یہ سرور عالم سرور کا کلام ہے جو کہ ان کے مجموعہ کلام در شہوار سے لیا گیا ہے۔ پوری غزل یہ رہی :
آپ آتے ہیں تو ملنے سے خوشی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز محبت کی گھڑی ہوتی ہے
دل جو دنیا سے اُٹھایا تو ملا خود کا پتا
بیخودی میں بھی نہاں رسمِ خودی ہوتی ہے
منزل عشق کی آسانیاں، اللہ اللہ!
سہل سمجھو جسے دشوار وہی ہوتی ہے
میں جو ہنستا ہوں تو کوئی نہیں ہنسنے والا
اور روتا ہوں تو دنیا کو خوشی ہوتی ہے
عشق میں ہوش اُڑے جب تو سمجھ میں آیا
ضامنِ ہوش یہی بے خبری ہوتی ہے
لاکھ دل اُس سے لگاؤ بھی تو ہوتا کیا ہے؟
دوست کس کی بھلا دنیائے دنی ہوتی ہے
ہم کو شمشیر و سلاسل سے ڈرانے والو!
کہیں ایسے بھی محبت میں کمی ہوتی ہے؟
کیا مزے آتے ہیں پھر شامِ تمنا سرور
میں ادھر اور اُدھر آشفتہ سری ہوتی ہے