نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
رہا یہ وہم کہ ہم ہیں سو وہ بھی کیا معلوم
نگاہ خود پہ جو ڈالی تو یہ ہوا معلوم
“نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم!“
سوائے اس کے نہیں کچھ بھی با خدا معلوم
ہمیں تو اپنا بھی یارو! نہیں پتا معلوم!
مآل شکوہ غم، حاصل وفامعلوم!
غریب شہر وفاکا علاج؟ لا معلوم!
خزاں گزیدہ بہاروں نے کیا کہا تجھ سے؟
مآلِ گل نہیں کیا تجھ کو اے صبا معلوم؟
اک عمر کٹ گئی امید و نامرادی میں
اب انتظار ہے کل کا سو وہ بھی کیا معلوم!
بس اتنا جانتے ہیں دل کسی کو دے آئے
بھلے برے کی خبر ہم کو کیا بھلا معلوم؟
نہیں ہے کچھ بھی تلاش سکون سے حاصل
مقام عشق کی ہم کو ہے ہر ادا معلوم
بھلے ہی تم کو نہ ہو اپنے عاشقوں کی خبر
ہمیں ہے حال تمہارا ذرا ذرا معلوم!
پڑا ہے سوچ میں “سرور“ مقام عبرت میں
یہ کیاغضب ہے کہ معلوم بھی ہے نا معلوم