹ کر تانگے کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے اور اگلی سیٹ پر اپنا بیس سال پرانا ہارمونیم رکھوا کر اس کی مرمت کر انے ماسٹر باقر علی کی دکان روانہ ہوگئے۔
گھوڑے کا نام بدل کر بزرگوار نے بلبن رکھا۔ کوچوان سے کہا ہمیں تمہارا نام رحیم بخش بالکل پسند نہیں۔ ہم تمہیں الٰہ دین کہ کر پکاریں گے۔ جب سے انکا حافظہ خراب ہوا تھا وہ ہر نوکر کو الہ دین کہ کر بلاتے تھے یہ الہ دین ہشتم تھا۔ اس کا پیش رَو الہ دین ہفتم کثیر العیال تھا۔ حقہ کی تمباکو اور روٹیوں کی چوری میں نکالا گیا۔ گرم روٹیاں پیٹ پر باندھ کر لے جا رہا تھا۔ چال سے پکڑا گیا۔ بزرگوار موجودہ الہ دین یعنی رحیم بخش کو عام طور پر الہ دین ہی کہتے تھے۔ البتہ کوئی خاص کام مثلاً پیر دبوانے ہوں یا بے وقت چلم بھروانی ہو یا محض پیار اور شفقت جتانی ہو تو الہ دین میاں کہ کر پکارتے۔ لیکن گالی دینی ہو تو اصل نام لیکر گالی دیتے تھے۔
 

رضوان

محفلین
ہاف ماسٹ چابک
دوسرے دن سے تانگا صبح بچّوں کو اسکول لے جانے لگا۔ اس کے بعد بشارت کو دکان چھوڑنے جاتا۔ تین دن یہی معمول رہا۔ چوتھےدن کوچوان بچوں کو اسکول چھوڑ کر واپس آیا تو بیحد پریشان تھا۔گھوڑا پھاٹک سے باندھ کر سیدھا بشارت کے پاس آیا۔ ہاتھ میں چابک اس طرح اٹھائے ہوئے تھا جیسے زمانہ قدیم میں عَلم بردار جَنگی عَلم لیکر چلتا تھا۔ بلکہ یوں کہنا چاھیے، جس طرح نیویارک کے استیچو آف لبرٹی نے اپنے ہاتھ کو آخری سنٹی میٹر تک اونچا کر کے مشعلِ آذادی بلند کر رکھی ہے۔ آگے چل کر معلوم ہوا کوئی بجوگ پڑ جائے یا منحوس خبر سنانی ہو تو وہ اسی طرح چابک کا عَلم بلند کر کے آتا تھا۔ چابک کو عمودی حالت میں دیکھ کربشارت ایسے سراسیمہ ہوتے جیسے ہیملٹ ghoust دیکھ کر ہوتا تھا۔
Here it cometh, my lord​
بشارت کے قریب آ کر اس نے چابک کو ،، ہاف ماسٹ ،، کیا اور پندرہ روپے طلب کیے۔ کہنے لگا ،، اسکول کی گلی کے نکڑ پہ اچانچک چالان ہو گیا۔ گھوڑے کے بائیں پاؤں میں لنگ ہے! اسکول سے نکلا ہی تھا کہ ، بے رحمی والوں،× نے دھر لیا۔ بڑی منتوں سے پندرہ روپے دے کر گھوڑا چھڑایا ہے۔ ورنہ اس کے ساتھ سرکار بھی بے فضول کھچے کھچے پھرتے۔ میری آنکھوں کے سامنے ،بے رحمی والے، ایک گدھا گاڑی کے مالک و ہنکال کے تھانے لے گئے۔ اس کے گدھے کا لنگ تو اپنے گھوڑے کا پاسنگ بھی نہیں۔،، کوچوان نے گدھے کے خفیف سے لنگ کا ذکر اتنی حقارت سے کیا اور اپنے گھوڑے کے لنگ کی شدّت اور برتری بیان کرنے میں اتنے فخر اور غلو سے کام لیا کہ بشارت نے غصّے سے کانپتے ہوئے ہاتھ سے پندرہ روپے دے کر اسے خاموش کیا۔
----------------------------------------------------------------------------------------------
×کوچوان انجمنِ انسدادِ بے رحمی جانوراں (SPCA
کو اسی مختصر نام سے پکارتا اور کوستا تھا۔
 

رضوان

محفلین
شیر کی نیت اور بکری کی عقل میں فتور
اسی وقت ایک سلوتری کو بلا کر گھوڑے کو دکھایا۔ اس نے بائیں نلی ہاتھ سے سونتی تو گھوڑا چمکا۔ تشخیص ہوئی کہ پرانا لنگ ہے۔ سارا گھپلا اب کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگا۔ غالبًا کیا یقینًا، اسی وجہ سے گھوڑا ریس سے ڈِس کوالی فائی ہوا ہوگا۔ ایسے گھوڑے کو تو اسی وقت گولی ماردی جاتی ہے جو اس کے حق میں تانگے میں ذلیل و خوار ہونے سے بدرجہا بہتر ہوتی ہے۔ تاہم سلوتری نے امید دلائی کہ لنگ اس صورت میں دور ہو سکتا ہے کہ چھ مہینے تک حواصل کے تیل کی مالش کرائیں۔ مالش کی اجرت پانچ روپے یومیہ! یعنی ڈیڑھ سو روپے ماہوار۔ چھ مہینے کے نو سو روپے ہوئے۔ نو سو کا گھوڑا، نو سو کی مالش۔ گویا ٹاٹ کی گدڑی میں کمخواب کا پیوند! ابھی کچھ دن ہوئے انہوں نے اپنے والد کی مالش اور پیر دبانے کے لیے ایک شخص کو اسّی روپے ماہوار پر رکھا تھا۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ان کی کمائی کا نصف حصہ تو انکم ٹیکس والے دھروالیں گے اور ایک تہائی چمپی مالش والے کھا جائیں گے۔ حلال کی کمائی کے بارے انھوں نے کبھی نہیں سنا تھا کہ وہ اس تناسب سے غیر مستحقین میں تقسیم ہوتی ہے۔ چار بجے تانگا جتوا کر سیٹھ سے نمٹنے کے لیے روانہ ہو گئے۔ تانگے میں بیٹھنے سے پہلے انھوں نے گہرے رنگ کی دھوپ کی عینک لگا لی، تاکہ سخت بات کہنے میں حجاب محسوس نہ ہو اور چہرہ پر ایک پُراَسرار خونخواری کا ایکسپریشن آجائے۔ آدھا راستہ ہی طے کیا ہوگا کہ ایک شخص نے بم× پکڑ کر تانگا روک لیا۔ کہنے لگا ،آپ کا گھوڑا بری طرح لنگڑا رہا ہے۔ چالان ہوگا۔ بشارت ہک دک رہ گئے۔ معلوم ہوا ،،بے رحمی والے،، آج کل بہت سختی کر رہے ہیں۔ ہر موڑ پر ایک انسپکٹر گھات میں کھڑا ہے۔ قدم قدم پر بات بے بات چالان ہو رہا ہے۔ وہ کسی طرح نہ مانا تو بشارت نے قانونی موشگافی کی، آج صبح ہی اس کا چالان ہو چکا ہے۔ سات گھنٹے میں ایک ہی جرم میں دو چالان نہیں ہو سکتے۔ انسپکٹر نے یہ بات بھی فردِ جرم میں ٹانک لی اور کہا کہ اس سے تو جرم کی نوعیت اور سنگین ہو گئی ہے۔ کوئی جائے فرار نظر نہ آئی تو بشارت نے کہا ،، اچھا بابا! تمھی سچے سہی۔ دس روپے پہ معاملہ رفع دفع کرو۔ برانڈ نیو گھوڑاہے۔ خریدے ہوئے تیسرا دن ہے۔،، یہ سنتے ہی وہ شخص تو آگ بگولا ہو گیا۔ کہنے لگا۔ ،، بڑے صاب گاگلز کے باوجود آپ بھلے آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ مگر آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ پیسے سے لنگڑا گھوڑا تو خرید سکتے ہیں۔ آدمی نہیں خرید سکتے۔،، چالان ہو گیا۔
اسٹیل ری رولنگ مل پہنچے تو سیٹھ گھر جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ آج اس کے یہاں ایک بزرگ کی نیاز میں ڈیڑھ دو سو فقیروں کو پلاؤ کھلایا جا رہا تھا۔ اس کا عقیدہ تھا کہ اس سے مہینے بھر کی کمائی پاک ہو جاتی ہے۔ اور یہ laundering (شست و شو) کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ ایک بینک میں پندرہ بیس برس تک یہ دستور رہا کہ ہر برانچ میں روزانہ جتنے نئے اکاؤنٹ کھلتے شام کو اتنے ہی فقیر کھلائے جاتے۔ یہ معلوم نہ ہو سکا کہ یہ کھانا اکاؤنٹ کھلنے کی خوشی میں کھلایا جاتا تھا یا سودی کاروبار میں بڑھوتری کا کفارہ تھا۔ ہمیں ایک مرتبہ ملتان جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں اس دن بنک کے مالکان میں سے ایک بہت سینئر سیٹھ انسپکشن پر آئے ہوئے تھے۔ شام کو برانچ میں مساوات کا یہ ایمان افروز منظر دیکھ کر ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ سیٹھ صاحب پندرہ بیس فقیروں کیساتھ زمین پر اکڑوں بیٹھے پلاؤ کھا رہے ہیں اور فرداً فرداً ہر فقیر اور اس کے اہل و عیال کی عدم خیریت کی تفصیلات دریافت کر رہے ہیں۔ لیکن مرزا عبدلودود بیگ کو غبارے پنکچر کرنے کی بڑی بری عادت ہے۔ انھوں نے یہ کہ کر ہماری ساری خوشی کر کری کر دی کہ جب شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پینے لگیں تو سمجھ لو کہ شیر کی نیت اور بکری کی عقل میں فتور ہے۔ محمود و ایاز کا ایک ہی صف میں بیٹھ کر پلاؤ کھانا بھی ،، آڈٹ اینڈ انسپکشن ،، کا حصہ ہے۔ سیٹھ صاحب دراصل یہ تحقیق کرنا چاہتے ہیں کہ کھانے والے اصلی فقیر ہیں یا منیجر نے اپنے یاروں، رشتے داروں کی پنگت×× بٹھادی ہے۔
ہم کہاں سے کہاں آگئے۔ ذکر اسٹیل مل والے سیٹھ کا تھا جو سات آٹھ سال سے کالے دھن کو ماہ بماہ نیاز فاتحہ کے لوبان کی دھونی سے پاک اور ،، وہائٹ،، کرتا رہتا تھا۔ نئی جادوئ چھڑی××× ایجاد ہونے میں ابھی کافی دیر تھی کہ ہمارے ذہین اور طبّاع وزیرِ کالی خزانہ اور ماہرینِ اقتصادیات تو اس زمانے میں میٹرک کے امتحان کی تیاری میں لگے ہوں گے۔ لٰہزا سیاہ کو سفید کرنے کا شعبدہ ہنوز پیر فقیر، نوسرباز، سفلی عمال اور باورچی خانے پر سفیدی کرنے والے انجام دیتے تھے۔
------------------------------------------
×بم: گاڑی کے آگے لگانے والی لکڑی جس میں گھوڑا جوتتے ہیں
++پنگت: فرشی دعوت میں مہمانوں کی قطار۔
+++1985ع میں سترہ ارب روپے کو حکومت نے بیک لغزشِ قلم بلیک سے وہائٹ کر دیا۔ اس امید میں کہ اب لوگ بلیک کرنا چھوڑ دیں گے، جب کہ کالا دھن اس اساطیری ہزار سر والے اژدھے کی طرح ہے جس کا ایک سر کاٹیں تو اس کی جگہ سو نئے سَر نکل آتے ہیں۔
 

رضوان

محفلین
مہاتما بدھ بہاری تھے!
سیٹھ نے گھوڑے کے لنگ سے قطعی لا علمی کا اظہار کیا۔الٹا سر ہو گیا کہ ،، تم گھوڑے کو دیکھنے ہاف ڈزن ٹائم تو آئے ہو گے۔ گھوڑا تلک تم کو پچھاننے لگا تھا۔دس دفعہ گھوڑے کے دانت گنے۔ کیا؟ تم ایک دفعہ اس کے لیے نان خطائی بھی لائے تم نے ہم کو یہاں تلک بولا کہ گھوڑا نو ہاتھ لمبا ہے۔اس سمے تمہیں یہ نو گزا دکھلائی پڑتا تھا۔ آج چار پانچ دن بعد گھوڑے کے گاگلز خود پہن کے بہتان طوفان لگانے آئے ہو۔ کیا؟تین دن میں تو قبر میں مردے کا بھی حساب کتاب بروبر خلاص ہو جاتا ہے۔ اس ٹیم تم کو مال میں یہ ڈیفکٹ دکھلائی نئیں پڑا۔ تانگے میں جوت کر غریب خانے لے گئے تب بھی نجر نئیں آیا،،۔ بشارت سیٹھ کے سامنے اپنے گھر کو اتنی دفعہ غریب خانہ کہہ چکے تھے کہ وہ یہ سمجھا کہ یہ انکے گھر کا نام ہے۔
بشارت نے کچھ کہنا چاہا تو قطع کلام کرتے ہئے بولا ،،ارے بابا! گھوڑے کا کوئی پارٹ کوئی پُرزہ ایسا نہیں جس پہ تم نے دس دس دفعہ ہاتھ نئیں پھیرا ہو۔ کیا؟ تم بزنس مین ہو کے ایسا کچی بات منہ سے نکالیں گا تو ہم کدھر کو جائیں گا؟ بولو نی! ہلکٹ مانس (گھٹیا آدمی) کے موافق بات نئیں کرو۔ کیا؟،، سیٹھ بری الذمہ ہوگیا۔
بشارت نے زچ ہوکر کہا ،، حد تو یہ کہ سودا کرنے سے پہلے یہ بھی نہ بتایا کہ گھوڑا جنازہ الٹ چکا ہے۔ آپ خود کو مسلمان اور پاکستانی کہتے ہیں!،،
(سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے) ،، تو کیا تم کو بدھسٹ دکھلائی پڑتا ہوں؟ ہم نے جوناگڑھ کاٹھیاواڑ سے مائی گریٹ کیا ہے۔ کیا؟ اپنے پاس بروبر سندھ کا ڈومیسائل ہے۔ مہاتما بدھ تو بہاری تھا! (اپنے منہ میں پان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) میرے منھ میں رزق ہے۔ تم بھی بچوں کی قسم کھا کر بولو۔ جب تم نے پوچھا گھوڑا کائے کو بیچ رہے ہو، ہم نے بھی پھی الپھور (فی الفور) بول دیا۔ سودا پکا کرنے سے پہلے پوچھتے تو ہم پہلے بول دیتے۔ تم لکڑی بیچتے ہو۔ تو کیا گراہک کو لکڑی کی ہر گانٹھ، ہر داغ پر انگلی رکھ رکھ کے بتاتے ہو کہ پہلے اسے دیکھو؟ ہم سالا اپنا بنج بیوپار کرے کہ تمھارے کو گھوڑے کی بیا گراپھی (بایو گرافی) بتائے۔ فادر میرے کو ہمیش بولتا تھا کہ گراہک 420 ہو تو پہلے دیکھو بھالو۔ پھر سودے کے ٹیم بولو کم تولو زیادہ۔ پر تمھارے اوپر تو کھولو، ابھی کھولو! کی دھن سوار تھی۔تمھارے منھ میں پیسے بج رہے تھے۔ گجراتی میں کہاوت ہے کہ پیسا تو شیرنی کا دودھ ہے! اسے حاصل کرنا اور ہجم کرنا دونوں بروبر مسکل ہیں۔ پر تم تو سالا شیر کو ہی دوہنا مانگتا ہے۔ ہم کروڑوں کا بزنس کریلا ہے۔ آج تلک زبان دے کر نئیں پھریلا۔ اچھا! تم قرآن اٹھا کے بول دو کہ تم گھوڑا خریدتے ٹیم پئے لا (پئے ہوئے) تھا تو ہم فوراً ایک ایک پائی ریپھنڈ (رفنڈ) کر دیں گا۔،،
بشارت نے گڑگڑاتے ہوئے درخواست کی ،، سیٹھ، سو ڈیڑھ سو کم میں گھوڑا واپس لے لو۔ میں عیال دار آدمی ہوں۔ تا عمر احسان مند رہوں گا۔،،
سیٹھ آپے سے باہر ہوگیا۔ ،، ارے بابا خچر کےموافق ہم سے اڑی نئیں کرو۔ ہم سے ایک دم کڑک اردو میں ڈائیلاگ مت بولو۔ تم پھلم کے ولین کے موافق گاگلز لگا کے ادھر کائے کو تڑی دیتا پڑا ہے۔ بھائی صاحب! تم پرھیلا مانس ہو۔ کوئی پھَڈے باز موالی، ملباری نئیں جو شریپھوں سے دادا گیری کرے، تم نے سائن بورڈ نئیں پڑھا۔ بابا! یہ ری رولنگ مل ہے۔ اشٹیل ری رولنگ مل۔ ادھر گھوڑوں کا دھندا نئیں ہوتا۔ کیا؟ کل کو تم بولیں گا کہ تانگہ بھی واپس لے لو۔ ہم سالا اکھا (تمام) عمر ادھر بیٹھا گھوڑے تانگے کا دھندا کریں گا تو ہمارا فیملی پریوار کیا گھر میں بیٹھا قوالی کریں گا؟ بھائی صاحب! اپن کا گھر تو گھر ہستیوں کا گھر ہے۔ کسی بجرگ کا مزار نئیں کہ بائی لوگ گج گج بھر لمبے بال کھول کے دھمال ڈال دیں۔ دَھمادَھم مست کلندر!،،
بشارت نے تانگا اسٹیل ری رولنگ مل کے باہر کھڑا کر دیا۔ اور خود ایک تھڑے پر پیر لٹکائے انتظار کرنے لگے کہ اندھیرا ذرا گہرا ہو جائے تو واپس جائیں تاکہ نو گھنٹے میں تیسری مرتبہ چالان نہ ہو۔ غصے سے ابھی تک ان کے کان کی لَویں تپ رہی تھیں اور حلق میں کیکٹس اگ رہے تھے۔ بلبن گولڈ مہر کے پیڑ سے بندھا سر جھکائے کھڑا تھا۔ انھوں نے پان کی دکان سے ایک لیمونڈ کی گولی والی بوتل خریدی۔ اور ایک ہی گھونت میں انھیں اندازہ ہو گیا کہ ان کے انتظار میں یہ بوتل کئی مہینوں سے دھوپ میں تپ رہی تھی۔ پھر یک لخت یاد آیا کہ اس افراتفری میں آج دوپہر بلبن کو چارہ اور پانی بھی نہیں ملا۔ انھوں نے بوتل ریت پر انڈیل دی اور گاگلز بھی اتار دیے۔
 

رضوان

محفلین
،، باوجود دھر لیا،،
تانگا لشتم پشتم چلتارہا۔ رحیم بخش اس کے بعد تین چار دفعہ اور دھر لیا گیا۔ لیکن بات سات آٹھ روپے پر ٹل گئی۔ دس پندرہ دن کا بھلاوہ دے کر ایک دن پھر چابک بلند کیے آیا۔ کہنے لگا ،، سرکار! باوجود دھر لیا۔ ہر چند کہ آج میرے پاس نانواں (روپیہ ) نہیں تھا، مگر بہت منھ پھاڑ ریا ہے۔ پچیس مانگتا ہے۔ چنانچہ تانگا اس کے پاس گروی رکھ کے آریا ہوں۔ اگرچہ بچے تانگے میں بمعہ گھوڑے کے ہیں۔ آپ ہر دفعہ سمجھتے ہیں کہ رحیم بخش ڈریامہ کھیل ریا ہے۔ چنانچہ خود چل کے چھڑا لیجیے۔ اگرچہ زحمت۔۔۔۔۔،، بشارت اس وقت اکڑوں بیٹھے ایک دغیلے تختے کی گرہ کا معائنہ کر رہے تھے۔ یک لخت بھڑک کے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور تو کسی پر بس چلا نہیں، بری خبر لانے والے کے ہاتھ سے چابک چھین کر اسے تڑ سے زمین پر مارتے ہوئے کہنے لگے ،، ہر چند کے بچے! اگر تونے آئندہ میرے سامنے باوجود، اگرچہ اور چنانچہ کیا تو اسی چابک سے چمڑی ادھیڑ دون گا۔،،
دورانِ سرزنش رحیم بخش نے یکایک اپنا بایاں کان ہلایا تو بشارت کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ غصے کو لاحول اور ایک گلاس پانی سے بجھا کر، چابک ہاتھ میں لیے وہ رحیم بخش کے ساتھ ہو لیے کہ آج جھوٹے کو گھر تک پہنچا کر دم لیں گے۔ جائے واردات پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک ،، بے رحمی والا،، سچ مچ گھوڑے کی راس تھامے کھڑاہے۔بچے گلے میں تھرمس اور بستے لٹکائے، دھوپ میں سہمے کھڑے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر ان کے خون کی کھولن یکبارگی نقطہ انجماد پر اتر آئی۔ گلے میں اون کا گولا سا اٹکا ہوا محسوس ہونے لگا۔ وہ چابک کا سہارا لیکر کھڑے ہو گئے۔،،بے رحمی والے ،، کو علیحدہ لےجا کرانھون نے رحم کی اپیل کی اور اپنے مخصوص دکاندارانہ انداز میں اس پہلو پر بھی توجہ دلائی کہ ہم تو آپ کے مستقل ، کلائنٹ، ہیں۔ اٹھاؤ چولھا پاوندے نہیں کہ آج ہیں، کل نہیں۔ اس نے بیس روپے کا ڈسکاؤنٹ دے کر صرف پانچ روپے میں معاملہ رفع دفع کر دیا۔
اسی اثنا میں ،، بے رحمی کا ہفتہ،، جو اکیس دن تک منایا گیا، شروع ہوگیا۔ جب تک وہ بلا خیروخوبی ختم نہ ہوگیا، گھوڑا، سلوتری اور رحیم بخش تینوں بالترتیب بندھے، کھڑے اور چھٹے کھاتے رہے۔ رحیم بخش کو گھوڑے کے ساتھ بریکٹ کرنا یوں بھی ضروری ہو کہ اس کی خوراک گھوڑے سے کسی طرح کم نہ تھی۔
گھوڑے کو تو خیر تیسرے چوتھے بد ہضمی ہوتی رہتی تھی۔ لیکن رحیم بخش کا نضام ہضم نہ صرف ہر قسم کے بیکٹیریا سے بلکہ مقدار سے بھی immune ہو گیا تھا۔ نئے pet، نئی نویلی دلہن اور لاڈلے بچے کے ساتھ شفقت کا اظہار کرنے کا ہمارے ہاں لے دے کے ایک ہی طریقہ ہے۔ وہ یہ کہ ہر شخص انھیں کچھ نہ کچھ کھلا کر اوور فیڈ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ گھوڑے کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ نتیجتاً اسے بار بار رچمنڈ کرافورڈ ہاسپٹل (جانوروں کا اسپتال) بھیجنا پڑتا۔ بشارت کا بیان ہے کہ ایک دن شام کو انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ رحیم بخش گھوڑے کے جلاب کا سارا پاؤڈر پھنکے مار کر کھا گیا۔
،،ہفتہ،، ختم ہوتے ہی بچّوں کو پھر تانگے پر بھیجنا شروع کردیا۔ ان کی اپنی دکان زیادہ دور نہیں تھی، لٰہزا پیدل ہی چلے جاتے تھے۔ تین ہفتے خیریت سے گزرے۔ مطلب یہ کہ گھوڑے کا لنگ بڑھ گیا، مگر چالانوں کا سلسلہ بند ہو گیا۔ چوتھا ہفتہ شروع ہی ہوا تھا کہ رحیم بخش چابک کا عَلم اُٹھائے، آہ و بُکاکرتا، بائیں ٹانگ سے لنگڑاتا آیا۔ گھوڑے کے دیکھا دیکھی اب وہ بھی بائیں ٹانگ سے لنگڑانے لگا تھا۔ کہنے لگا ،،سرکار! آج پھر دھرلیا! آگاہ کیے بغیر نا گاہ دھر لیا! چناں چہ بیس روپے بھر کے آرہا ہوں۔ اگرچہ میں نے بہتیرے ٹھڈی میں ہاتھ دیے۔،، بشارت نے بادل نخواستہ بیس روپے اس کے منہ پر مارے۔ اب جو تابڑ توڑ چالان ہونے شروع ہوئے تو چوٹ سھلانے تک کی مہلت نہیں ملی۔ انھوں نے رحیم بخش کو سختی سے ہدایت کی کہ چھپ چھپا کر راستے بدل بدل کر، گلیوں گلیوں جایا کرے۔ اس وضع احتیاط میں اس نے اپنی طرف سے یہ اضافہ اور کر لیا کہ خود بھی چھپ کر یعنی سر سے پیر تک ایک لال کھیس اوڑھ کے تانگا چلانے لگا۔ گھونگھٹ میں سے صرف اسکا سگریٹ باہر نکلا رہتا تھا۔ لیکن اس سے واقعی بڑا فرق پڑا۔ وہ اس طرح کہ انسپکٹر اب گھوڑے کو پہچانے بغیر ہی، دور سے صرف لال کھیس دیکھ کر چالان کر دیتا تھا۔
 

رضوان

محفلین
بزرگوار کی حکمتِ عملیات

بزرگوار کی حکمتِ عملیات

رشوت اور مالش کی مجموعی رقم اب گھوڑے کی قیمت اور ان کی قوتِ برداشت سے تجاوز کر چکی تھی۔ پکڑ دھکڑ کا سلسہ کسی طرح ختم ہونے میں نہیں آتا تھا۔ عاجز آ کر انھوں نے رحیم بخش کی زبانی انسپکٹر کو یہ تک کہلایا کہ تم میری دکان پر اُگاہی کے کام پر ملازم ہو جاؤ۔ موجودہ تنخواہ سے زیادہ دوں گا۔ اس نے کہلا بھیجا ،، سیٹھ کو سلام بولنا اور کہنا کہ ہم تین ہیں۔،،
انھوں نے گھوڑا تانگا بیچنا چاہا تو کسی نے سو روپے بھی نہ لگائے۔ بالآخر اس پریشانی کا ذکر اپنے والدِ بزرگوار سے کیا۔ انھوں نے سارا احوال سن کر فرمایا ،، اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ ہم دعا کریں گے۔ تانگے میں جوتنے سے پہلے ایک گلاس دَم کیا ہوا دودھ پلا دیا کرو۔ اللہ نے چاہا تو لنگ جاتا رہے گا اور چالانوں کا سلسلہ بھی بند ہو جائے گا۔ ایک دفعہ وظیفے کا اثر تو دیکھو۔،،
بزرگوار نے اسی وقت رحیم بخش سے بستر پر ہارمونیم منگوایا۔ وہ دھونکنی سے ہوا بھرتا رہا اور بزرگوار کانپتی، کپکپاتی آواز میں حمد گانے لگے۔
ترے ہاتھ میں فنا بقا،تری شان جل جلالہ،
تری شان جل جلا لہ​
آنکھ جہاں پڑتی وہاں انگلی نہیں پڑ رہی تھی۔ اور جس پردے پر انگلی پڑتی، اس پر پڑی ہی رہ جاتی۔ ایک مصرع گانے اور بجانے کے بعد یہ کہہ کر لیٹ گئے کہ اس ہارمونیم کے کالے پردوں کے جوڑ جکڑ گئے ہیں۔ ماسٹر باقر علی نے خاک مرمّت کی ہے۔
دوسرے دن بزرگوار کی چارپائی ڈرائنگ روم میں آگئی۔ اس لیے کہ یہی ایک ایسا کمرہ تھا جہاں گھوڑا علی الصبح اپنے ماتھے پر اللہ لکھوانے اور دَم کروانے کے لیے اندر لایا جاسکتا تھا۔ صبح تڑکے بزرگوار نے دو نفلوں کے بعد عرقِگلاب میں انگلی ڈبو کر گھوڑے کی پیشانی پر اللہ لکھا اور سُموں کو لوبان کی دھونی دی۔ کچھ دیر بعد اس پر ساز کسا جانے لگا تو بشارت دوڑے دوڑے بزرگوار کے پاس آئے اور کہنے لگے گھوڑا دَم کا دودھ نہیں پی رہا۔ بزرگوار متوجہ ہوئے۔ پھر آنکھیں بند کر کے سوچ میں پڑ گئے۔ چند لمحوں بعد انھیں نیم وا کر کے فرمایا، کوئی مضائقہ نہیں۔ کوچوان کو پلا دو۔ گھوڑا وجع الاسنان× میں مبتلا ہے۔ اس کے بعد یہ معمول بن گیا کہ دَم کا دودھ رحیم بخش نوشِ جان کرنے لگا۔ بظاہر ایسی کراہت سے پیتا جیسے اس زمانے میں یونانی دواؤں کے قدحے پیے جاتے تھے۔ یعنی ناک پکڑ کے منہ بنا بنا کے۔ اللہ شافعی! اللہ شافعی!(نعوذبا اللہ) کہتا جاتا۔ دودھ کے لیے نہ جانے کہاں سے دھات کا بہت لمبا گلاس لے آیا جو اس کی ناف تک پہنچتا تھا۔ بزرگوار کی عملیاتی تدابیر کا اثر پہلے دن ظاہر ہوگیا۔ وہ اس طرح کہ اس دن چالان ایک داڑھی والے نے کیا! رحیم بخش اپنا لہراتا ہوا چابک ہاف ماسٹ کر کے کہنے لگا ،، سرکار! باوجود دھر لیا،، پھر اس نے قدرے تفصیل سے بتایا کہ ایک داڑھی والا آج ہی جمشید روڈ کے حلقے سے تبدیل ہو کے آیا ہے۔ بڑا ہی رحم دل اور اللہ والا آدمی ہے۔ چناں چہ صرف ساڑھے تین روپے لیے۔ وہ بھی بطور چندا۔ پڑوس میں ایک بیوہ کے بچے کے علاج کے لیے۔ آپ چاہیں تو چل کر ملاقات کر لیں مل کر بہت خوش ہوں گے۔ ہر وقت منھ ہی منھ میں وظیفہ پڑھتا رہتا ہے۔ اندھیری رات میں سجدے کے گٹے سے ایسی روشنی نکلتی ہے کہ سوئی پرولو۔ (اپنے بازو سے تعویز کھولتے ہوئے) گھوڑے کے لیے یہ تعویز دیا ہے۔
کہاں پچیس روپے، کہاں ساڑھے تین روپے! بزرگوار نے رشوت میں کمی کو اپنے وظیفے اور کشف وکرمات پر محمول کیا۔ اور فرمایا کہ تم دیکھتے جاؤ۔ انشاءاللہ چالیسویں دن ،،بے رحمی،، کے انسپکٹر کو گھوڑے کی ٹانگ نظر آنی بند ہو جائیگی۔ بزرگوار کی چارپائی کے گرد اُن کا سازو سامان بھی ڈرائنگ روم میں قرینے سے سجا دیا گیا۔ دوائیں، بیڈ پین، حقہ، سلفچی، ہارمونیم، آگا حشر کے ڈرامے، مولانا آذاد کے ،،الہلال،، کے مجلد فائل، انیما کے آلات اور کجن ایکٹرس کی تصویر۔ ڈرائنگ روم اب اس قابل نہیں رہا تھا کہ اس میں گھوڑے اور بزرگوار اور ہر دو کا فضلہ اٹھانے والی مہترانی کے علاوہ کوئی اور پانچ منٹ بھی ٹھیر سکے۔ بشارت کے دوستوں نے آنا چھوڑ دیا۔ لیکن وہ گھوڑے کی خاطر بزرگوار کو برداشت کر رہے تھے۔
---------------------------------------------------------------------
× وجع الاسنان: دانتوں کے درد کو کہتے ہیں۔ جس شخص کے دانتوں میں درد ہو وہ اس کا تلفظ بھی نہیں کر سکتا۔
 

رضوان

محفلین
ایک گھوڑا بھرے گا کتنے پیٹ؟
جس دن سے داڑھی والے مولانا تعینات ہوئے، رحیم بخش ھر چوتھے پانچویں دن آ کے سر پر کھڑا ہو جاتا۔ ،،چندہ دیجیے۔،، لیکن ڈھائی تین روپے زیادہ سے زیادہ پانچ روپے میں آئی بلا ٹل جاتی۔ اس سے جرح کی تو معلوم ہوا کہ کراچی میں تانگے اب صرف اسی علاقے میں چلتے ہیں ۔ تانگے والوں کا حال گھوڑوں سے بھی خستہ ہے۔ انھوں نے پولیس اور ،، بے رحمی والوں،، کا برائے نام ماہانہ باندھ رکھا ہے جو اُن کی گزر بسر کے لیے بالکل نا کافی ہے۔ ادھر ننگے بھوکے گدھا گاڑی والے مکرانی سر پھاڑنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ زخمی گدھا، پسینے میں شرابور گدھا گاڑی والا اور پھٹے حالوں ،، بے رحمی،، کا انسپکٹر------ یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ ان میں کون زیادہ خستہ اور مظلوم ہے۔ یہ تو ایسا ہی تھا کہ جیسے ایک سُوکھی بھُوکی جونک دوسری سُوکھی بھُوکی جونک کا خون پینا چاہے۔ نتیجہ یہ کہ ،، بے رحمی والے ،، پو پھٹے ہی اکلوتی موٹی اسامی یعنی ان کے تانگے کے انتظار میں گلی کی نکڑ پر کھڑے ہو جاتے اور اپنے پیسے کھرے کر کے چل دیتے۔ اکیلا گھوڑا سارے عملے کے بال بچّوں کے پیٹ پال رہا تھا۔ لیکن کرامت حسین (داڑھی والے مولانا کا یہی نام تھا) کا معاملہ قدرے مختلف تھا۔ وہ اپنے حلیے اور پھٹے حالوں سے اتنے مسکین لگتے تھے کہ محسوس ہوتا تھا گویا انھیں رشوت دینا کارِثواب ہے۔ اور وہ رشوت لیکر درحقیقت رشوت دینے والے کو داخلِ حسنات کر رہے ہیں۔ وہ رشوت مانگتے بھی خیرات ہی کی طرح تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انکا سارا رزق اس گھوڑے کی لنگڑی ٹانگ کے توسَل سے نازل ہوتا ہے۔ ایسے پھٹیچر رشوت لینے والے کے لیے ان کے دل میں نہ کوئی ہمدردی تھی نہ خوف۔
 

رضوان

محفلین
کتّوں کے چال چلن کی چوکیداری
احباب نے مشورہ دیا کہ گھوڑے کو رچمنڈ کرافورڈ ہاسپٹل میں انجکشن سے ٹھکانے لگوادو۔ لیکن ان کا دل نہیں مانتا تھا۔ بزرگوار تو سنتے ہی روہانسے ہو گئے۔ کہنے لگے اج لنگڑے گھوڑے کی باری ھے، کل اپاہج باپ کی ہو گی۔ شریف گھرانوں میں آئی ہوئی دلہن اور جانور تو مر کر ہی نکلتے ہیں۔ وہ خود تیں دلہنوں کے جنازے نکال چکے تھے، اس لیے گھوڑے کے بارے میں بھی ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔ رحیم بخش بھی گھوڑے کو ہلاک کرانے کے سخت خلاف تھا۔ جیسے ہی ذکر آتا، اپنے تیس سالہ تجربات بیان کرنے بیٹھ جاتا۔ یہ تو ہم نے بھی سنا تھا تاریخ درحقیقت بڑے لوگوں کی بایوگرافی ہے۔ لیکن رحیم بخش کوچوان کی ساری آٹو بایوگرافی دراصل گھوڑوں کی بایوگرافی تھی۔ اس کی زندگی سے ایک گھوڑا نکل نہیں پاتا تھا کہ دوسرا داخل ہوجاتا۔ کہتا تھا اس کے تین سابق آقاؤں نے ،،ویٹ،، سے گھوڑوں کو زہر کے انجکشن لگوائے تھے۔ پہلا آقا تین دن کے اندر چٹ پٹ ہوگیا۔ دوسرے کا چہرہ لقوے سے ایسا ٹیڑھا ہوا کہ دائیں باچھ کان کی لو سے جا ملی۔ ایک دن غلطی سے آئینے میں خود پر نظر پڑ گئی تو گھگھّی بندھ گئی۔ تیسرے کی بیوی جاکی کے ساتھ بھاگ گئی۔ دیدہ عبرت نگاہ سے دیکھا جائے تو ان تینوں میں جو فوراً مرگیا، اسی کا انجام نسبتاً باعّزت معلوم ہوتا ہے۔
اسی زمانے میں ایک سائیس خبر لایا کہ لاڑکانہ میں ایک گھوڑی تیلیا کمیت بالکل مفت یعنی تین سو روپے میں مل رہی ہے۔ بس وڈیرے کے دل سے اُتر گئی ہے۔ گنے کی فصل کی آمدنی سے اس نے گنے ہی سے لمبائی ناپ کر ایک امریکی کار خرید لی ہے۔ آپ کی صورت پسند آ جائے تو ممکن ہے مفت ہی دے دے۔ اس کی مخالفت پہلے ہم نے اور بعد میں بزرگوار نے کی۔ ہمیں ان دنوں کتے پالنے کا نیا نیا شوق ہوا تھا۔ ہر بات انھی کے حوالے سے کرتے تھے۔ کتے کے لیے من حیث الجنس ہمارے دل میں دفعتاً اتنا احترام پیدا ہو گیا تھا کہ کتیا کو مادہ کتا کہنے لگے تھے۔ ہم نے بشارت کو سمجھایا کہ خدارا! مادہ گھوڑا نہ خریدو۔ عامل کالونی میں دستگیر صاحب نے ایک مادہ کتا پال لیا ہے۔ کسی خیر خواہ نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ جس گھر میں کتّے ہوں، وہاں فرشتے، بزرگ اور چور نہیں آتے۔ اس ظالم نے یہ نہ بتایا کہ پھر صرف کتے آتے ہیں۔ اب سارے شہر کے بالغ کتے ان کی کوٹھی کامحاصرہ کیے پڑے رہتے ہیں۔ عفیفہ خود غنیم سے ملی ہوئی ہے۔ ایسی تن داتا نہیں دیکھی۔ جو بوائے اسکاؤٹ کا ماٹو ہے وہی اس کا:،Be prepared،۔ مطلب یہ کہ ہر حملہ آور سے تعاون کے لیے ہمہ تن تیار رہتی ہے۔ پھاٹک کھولنا ناممکن ہو گیا ہے۔ خواتین نے گھر سے نکلنا چھوڑ دیا۔ مرد اسٹول رکھ کر پھاٹک اور کتے پھلانگتے ہیں۔ دستگیر صاحب ان کتوں کو دونوں وقت باقاعدگی سے راتب ڈلواتے ہیں تاکہ آنے جانے والوں کی پنڈلیوں کے بوٹوں سے اپنا پیٹ نہ بھریں۔ ایک دفعہ راتب میں زہر ڈلوا کر بھی دیکھ لیا۔ گلی میں کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ اپنے خرچ پر ان کی تد فین کروائی۔ ایک صاحب کا پالتو کتا جو صحبت بد میں پڑ گیا تھا، اس رات گھر والوں کی نظر بچا کر تماش بینی کرنے آیا۔ وہ بھی وہیں کھیت رہا۔ ان جید کتّوں کے مرنے سے جو خلا پیدا ہوا وہ اسی طرح پر ہوا، جس طرح ادب اور سیاست میں پُر ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ نئی نسل کے نوجوانوں نے آگے بڑھ کر اس تیزی سے پُر کی کہ خلا با لکل نا کافی ثابت ہوا۔ ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ خود کو indispensable یعنی بے مثل و بے بدل سمجھنے والوں کے مرنے سے جو خلا پیدا ہوتا ہے وہ در حقیقت صرف دو گز زمین میں ہوتا ہے جو انھیں کے جسدِ خاکی سے اسی وقت پُر ہو جاتا ہے۔ خیر یہ علیحدہ قصّہ ہے۔ کہنا یہ تھا کہ اب دستگیر صاحب سخت پریشان ہیں۔ ،، پیڈگ ری،، (خاندانی) مادہ نیچ ذات کے کتوں سے شجرہ بگڑنے کا خدشہ ہے۔ میں نے تو دستگیر صاحب سے کہا تھا کہ ان کی توجہاتdivert کرنے کے لیے کوئی معمولی ذات کی کتیا رکھ لیجیے تا کہ کم از کم یہ دھڑکا تو نہ رہے۔ راتوں کی نیند تو حرام نہ ہو۔ تاریخ میں آپ پہلے آدمی ہیں جس نے کتّوں کے چال چلن کی چوکیداری کا بیڑا اٹھایا ہے۔
 

رضوان

محفلین
مونسِ تنہائی
اس قصّے سے ہم نے انہیں عبرت دلائی۔ بزرگوار نے دوسرے پینترے سے گھوڑی خریدنے کی مخالفت کی۔ وہ اس پر بہت برافروختہ ہوئے کہ بشارت کو ان کے کراماتی وظیفے پر یقین نہیں۔ وہ خاصے گلیر تھے۔ بیٹے کو کھل کر گالی تو نہیں دی۔ بس اتنا کہا کہ اگر تمہیں اپنی نسل چلانے کے لیے پیڈگ ری گھوڑی ہی رکھنی ہے تو شوق سے رکھو۔ مگر میں ایسے گھر میں منٹ نہیں رہ سکتا۔ انھوں نے یہ دھمکی بھی دی کہ جہاں بلبن گھوڑا جائے گا وہ بھی جائیں گے۔ قصہ دراصل یہ تھا کہ بزرگوار اور گھوڑا ایک دوسرے سے اس درجہ مانوس ہو چکے تھے کہ اگر گھر والے مانع نہ ہوتے تو وہ اسے ڈرائنگ روم میں اپنی چارپائی کے پائے سے بندھوا کر سوتے۔ وہ بھی ان کے قریب آکر خود بخود سر نیچے کر لیتا تاکہ وہ اسے بیٹھے بیٹھے پیار کر سکیں۔ وہ گھنٹوں منھ سے منھ بھڑائے اس سے گھر والوں اور بہوؤں کی شکائتیں اور برائیاں کرتے رہتے۔ بچوں کے لیے وہ زندہ کھلونا تھا۔ بزرگوار کہتے تھے جب سے یہ آیا ہے میرے ہاتھ کا رعشہ کم ہو گیا ہے اور بُرے خواب آنے بند ہوگئے۔ وہ اب اسے بیٹا کہنے لگے تھے۔ سدا روگی سے اپنے پرائے سب اکتا جاتے ہیں۔ ایک دن وہ چار پانچ گھنٹے درد سے کراہتے رہے۔ کسی نے خبر نہ لی۔ شام کو اختلاج اور مایوسی زیادہ بڑھی تو خانساماں سے کہا کہ بلبن بیٹے کو بلاؤ۔ بڑھاپے اور بیماری کے بھیانک سناٹے میں یہ دکھی گھوڑا ان کا واحد ساتھی تھا۔
 

رضوان

محفلین
اک لقمہ تر کی صورت
گھوڑے کو جوت نہیں سکتے۔ بیچ نہیں سکتے۔ ہلاک نہیں کرواسکتے۔ کھڑے کھلا نہیں سکتے۔ پھر کیں تو کیا کریں۔ جب بلیک موڈ آتا تو اندر ہی اندر کھولتے اور اکثر سوچتے کہ سیٹھ، سرمایہ دار، وڈیرے، جاگیردار اور بڑے افسران اور کرپشن کے لیے زمانے بھر میں بدنام ہیں۔ مگر ،،بے رحمی والے،، دو ٹکے کے آدمی کس سے کم ہیں۔ انھیں اس سے پہلے ایسے رجعتی اور غیر انقلابی خیال کبھی نہیں آئے تھے۔ ان کی سوچ میں ایک مردم گزیدہ کی کلبیت اور جھنجھلاہٹ در آئی۔ یہ لگ تو غریب ہیں۔ مظلوم ہیں۔ مگر یہ کس کو بخشتے ہیں؟ سنتری بادشاہ بھی تو غریب ہے۔ وہ ریڑھی والے کو کب بخشتا ہے؟ اور غریب ریڑھی والے نے کل شام آنکھ بچا کر ایک سیر سیبوں میں دو داغ دار سیب ملا کر تول دیے۔ اس کی ترازو صرف ایک چھٹانک کم تولتی ہے۔ صرف ایک چھٹانک اس لیے کہ ایک من کم تولنے کی گنجائش نہیں۔ اسکول ماسٹر لائقِ صد رحم و احترام ہے۔ ماسٹر نجم الدین برسوں سے چیتھڑے لٹکائے ظالم سماج کو کوستے پھرتے ہیں۔ انھیں ساڑھے چار سو روپے کھلائے جب جا کے بھانجے کے میٹرک کے نمبر بڑھے۔ اور رحیم بخش کوچوان سے زیادہ مسکین کون ہوگا؟ ظلم، ظالم اور مظلوم دونوں کو خراب کرتا ہے۔ ظلم کا پہیہ جب اپنا چکر پورا کر لیتا ہے اور مظلوم کی باری آتی ہے تو وہ بھی وہی کچھ کرتا ہے جو اس کے ساتھ کیا گیا تھا۔ اژدھا سالم نگلتا ہے۔ شارک دانتوں سے خونم خوں کر کے کھاتی ہے۔ شیر ڈاکٹروں کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق اچھی طرح چبا چبا کے کھاتا ہے۔ بلی، چھپکلی، مکڑی اور مچھر سب حسبِ مقدور و مقدار خون کی چسکی لگاتے ہیں۔ بھائی میرے! بخشتا کوئی نہیں۔ وہ یہاں تک پہنچے تھے کہ معاً انھیں اپنے انکم ٹیکس کے ڈبل بہی کھاتے یاد آ گئے اور وہ بے ساختہ مسکرا دیے۔ بھائی میرے! بخشتا کوئی نہیں۔ ہم سب ایک دوسرے کا ازوقہ ہیں۔ بڑے جتن سے ایک دوسرے کو چیرتے پھاڑتے ہیں۔
تب نظر آتی ہے اک لقمہ تر کی صورت​
 

رضوان

محفلین
سطحِ سمندر اور خطِ ناداری سے نیچے
آئے دن کے چالان تاوان سے وہ عاجز آچکے تھے۔ کیسا اندھیر ہے۔ سارے پاکستان میں یہی ایک جرم رہ گیا ہے! بہت ہو چکی۔ اب وہ اس کا دو ٹوک فیصلہ کرکے چھوڑیں گے۔ مولانا کرامت حسیں سے وہ ایک دفعہ مل چکے تھے اور ساری دھشت نکل چکی تھی۔ پون انچ کم پانچ فٹ کا پودنا! اس کی گردن ان کی کلائی کے برابر تھی۔ گول چہرے اور تنگ پیشانی پر چیچک کے داغ ایسے چمکتے تھے جیسے تانبے کے برتن پر ٹھنکے ہوئے کھپرے۔ آج وہ گھر کا پتہ معلوم کر کے اس کی خبر لینے جا رہے تھے۔ پورا ڈائیلاگ ہاتھ کے اشاروں اور آواز کے زیر و بم سمیت تیار تھا۔ آج اس کا داڑھا پکڑ کے پوچھوں گا کہ ماتھے پہ یہ ادھورے سدھورے گٹّے کا ٹریڈ مارک لگائے پھرتے ہو۔ ایک دفعہ پیسا آگ پر دہکا کر اچھی طرح دغوا کیوں نہیں لیتے کہ پانچ وقت ٹکریں مارنے کے جھنجھٹ سے نجات ملے۔ داڑھی پر انھیں کسی دل جلے کی بھپتی بھی یاد آئی۔ ،،قصرِ تقدس کا چھجا!،، انکے طنز کا سارا زور نماز پڑھنے اور داڑھی رکھنے پر تھا، گویا اصل گناہ وہی ہے! ،، سمجھتے کیا ہو؟ تم جیسے چپڑ قنات تو اپنے نیفے میں رکھتا ہوں۔ حلوہ پلاؤ کھا کھا کے تم مُلاّں لوگ ایک دوسرے کی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہو اور سمجھتے ہو کہ اللہ کی رسی کو پکڑ رہے ہو! تم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہو! میں بھی اپنی پہ آ گیا تو پائی پائی آنتوں میں سے نکلوا لوں گا۔،، ریہرسل اتنا مکمل تھا کہ ذہن میں یہ تک نوٹ کر لیا تھا کہ اللہ کی رسی کہنے سے پہلے دل میں نعوذ با للہ ضرور کہیں گے۔
انھیں لیاری میں مولانا کرامت حسین کی جھگّی تلاش کرنے میں خاصی دشواری ہوئی، حالانکہ بتانے والے نے بالکل صحیح پتہ بتایا تھا کہ جھگی بجلی کے کھمبے نمبر 23 کے عقب میں کیچڑ کی دلدل کے اس پار ہے۔ تین سال سے کھمبے بجلی کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ پتے میں اس کے بائیں طرف ایک گیابھن بھُوری بھینس بندھی ہوئی بتائی گئی تھی۔ سڑکیں نہ راستے۔ گلیاں نہ فٹ پاتھ۔ ایسی بستیوں میں گھروں کے نمبر یا بورڈ نہیں ہوتا۔ ہرگھر کا ایک انسانی چہرہ ہوتا ہے۔ اسی کے پتے سے گھر ملتا ہے۔ کھمبا تلاش کرتے کرتے انھیں اچانک ایک جھگی کے ٹاٹ کے پردے پر مولانا کا نام کرامت حسین سرخ روشنائی سے لکھا نظر آیا۔ بارش کے ریلوں نے بد خط لکھائی کو خطِ غبار بنادیا تھا۔ کراچی کا یہ سب سے پسماندہ علاقہ سطح سمندر اور خطِ ناداری ( Poverty Line ) سے گزوں نیچے تھا۔ سمندر کا حصہ ہوتے ہوتے اس لیے رہ گیا تھا کہ درمیان میں انسانی جسموں کا ایک ڈھیٹ پشتہ کھڑا ہو گیا تھا۔ زمین سے ہر وقت کھاری پانی رِستا رہتا تھا جو لکڑی اور لوہے کو چند مہینوں میں گلا دیتا تھا۔ ہوا میں رُ کے ہوئے سمندری پانی کی سڑاند بسی ہوئی تھی جو سڑی ہوئی مچھلی کی بدبو سے بھی بدتر تھی۔ چاروں طرف ٹخنوں ٹخنوں بج بجاتا کیچڑ۔ خشک زمین کہیں نظر نہ آئی۔ چلنے کے لیے لوگوں نے پتھر اور اینٹیں ڈال کر پگ ڈنڈیاں بنالی تھیں۔ ایک نو دس سال کی بچی سر پر خود سے زیادہ بھاری گھڑا رکھے، اپنی گردن اور کمر کی جنبش سے پیروں کو ڈگمگاتے پتھروں پر اور گھڑے کو سر پر بیلنس کرتی آرہی تھی۔ اس کے چہرے پر پسینے کے ریلے بہ رہے تھے۔ راستے میں جو بھی ملا اس نے بچی کو احتیاط سے چلنے کا مشورہ دیا۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پانچ چھ اینٹوں کا ٹریفک آئی لینڈ آتا تھا، جہاں جانے والا آدمی کھڑے رہ کر آنے والے کو راستہ دیتا تھا۔ جھگیوں کے اندر بھی کچھ ایسا ہی نقشہ تھا۔ بچے، بزرگ اور بیمار دن بھر اونچی اونچی کھاٹوں اور کھٹّوں پر ٹنگے رہتے۔ قرآن شریف، لپٹے ہوئے بستر، برتن بھانڈے، متروکہ جائداد کی دستاویزات، میٹرک کے سرٹیفکٹ بانس کے مچان پر----- ترپال تلے-- اور ترپال کے اوپر مرغیاں۔ مولانا کرامت حسین نے جھگّی کے ایک کونے میں کھانا پکانے کے لیے ایک ٹیکری پر ایک چپوترہ بنا رکھا تھا۔ ایک کھاٹ کے پائے سے بکری بھی بندھی تھی۔ کچھ جھگّیوں کے سامنے بھینسیں کیچڑ میں دھنسی تھیں اور ان کی پیٹھ پر کیچڑ کا پلاسٹر پپڑا رہا تھا۔ یہ بھینسوں کی جنّت تھی۔ ان کا گوبر کوئی نہیں اٹھاتا تھا۔ اس لیے کہ اُپلے تھاپنے کے لیے کوئی دیوار یا خشک زمین نہ تھی۔ گوبر بھی انسانی فضلے کے ساتھ اس زمین میں متھ جاتا تھا۔ ان ہی جھگیوں میں ٹین کی چادر کے سلنڈر نما ڈبّے بھی نظرآئے جن میں دودھ بھر کے صدّر کی سفید ٹائلوں والی ڈیری کی دوکانوں میں پہنچایا جاتاتھا۔ ایک لنگڑا کتا جھگی کے باہر کھڑا تھا۔ اس نے اچانک خود کو جھڑجھڑایا تو اس کے زخم پر بیٹھی ہوئی مکھیوں اور ادھ سوکھے کیچڑ کے چھرّے اُڑ اُڑ کر بشارت کی قمیض اور چہرے پر لگے۔ جن پڑھنے والوں نے اس زمانے کی بہار کالونی،چاکی واڑہ اور لیاری نہیں دیکھی وہ شاید اندازہ نہ کرسکیں کہ انسان ایسی گندی، اگھوری حالت میں نہ صرف زندہ رہ سکتا ہےبلکہ نئی زندگیوں کو جنم بھی دے سکتا ہے۔ ایسا تعفن ، ایسی بھیانک غلا ظت تو مشرقی پاکستان میں بھی نظر نہ آئی۔ وہاں انسان نہ سہی کم از کم نیچر تو مہربان تھی۔ دھوپ، پانی اور ہوا ہر ایک چیز کو پاک اور صاف کرتے رہتے تھے۔ چلچلاتی دھوپ، لال آندھیاں،بچے کے آنسوؤں جیسی برسات، کفِ در کنار سیلاب، سائیکلون--- ان سے زیادہ تیزو تند، ظالم اور بے خطا ڈس انفکٹنٹ اور کیا ہوگا۔ تا ہم باریسال کے دو منظر نہیں بھولتے۔ لگتا ہے کسی نے ذہن پر تیزابی قلم سے کندہ کردیے ہیں-
 
Top