آنکھ کے واس۔۔۔طے آرام نکل آیا ہے
آخری اشک سرِ ش۔۔۔۔ام نکل آیا ہے
آج کے دن سے مجھے آپ اکیلا سمجھیں
آج یاروں سے کوئی کام نکل آیا ہے
شعر تو شعر ہیں کیا ان کا محاصل توقی۔۔۔۔۔ر
اب محبت میں بھی ابہام نکل آیا ہے
توقیر تقی
عشق کے مرحلے بھی کتنے ہیں
دل کسی مرحلے میں رہ جاتا
راستا پوچھتا اگر سب سے
میں کہیں راستے میں رہ جاتا
میں نے ساری وضاحتیں کردیں
ورنہ تو مخمصے میں رہ جاتا