ذکر اُس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
ہوگیا رقیب آخر جو تھا رازداں اپنا
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر تھا جو راز داں اپنا
چھو لیں اسے کہ دور سے بس دیکھتے رہیں
تارے بھی رات میری طرح مخمصے میں تھے
جگنو، ستارے، آنکھ، صبا ، تتلیاں، چراغ
سب اپنے اپنے غم کے کسی سلسلے میں تھے