ہوش جاتے رہے رقیبوں کے
داغ کو اور بے وفا کہیئے
یہ بھی داغ کا شعر ہے اور اس غزل کو فریدہ خانم نے گایا ہے، مطلع ہے
ناروا کہیئے نا سزا کہیئے
کہیئے کہیئے مجھے برا کہیئے
شکریہ قبلہ تصحیح کے لیے - جی ہاں یہ غزل میں نے سنی ہے اور وہیں سے اسکے شعر یاد بھی رہ گئے ہیںلیکن یہ نہیںمعلوم تھا کہ داغ کی ہے میںاسے بھی مومن کی سمجھتا رہا - اور یہ غزل بھی داغ کی ہے ناجسے فریدہ خانم نے گایا ہے -
عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں
باعثِ ترکِ ملاقات، بتاتے بھی نہیں
کیا کہا؟، پھر سے کہو، ہم نہیں سنتے تیری!
نہیں سنتے، تو ہم ایسوں کو سناتے بھی نہیں
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں