اسلام انصاف کے معاملے میں کسی انڈیمنٹی پر یقین نہیں رکھتا. امیر ہو یا غریب، آقا ہو یا غلام، تعلیم یافتہ ہو یا ان پڑھ، حاکم ہو یا محکوم، اسلام سب کے لیے یکساں انصاف فراہم کرنے پر زور دیتا ہے.
دنیا کے کسی کونے میں بھی ہو ، ایک مسلمان اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شان میں گستاخی یقیناً برداشت نہیں کر سکتا۔ کیا یہ چیز بھی دنیا کے کسی انسان کو ، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو ، سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے مذہب کی اعلیٰ اور مقتدر ہستی پر کی جانے والی تضحیک و استہزاء کو صرف اس لیے برداشت کرے کہ "آزادئ اظہارِ رائے" فرد کا بنیادی حق ہے؟
آج کے گلوبل ولیج میں کس کا بنیادی حق کیا ہے اور کس قدر ہے اور کتنی حد میں ہے ۔۔۔۔ اس کا فیصلہ کون کرے گا؟
کیا اس کا فیصلہ انکل سام کریں گے؟ یا فیس بک انتظامیہ ؟ یا وہ صیہونی لابی جو دنیا کے تمام مالی معاملات پر غاصبانہ قبضہ رکھتی ہے؟
صاف بات یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔
گلوبل ولیج پر اپنا من چاہا فیصلہ مسلط کرنے والوں کو "بنیادی انسانی حقوق" کی پاسداری سے کوئی سروکار نہیں بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ دنیا صرف ان ہی کے تخلیق کردہ خودساختہ اور متضاد اصول و ضوابط کو قبول کرے اور اس پر عمل پیرا ہو ۔۔۔ اب چاہے ان اصولوں سے کسی نسل ، قوم ، قبیلہ ، مذہب ، زبان ، ثقافت ، جنس ، جسمانی معذوری وغیرہ کی کتنی ہی خلاف ورزی کیوں نہ ہوتی ہو۔
یہ ایک علیحدہ موضوع ہے کہ ان حالات میں فیس بک کا استعمال کیا جانا چاہئے یا نہیں؟
کیا تمام مسلمانوں کو فیس بک پر سے اپنا اکاؤنٹ مستقلاً ختم کر لینا چاہئے؟
اسلام نے سائینس اور جدید تکنالوجی کے ذرائع سے استفادہ اور ان کے ذریعے تبلیغِ دین کو شائد کہیں بھی منع نہیں کیا۔ مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتہائی معذرت کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔ عرض ہیکہ اس مراسلے کے URL میں لفظ facebook ہونے کے سبب PTA کی جانب سے یہ پوسٹ بلاک کر دی گئی ہے۔
لاہور میں ہونے والے افسوس ناک سانحہ کے بعد حیرت انگیز طور پر کچھ مبصرین نے اس واقعہ کو پاکستان کی اقلیتی برادری 'قادیانیوں' کے خلاف حملہ گردانا۔ بظاہر قادیانی مراکز پر نظر آنے والا حملہ حقیقت میں پاکستانیوں پر حملہ ہے کیونکہ مذکورہ واقعہ کئی زاویوں ماضی میں ہوئے راولپنڈی و دیگر شہروں میں مسلمانوں کی مساجد پر حملوں سے مشابہت رکھتا ہے۔
وطن عزیز میں نجی چینل کسی "وبا" کی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔ ان پر ناشتے ، ظہرانے اور عشائیے کے علاوہ شام کی چائے کے اوقات کے زیرعنوان پروگرام نشر ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے نوجوانوں میں انتہائی مقبول ہیں کیونکہ ایسے زیادہ تر پروگرام صرف دیکھنے کے لائق ہوتے ہیں ، سننے کے نہیں !
ان چینلز نے بھانپ لیا ہے کہ نوجوانوں میں وہی پروگرام مقبول ہوتے ہیں جن میں "اینکرز" نہیں بلکہ "اینکرنیاں" ہوں۔
یہ وہ نت نئے ملبوسات پہنے ، دوپٹے کو درخور اعتناء نہ جانے ، کرسی پر بیٹھی ، شانے اچکاتی ، اور ریختہ کے بخیے ادھیڑتی نظر آتی ہیں کیونکہ وہ نہ صرف تن زیبی کے حوالے سے "متاثرینِ مغرب" میں شامل ہوتی ہیں بلکہ قومی زبان بولتے ہوئے بھی انہیں کچھ "کمتری" کا سا احساس ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ اردو میں کچھ کچھ انگلش شامل کرنے کے بجائے انگلش میں کچھ کچھ اردو بول جاتی ہیں ۔۔۔۔ مثلاً ، ان کا مہمان اگر کوئی فنکار ہو تو اس سے سوال کچھ یوں کرتی ہیں کہ :
"آپ اس فیلڈ میں کیسے آئے ؟ آئی مین ! واز اِٹ یور اون ایمبیشن اور اے نیچرلی بیسٹوڈ گفٹ؟ ناظرین جاننا چاہیں گے"۔
حالانکہ ناظرین کی کم از کم 60 فیصد تعداد کو تو یہی پتا نہیں ہوتا کہ ان کی نمائیندگی کرتی ہوئی اس اینکرنی نے کیا سوال کیا ہے؟