کاشفی

محفلین
بشر کا ناز، نبوت کا نورِ عین حسین
جنابِ فاطمہ زہرا کے دل کا چین حسین
کبھی نماز سے پوچھا جو رنج و غم کا علاج
کہا نماز نے بے ساختہ حسین! حسین!

(محسن نقوی شہید)
 

کاشفی

محفلین
کعبہ علی کا، مسجد و منبر علی کے ہیں
ابدال و غوث و قطب و قلندر علی کے ہیں
محشر میں اہلِ حشر پہ آخر کھلا یہ بھید
سوداگرانِ خلد، گداگر علی کے ہیں

(محسن نقوی شہید)
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
کھلا ہے جھوٹ کا بازار، آؤ سچ بولیں
نہ ہو بلا سے خریدار، آؤ سچ بولیں

سکوت چھایا ہے انسانیت کی قدروں پر
یہی ہے موقعِ اظہار، آؤ سچ بولیں

تمام شہر میں اب ایک بھی نہیں منصور
کہیں گے کیا رسن و دار، آؤ سچ بولیں

قتیل شفائی
 

showbee

محفلین
برسوں کے بعد دیکھا اِک شخص دلربا سا
اب ذہن میں نہیں ہے پر نام تھا بھلا سا
الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر میں
بن جائے جنگلوں میں جس طرح راستہ سا
خوابوں میں خواب اس کے یادوں میں یاد اُس کی
نیندوں میں گھل گیا ہو جیسے کہ رتجگا سا
پہلے بھی لوگ آئے کتنے ہی زندگی میں
وہ ہر طرح سے لیکن اوروں سے تھا جدا سا
اگلی محبتوں نے وہ نامرادیاں دیں
تازہ رفاقتوں سے دل تھا ڈرا ڈرا سا
 

showbee

محفلین
کبھی یاد کرو تواِس طرح
میرا درد پھر غزل بنے
کبھی دل دُکھاو تو اِس طرح
میرے دھڑکنیں بھی لرز اُٹھیں
کبھی بھُول جاؤ تو اِس طرح
نہ سِسک سکوں نہ بِلک سکوں
کبھی چھوڑ جاؤ تو اِس طرح
نہ اُجڑ سکوں نہ سںور سکوں
کبھی یاد آو تو اِس طرح
نہ جی سکوں نہ مر سکوں
 

حسان خان

لائبریرین
منزل کی دھن میں آبلہ پا چل کھڑے ہوئے
شورِ جرس سے دل نہ رہا اختیار میں
(یاس یگانہ چنگیزی)

جامِ مے ہونٹوں تک اپنے آتے آتے گر گیا
رہ گئے خاموش سوئے چرخِ گرداں دیکھ کر
(یاس یگانہ چنگیزی)
 
آخری تدوین:

اوشو

لائبریرین
دل کے غم نے دردِ جہاں سے مل کے بڑا بے چین کیا
پہلے پلکیں پُرنم تھیں، اب عارض بھی نمناک ہوئے

ظہیر کاشمیری
 

کاشفی

محفلین
گو دل کو تم سے خاص شکایت ہے، کیا کروں
پھر بھی مجھے تمہیں سے محبت ہے، کیا کروں

(بہزاد لکھنوی)
 

کاشفی

محفلین
اس کا خیال ہے کہ زمانہ کہے گا کیا
اب تجھ سے دوستی نہ نباہوں تو کیا کروں

(بہزاد لکھنوی)
 

showbee

محفلین
کاتبِ تقدیر سے کیا شکوہ اے دلِ نادان
جب ہر شے نے مِٹ جانا ہے تو پھر خواہشیں کیسی
 

شیزان

لائبریرین
ہمارے کھِلنے اور جھڑنے کے دن اِک ساتھ آئے تھے
ہمیں دیمک نے چاٹا ہے شجر کاری کے موسم میں


عباس تابش
 

کاشفی

محفلین
تم ہنسو تو دن نکلے، چُپ رہو تو راتیں ہیں
کس کا غم، کہاں کا غم، سب فضول باتیں ہیں

اے خلوص میں تجھ کو کس طرح بچاؤں گا
دشمنوں کی چالیں ہیں، ساتھیوں کی گھاتیں ہیں

تم پہ ہی نہیں موقوف، آج کل تو دنیا میں
زیست کے بھی مذہب ہیں، موت کی بھی ذاتیں ہیں

(مصطفی زیدی)
 

کاشفی

محفلین
اہلِ کراچی کے لیئے منظر بھوپالی کی طرف سے
یہ اذیت بھی ذلت بھی ہے، ہم پہ یہ غم قیامت بھی ہے
جس زمیں کے لیئے مر مٹے، اس زمیں پر ہی غدار ہیں
۔۔۔۔۔۔
 

کاشفی

محفلین
یہاں گناہ ہوا کے چھپائے جاتے ہیں
چراغ خود نہیں بجھتے بجھائے جاتے ہیں

(منظر بھوپالی)
 

کاشفی

محفلین
یہ کیسا قرض ہے نفرت کا کم نہیں ہوتا
کہ بڑھتا جاتا ہے جتنا جھکائے جاتے ہیں

(منظر بھوپالی)
 

کاشفی

محفلین
پھر بہوں جلانے کا حق تمہیں پہنچتا ہے
پہلے اپنے آنگن میں بٹیاں جلا دینا

(منظر بھوپالی)
 

کاشفی

محفلین
کدھر کو جائیں گے اہلِ سفر نہیں معلوم
وہ بدحواسی ہے اپنا ہی گھر نہیں معلوم

ہمارا صبر تجھے خاک میں ملا دے گا
ہمارے صبر کا تجھ کو اثر نہیں معلوم

ہم اپنے گھر میں بھی بےخوف رہ نہیں سکتے
کہ ہم کو نیتِ دیوار و در نہیں معلوم

ہمیشہ ٹوٹ کہ ماں باپ کی کرو خدمت
ہے کتنے روز یہ بوڑھے شجر نہیں معلوم

(منظر بھوپالی)
 

کاشفی

محفلین
ایسا نہیں جہاں میں محبت نہیں رہی
لیکن کسی کو پیار کی فرصت نہیں رہی

جب سے حرام رزق کی عادت پڑی ہمیں
گھر میں ہمارے پہلی سی برکت نہیں رہی
(منظر بھوپالی)
 

کاشفی

محفلین
ہماری جیب سے جب بھی قلم نکلتا ہے
سیاہ شب کے خداؤں کا دم نکلتا ہے

تمہارے وعدوں کا قد بھی تمہارے جیسا ہے
کبھی جو ناپ کے دیکھو تو کم نکلتا ہے

یہ اتفاق ہے منظرکہ کوئی سازش ہے
ہمیشہ کیوں میرے گھر سے ہی بم نکلتا ہے

(منظر بھوپالی)
 
Top