کاشفی

محفلین
جب بھی اہلِ حق اُٹھے، دوجہاں اُٹھا لائے
خاک پر کیا سجدہ، آسماں اُٹھا لائے

زندگی کے سورج نے جب بھی قہر برسایا
ہم اُٹھے، دعاؤں کا سائباں اُٹھا لائے

(منظر بھوپالی)
 

کاشفی

محفلین
جن کا مسلک ہے روشنی کا سفر، وہ چراغوں کو کیوں بجھائیں گے
اپنے مُردے بھی جو جلاتے نہیں، زندہ لوگوں کو کیا جلائیں گے

(راحت اندوری)
 

کاشفی

محفلین
لوگ ہر موڑ پہ رُک رُک کے سنبھلتے کیوں ہیں
اتنا ڈرتے ہیں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں

میں نہ جگنوہوں، دیا ہوں نہ کوئی تارا ہوں

روشنی والے مرے نام سے جلتے کیوں ہیں

نیند سے میرا تعلق ہی نہیں برسوں سے
خواب آ آ کے مری چھت پہ ٹہلتے کیوں ہیں

موڑ ہوتا ہے جوانی کا سنبھلنے کے لیئے
اور سب لوگ یہیں آ کے پھسلتے کیوں ہیں

میکدہ ظرف کے معیار کا پیمانہ ہے
خالی شیشوں کی طرح لوگ اُچھلتے کیوں ہیں

(راحت اندوری)
 

کاشفی

محفلین
زباں تو کھول، نظر تو ملا، جواب تو دے
میں کتنی بار لُٹا ہوں، تو مجھے حساب تو دے

ترے بدن کی لکھاوٹ میں ہے اُتار چڑھاؤ
میں تجھ کو کیسے پڑھوں گا، مجھے کتاب تو دے

(راحت اندوری)
 
آخری تدوین:

کاشفی

محفلین
روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے
چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے

اُس کی یاد آئی، سانسوں ذرا آہستہ چلو

دھڑکوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے
(راحت اندوری)
 
آخری تدوین:

کاشفی

محفلین
شام کے بعد جب تم سحر دیکھ لو
کچھ فقیروں کو کھانا کھلایا کرو

دوستوں سے ملاقات کے نام پر
نِیم کی پتیوں کو چبایا کرو

چاند سورج کہاں، اپنی منزل کہاں
ایسے ویسوں کو منہ مت لگایا کرو

(راحت اندوری)
 

کاشفی

محفلین
سمندروں کے سفر میں ہوا چلاتا ہے
جہاز خود نہیں چلتے، خدا چلاتا ہے

اور تجھے خبر نہیں میلے میں گھومنے والے
تیری دکان کوئی دوسرا چلاتا ہے

یہ لوگ پاؤں نہیں ذہن سے اپاہج ہیں
اُدھر چلیں گے جدھر رہنما چلاتا ہے

اور ہم اپنے بوڑھے چراغوں پہ خود اترائے
اور اُس کو بھول گئے جو ہوا چلاتا ہے

(راحت اندوری)
 

کاشفی

محفلین
میرے ہُجرے میں نہیں اور کہیں پر رکھ دو
آسماں لائے ہو، لے آؤ، زمیں پر رکھ دو

اب کہاں ڈھونڈنے جاؤ گے ہمارے قاتل
آپ تو قتل کا الزم ہمیں پر رکھ دو

(راحت اندوری)
 

کاشفی

محفلین
افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب ہے، لوگوں نے پوچھ پوچھ کے بیمار کردیا
دو گز سہی مگر یہ میری ملکیت تو ہے، اے موت تونے مجھ کو زمیندار کردیا

(راحت اندوری)
 

کاشفی

محفلین
اُس کی خوشبو میری غزلوں میں سمٹ آئی ہے
نام کا نام ہے، رسوائی کی رسوائی ہے

دل ہے اک اور دوعالم کا تمنائی ہے
دوست کا دوست ہے، ہرجائی کا ہرجائی ہے

ہجر کی رات ہے اور اُن کے تصوّر کا چراغ
بزم کی بزم ہے، تنہائی کی تنہائی ہے

کون سے نام سے تعبیر کروں اِس رُت کو
پھول مرجھائے ہیں، زخموں پہ بہار آئی ہے

کیسی ترتیب سے کاغذ پہ گرے ہیں آنسو
ایک بھولی ہوئی تصویر اُبھر آئی ہے

(اقبال اشعر)
 

showbee

محفلین
خواب کیا کیا چُنے، جال کیا کیا بُنے
موج تھمتی نہی، رنگ رکتے نہی
وقت کے فرش پر، خاک کے رقص پر
نقش جمتے نہی، ابر جُھکتے نہی
ہر مُسافت کی دوری کا سمٹاؤ ہے
جو کجھ بھی ہے محبت کا پھلاؤ ہے
 

showbee

محفلین
بڑی اداس ہے وادی
گلا دبایا ہوا ہے کسی انگلی سے
یہ سانس لیتی رہے، پر یہ سانس لے نہ سکے
درخت اگتے ہیں کچھ سوچ سوچ کر جیسے
جو سر اٹھائے گا پہلے وہی قلم ہوگا
جھکا کے گردنیں آتے ہیں ابر نادم ہیں
کہ دھوئے جاتے نہیں خون کے نشاں ان سے!

ہری ہری ہے، مگر گھاس اب ہری بھی نہیں
جہاں پہ گولیاں برسیں، زمیں بھری بھی نہیں
وہ مایئگریٹری پنچھی جو آیا کرتے تھے
وہ سارے زخمی ہواؤں سے ڈر کے لوٹ گئے
بڑی اداس ہے وادی۔۔۔۔ یہ وادئِ کشمیر
 

کاشفی

محفلین
وہ جو فاصلوں میں تھیں قربتیں، یہ جو قربتوں میں ہیں فاصلے
وہ محبتوں کا عروج تھا، یہ محبتوں کا زوال ہے
(اقبال اشہر)
 

کاشفی

محفلین
اللہ میرے رزق کی برکت نہ چلی جائے
دو روز سے گھر میں کوئی مہمان نہیں ہے

(ماجد دیوبندی)
 

کاشفی

محفلین
لبوں کو تشبیہ دوں کلی سے، بدن کو کھلتا گلاب لکھوں
میں خوشبوؤں کی زباں سمجھ لوں تو اس کے خط کا جواب لکھوں


غزل کے لہجے سے روٹھ جائیں تو چٹھیاں کتنی بےمزا ہوں
نہ وہ مجھے آفتاب سمجھے نہ میں اُسے مہتاب لکھوں

(اقبال اشہر)
 

کاشفی

محفلین
سنو سمندر کی شوخ لہرو، ہوائیں ٹھہری ہیں تم بھی ٹھہرو
وہ دور ساحل پہ ایک بچہ ابھی گھروندے بنا رہا ہے

(اقبال اشہر)
 
Top