مسلم انڈیا : ذرا نم ہو تو یہ مٹی ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
ہرچند کہ ہمارے دوست
شاہد سید اب ممبئی سے اٹلانٹا (جارجیا) شفٹ ہو چکے ہیں مگر وہ جو کہتے ہیں ناں کہ : پھر بھی دل ہے ہندوستانی ۔۔۔ لہذا ان کا دل ہر لمحہ ہندوستان کے لیے بالعموم اور ہندوستانی نوجوان مسلم قوم کے لئے بالخصوص دھڑکتا رہتا ہے۔
جو شخص اپنے وطن معاشرہ تہذیب و ثقافت سے دور ہو جائے تو اپنی شناخت کے بحران سے بھی گزرتا ہے ، انہی احساسات کو شاہد نے ایک مختصر ڈاکیومنٹری
فلم دوسرا کنارہ کے ذریعے بڑی کامیابی سے پیش کیا اور جسے
اٹلانٹا انڈو-امریکن فیسٹیول میں بھی دکھایا گیا تھا۔
شاہد نے اپنی ڈائرکشن میں بنی اس فلم کے لئے ایک گیت بھی تحریر کیا :
زندگی عمر بھر یونہی تجھ سے وفا کی ہے
بس یہی ، ہاں اک یہ ہی ہم نے خطا کی ہے
فی الوقت شاہد کے متعلق ہمیں ایک دوسرے موضوع پر گفتگو کرنا ہے۔
ہندوستان میں تمدنی ترقی کے مرکزی دھارے سے ہندوستان کی نوجوان مسلم نسل کو کس طرح جڑنا چاہئے ؟؟
ممبئی کے مہارشٹرا کالج میں 'Threshold India 2009' کے عنوان سے جنوری-2009 میں شاہد کی سرکردگی میں ایک اجلاس کا اہتمام کیا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج سے بیس سال پہلے ہندوستانی مسلمانوں کے نزدیک جو مسائل درپیش تھے مثلاً : غربت ، فرقہ واریت ، روزگار کے عدم مواقع ، ناخواندگی ، تحفظات ، دوسرے درجہ کے شہری ، دہشت گردی ، کرپشن وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔
بالکلیہ یہی مسائل بیس سال بعد آج کے نوجوان طلباء نے شاہد کے روبرو گنائے۔
پھر تجارت اور کاروباری مہم جوئی کے موضوع پر طویل مذاکرہ ہوا۔ اس کے بعد طلباء کے آٹھ گروپ بنا کر ، ہر گروپ کو ایک ہزار روپے دئے گئے کہ وہ ایک ہفتہ میں اس رقم سے کوئی بھی کسی بھی قسم کا کاروبار شروع کریں ، منافع کمائیں اور پھر اس معین مدت کے بعد کے نتائج سے آگاہ کریں۔
ہر چند کہ آٹھوں گروپ میں سے دو کو فتحیاب قرار دیا گیا مگر ہر گروپ نے اس مہم میں نمایاں اور خاصی نفع مند کامیابی حاصل کی تھی۔
نئی نسل کا جوش و جذبہ
انصاری نظرین نے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہد کی
بےمثال حکمت عملی نے ان نفسیاتی حدوں کو توڑنے کا عمل شروع کر دیا ہے جس میں ہند کی مسلم قوم ایک طویل عرصہ سے گرفتار رہی ہے۔
یہ ہے انڈیا میری جان !!
نہیں ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
مکمل تحریر پڑھئے :
یہاں