عین لام میم

محفلین
عزرا صاحبہ !
میں نے جب بھی آپ کے بلاگ کے لنک پہ کلک کیا، مجھے اپنا براؤزر (موزیلا ) بند کرنا پڑا کیونکہ سب رُک جاتا ہے۔ ۔ ۔!
 
عزرا صاحبہ !
میں نے جب بھی آپ کے بلاگ کے لنک پہ کلک کیا، مجھے اپنا براؤزر (موزیلا ) بند کرنا پڑا کیونکہ سب رُک جاتا ہے۔ ۔ ۔!

میرے پاس موزیلا میں‌تو یہ بلاگ صحیح‌کھل رہا ہے ۔۔۔۔۔آپ کے خیال میں‌بلاگ میں‌کیا مسئلہ ہوسکتاہے ؟؟؟
 

عین لام میم

محفلین
میرے پاس موزیلا میں‌تو یہ بلاگ صحیح‌کھل رہا ہے ۔۔۔۔۔آپ کے خیال میں‌بلاگ میں‌کیا مسئلہ ہوسکتاہے ؟؟؟


لو جی۔ ۔ ۔! پھر سے سب بند ہو گیا تھا۔ ۔ ۔ بلاگ کھُل گیا تھا لیکن پھر کچھ ہی لمحوں میں موزیلا کو کریش کرنا پڑا۔ ۔ ۔!
پتا نہیں ۔ ۔ ہو سکتا ہے کوئی پلگ اِن یا کچھ اور مِسنگ ہو۔ ۔ ۔ خیر!!
 

مغزل

محفلین
چوسر کا پانسہ ----------- ایک تازہ افسانہ از: عنیقہ ناز ----- میرے بلاگ ناطقہ سے

چوسر کا پانسہ
(کراچی کی ایک نووارد افسانہ نگار عنیقہ ناز کے قلم سے )
ادبی تنظیم دراک میں تنقید کیلیے ایک افسانہ پیش کیا گیا میرے بلاگ پر بھی شامل ہے وہیں‌سے اس کے اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں کہ ممکن کے افسانے میں زبان و بیان پر محفل کی انتظامیہ کو اعتراض ہو
بہر کیف میں کچھ پیرے یہاں نقل کیے دیتا ہوں مکمل پڑھنے اور رائے دینے کیلے آپ کو میرے بلاگ پر تشریف لانے کی زحمت گوارا کرنی ہوگی، والسلام

ہم میں سے کسی نے اپنے چہرے پہ کوئی ماسک نہیں چڑھایاتھا۔ اس سے ہم لوگوں کی نظروں میں فوراً آجاتے۔جبکہ ہماری حفاظت توبے شناخت رہنے میں تھی۔ہمارے جےسے چہرے مُہرے کے لوگ اس ملک میں بے حساب ہیں۔ فرض کرو کہ ایسا نہیں ہے اورہم میں سے کسی کا چہرہ کچھ مختلف سا ہے جو لوگوں کو یاد رہ جائے تو بھی کسی کے پاس اتنا دماغ، سوچ اور فرصت کہاں جو یاد رکھے کہ بعد میں ہماری شناخت کرے اور میں سمجھتا ہوں جب لوگ شدید خوف سے گزر رہے ہوں تو اس خوف کے علاوہ انہیں کچھ یاد نہیں رہتا۔ اچھّا چلو، کچھ دیر کے لیے یاد بھی رہ جائے تو کیا ہمیشہ یاد رہے گا۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ ترقی تو نام ہی اس چیز کا ہے کہ کوئی نئی چیز کتنی جلدی یاد کرلیتا ہے اور پرانی چیزیں کتنی جلدی بھول جاتا ہے۔ جو لوگ ایسا نہیں کرتے وہ دقیانوسی ہیں اور جلد ہی ختم ہوجانے والی نسل میں شامل ہوجائیں گے۔کم از کم میں نے اپنی میٹرک کی سائنس کی کتاب میں یہی پڑھا تھا۔

کنڈیکٹر اسے دیکھ کر مسکرایا پھر اچانک اس کے ہونٹ سکڑ گئے، تھوڑی نیچے لٹک گئی اور آنکھیں ساکت ہوکر پھیل گئیں۔ حالاں کہ وہ زندگی میں پہلی بار ٹی ٹی نہیں دیکھ رہا تھا۔ لیکن ٹی وی پر یا فلم میں دیکھنا اور بالکل اپنے سامنے دیکھنا یہ دو مختلف چیزیں ہیں۔ یہ تو میں مانتا ہوں، جب میں نے پہلی دفعہ ہاتھ میں پکڑی تھی تب — ہاں تب جیسے میرے اندر آتش فشاں پھٹ پڑا تھا۔لوہے کے ایک ٹکڑے نے مجھے کتنا طاقتور بنا یا تھا۔ طاقت سے بڑھ کر کوئی نشہ نہیں۔ مجھے معلوم تھا اب میرے پاس سب کچھ ہو گا وہ سب کچھ جو بڑے بڑے لوگوں کے پاس ہے۔ سب میرا ہے! سب! میں نے دھیرے سے اس کی ٹھنڈک کوہتھیلی سے اپنے اندر اتارا۔ کنڈیکٹر نے پھر میری طرف اور اس کے بعد ٹارزن کی طرف دیکھا۔ تین ٹی ٹی۔ اس کی گھگھی بندھ گئی

عورتیں حسبِ توقع مجھے دیکھ کر ایک دم روہانسی سی ہوگئیں۔ایک تو مجھے ان عورتوں کی مجھے سمجھ نہیں آتی۔ خوش ہوں یا غمزدہ، خوف میں ہوں یا بہادری کا کوئی کارنامہ انجام دیں۔ سالیاں، سب کچھ روتے پیٹتے ہوئے کرتی ہیں۔ ایک دفعہ ابّا نے مجھے ان عادتوں کیوجہ سے جنہیں وہ بری خیال کرتا تھا گھر سے نکال دیا۔ رہنے کا کوئی ٹھکانہ تو تھا نہیں میں کیا کرتا۔قبرستان میں جن قبروں کے اوپر چھتیں ہوتی ہیں رات کو ان چھتوں پر سو جاتا۔ اکثر رات کو جب کبھی کھٹکے سے میری آنکھ کھلتی اور میں ذرا سا سر اٹھا کر دیکھتا۔کوئی عورت آنسو صاف کرتے ہوئے سوئی سے گڑے پتلے دفن کر رہی ہوتی۔ اور کوئی،سسکیاں بھرتی ایک تھیلی میں قبر کی مٹی جما کر لے جا رہی ہوتی۔ عورتوں کوتو ڈراموں میں مزہ آتا ہے۔ چاہے اسٹار پلس کا ہو،چاہے انہوں نے خود گھڑا ہو

فرینڈ!! آج کل گرل فرینڈ ، بوائے فر ینڈ سوشل ا سٹیٹس اور روشن خیالی کی نشانی ہے۔جس طرح فلم میں ہیرو، ہیروئن کو کوئی نشانی دیتاہے ۔ ہر حکومت اپنی کوئی نشانی دے جاتی ہے۔ اس دفعہ روشن خیالی۔یہ لفظ روشن خیالی بھی کیسا کام کا لفظ ہے۔ گناہ اور ثواب کے لفظ اس کے سامنے کیسے پرانے اورظالم لفظ لگتے ہیں۔
 

اظفر

محفلین
جھوٹ اور ہماری نفسیات

0000HM032.jpg

کبھی کبھی اپنے معاشرے میں لوگوں کو جھوٹ بولتے ، الزام تراشی کرتے ، دھوکہ فریب کرتے دیکھ کر ہمیشہ سے ہی لوگوں کی نفسیات مطالعہ کرنے کا جی چاہتا ہے تاکہ جان سکوں جھوٹ بولنے ، الزام تراشی ، غلط مفروضے قائم کرنے ، دھوکہ دہی جیسی سوچ یا کام کے پیچھے کیا سوچ عمل فرما ہوتی ہے ، مگر ہمیشہ وقت آڑے آجاتا ہے۔اب بھی کسی دوست کے کہنے ایسے لوگوں والوں کا مطالعہ کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔۔۔۔مزید
 

عین لام میم

محفلین
عدم آباد کے مہمان - - غالب اِن پاکستان (2)

(گزشتہ سے پیوستہ)
ہمارا میزبان ایک نوجوان شخص تھا، انگریزی طرز کے جدید تراش خراش کے کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ داڑھی مونچھ سے بے نیاز چہرہ بہرحال دیسی تھا۔ علیک سلیک ہوئی، خاصی گرم جوشی کا مظاہرہ کیا گیا ۔
” ویلکم مرزا صاحب! سفر کیسا رہا آپکا؟ کوئی پرابلم تو نہیں ہوئی؟ آپکو زیادہ ویٹ تو نہیں کرنا پڑا۔”
ہم خاموش رہے کہ بات کی سمجھ نہیں آئی ٹھیک سے۔
“ایکچوئلی آجکل سیکیورٹی کی وجہ سے زیادہ چیکنگ ہو رہی ہے۔” وہ بولتے رہے۔
“ہائیں! کس کی وجہ سے کون ہو رہی ہے۔ ۔ ۔ !”


موٹر ایک بلند و بالا عمارت کے سامنے جا رکی جس کی پیشانی پہ لکھا تھا ” ہوٹل موتی محل”، عمارت کے اندر داخل ہوئے تو واقعی کسی محل کا گمان ہونے لگا۔ ماحول خاصا امیرانہ اور خوابناک سا تھا۔ استقبالیہ، جسے اردو میں ‘ ریسپشن’ لکھا جاتا ہے، پر ایک خاتون نے بڑے رکھ رکھاؤ سے ‘پاکستانی اردو ‘ میں بات کی ۔ پہلے سےہماری لئے محفوظ شدہ کمرے کی چابی میزبان کی طرف بڑھاتے ہوئے خاتون خوشدلی سے مسکرائیں اور گویا ہوئیں ” ویلکم ٹو موتی محل”۔ ۔ ۔ اتنی اردو ہم اب تک تو جان ہی گئے تھے۔
 

مغزل

محفلین
اظہاریہ نویسوں کا قومی اجتماع ۲۰۰۹
ہال “ تقریباً بھرا ہواتھا ہر طرف انگریزی کی لت میں گرفتار قوم موجود تھی ، اردو اظہاریہ نویسوں کے ٹولے میں بھی ہم واحد تونہیں تھے جو ہلکے نیلے رنگ کی شلوار قمیص میں ملبوس تھے بلکہ شکاری میاں بھی تھے۔۔ باقی تمام افراد انگریزی جامے زیب تن کیے ہوئے تھے۔۔۔۔

وفاقی وزیر ڈاکٹر فاروق ستار مہمان خصوصی تھے، فاروق ستار صاحب نے اپنی گفتگو السلام علیکم کے عربی الفاظ سے شروع کی اور انگریزی کے بہاری بھرتے میں اردو کا تڑکا لگاتے ہوئے اختتام کیا

مزید پڑھیں >>>>>
 

حیدرآبادی

محفلین
مسلم انڈیا : ذرا نم ہو تو یہ مٹی ۔۔۔۔۔


۔۔۔۔۔۔
ہرچند کہ ہمارے دوست شاہد سید اب ممبئی سے اٹلانٹا (جارجیا) شفٹ ہو چکے ہیں مگر وہ جو کہتے ہیں ناں کہ : پھر بھی دل ہے ہندوستانی ۔۔۔ لہذا ان کا دل ہر لمحہ ہندوستان کے لیے بالعموم اور ہندوستانی نوجوان مسلم قوم کے لئے بالخصوص دھڑکتا رہتا ہے۔

جو شخص اپنے وطن معاشرہ تہذیب و ثقافت سے دور ہو جائے تو اپنی شناخت کے بحران سے بھی گزرتا ہے ، انہی احساسات کو شاہد نے ایک مختصر ڈاکیومنٹری فلم دوسرا کنارہ کے ذریعے بڑی کامیابی سے پیش کیا اور جسے اٹلانٹا انڈو-امریکن فیسٹیول میں بھی دکھایا گیا تھا۔
شاہد نے اپنی ڈائرکشن میں بنی اس فلم کے لئے ایک گیت بھی تحریر کیا :
زندگی عمر بھر یونہی تجھ سے وفا کی ہے
بس یہی ، ہاں اک یہ ہی ہم نے خطا کی ہے

فی الوقت شاہد کے متعلق ہمیں ایک دوسرے موضوع پر گفتگو کرنا ہے۔
ہندوستان میں تمدنی ترقی کے مرکزی دھارے سے ہندوستان کی نوجوان مسلم نسل کو کس طرح جڑنا چاہئے ؟؟
ممبئی کے مہارشٹرا کالج میں 'Threshold India 2009' کے عنوان سے جنوری-2009 میں شاہد کی سرکردگی میں ایک اجلاس کا اہتمام کیا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج سے بیس سال پہلے ہندوستانی مسلمانوں کے نزدیک جو مسائل درپیش تھے مثلاً : غربت ، فرقہ واریت ، روزگار کے عدم مواقع ، ناخواندگی ، تحفظات ، دوسرے درجہ کے شہری ، دہشت گردی ، کرپشن وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔
بالکلیہ یہی مسائل بیس سال بعد آج کے نوجوان طلباء نے شاہد کے روبرو گنائے۔
پھر تجارت اور کاروباری مہم جوئی کے موضوع پر طویل مذاکرہ ہوا۔ اس کے بعد طلباء کے آٹھ گروپ بنا کر ، ہر گروپ کو ایک ہزار روپے دئے گئے کہ وہ ایک ہفتہ میں اس رقم سے کوئی بھی کسی بھی قسم کا کاروبار شروع کریں ، منافع کمائیں اور پھر اس معین مدت کے بعد کے نتائج سے آگاہ کریں۔

ہر چند کہ آٹھوں گروپ میں سے دو کو فتحیاب قرار دیا گیا مگر ہر گروپ نے اس مہم میں نمایاں اور خاصی نفع مند کامیابی حاصل کی تھی۔

نئی نسل کا جوش و جذبہ
انصاری نظرین نے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاہد کی بےمثال حکمت عملی نے ان نفسیاتی حدوں کو توڑنے کا عمل شروع کر دیا ہے جس میں ہند کی مسلم قوم ایک طویل عرصہ سے گرفتار رہی ہے۔

یہ ہے انڈیا میری جان !!
نہیں ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

مکمل تحریر پڑھئے : یہاں
 

مغزل

محفلین
مصطفے ٰ کمال کا ایک روپ ( تازہ تحریر ناطقہ کے قلم سے)​

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا فرمان ہے کہ
” آدمی اقتدار واختیار ملنے کے بعد بدلتا نہیں صرف بے نقاب ہوتا ہے “۔

مصطفے ٰ کمال کی بحیثیت ایم کیو ایم کے کارکن ہونے کے حوالے سے مجھے اختلاف رہا خاص طور پرمحسنِ پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان کے حوالے سے موصوف مشرف دور میں جو بیانات دیتے رہے
آج جب میں یہ سطریں لکھنے بیٹھا ہوں اس کی وجہ ایک تازہ واقعہ ہے جو میرے مشاہدے میں پہلی بار آیا ہے
راستے میں دو ٹریفک سنگل آئے پہلا کارساز کا جہاں یہ ”قافلہ “ قانون کی پابندی کرتے ہوئے رک گیا۔۔۔
جب میں یہ مراسلہ تحریر کررہا ہوں مجھے ابھی تک اس بات کا یقین نہیں آرہا کہ آیا میں عالمِ بے خوابی میں ہوں یا ۔۔۔
لیکن آخری جملہ جو میں نے اس مشاہدے سے کشید کیا ہے ضرور لکھنا چاہوں گا کہ ”کسی حکمران کے فرعون یا محبوب ہونے میں صرف ”رویے “ کا فرق ہوتاہے“۔

مراسلے کا ربطہ:
 
Top