خلاصہ آیت :یہ ہے اس آیت کریمہ میں الله سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے حبیب صلی الله علیہ وسلم کو اس بات کا اطمینان دلایا ہے کہ آپ کا دشمن عاص بن وائل یا کعب بن اشرف یا جس نے بھی آپ کے خلاف بات کی، وہ سب نیست ونابود ہوں گے اور ان سب کے نام ونشان ختم ہو جائیں گے، آئندہ ان کا کوئی نام لینے والا بھی نہیں رہےگا۔ چنانچہ اگر قرآن کریم کی ان آیتوں کی تفسیر یا نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی سیرت بیان نہ کی جاتی، تو کوئی ان لوگوں کے نام سے واقف نہیں ہوتا۔
اس کے بر عکس آپ صلی الله علیہ وسلم کی اولاد کا سلسلہ حضرت فاطمہ رضی الله عنہا سے چلا اور آج تک جاری ہے اور قیامت تک جاری رہےگا۔ ان شاء الله
چنانچہ قیامت سے پہلے حضرت امام مہدی کا ظہور ہوگا اور وہ مسلمانوں کی قیادت فرمائیں گے، وہ بھی حضرت فاطمہ رضی الله عنہا کی اولاد میں سے ہوں گے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہر انسان اس وجہ سے اولاد چاہتا ہے کہ اس کی موت کے بعد اس کی اولاد اس کے کام اور مشن کو آگے لے جائے؛ تاکہ اس کا کام اور مشن دنیا میں اس کی موت کے بعد مزید پھیل سکے؛ یہاں تک کہ وہ آخرت میں زیادہ سے زیادہ ثواب مل سکے۔
لہذا جب ہم اس بات کو اس پہلو سے دیکھتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی امت آپ کی روحانی اولاد ہیں اور آپ کے مشن کو آگے لے جاتے ہیں، کیونکہ وہ آپ کی تصدیق کرتی ہیں، آپ کے دین پر عمل کرتی ہیں، آپ کے پیغام کو پوری دنیا میں پھیلانے کی سعی کرتی ہیں اور یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہےگا اور بڑھتا رہےگا۔
ہمارا مشاہدہ ہے کہ پورے عالم میں لاکھوں اور کروڑوں لوگ اپنے آقا ومولیٰ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے لئے اپنی جان ومال، عزت وآبرو ہر وقت قربان کرتے ہیں اور ہر وقت قربان کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دنیا کی سب سے افضل شخصیت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے اور آپ کی لائی ہوئی کتاب قرآن کریم پوری دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، لہذا الله تعالیٰ نے آپ کو سب سے زیادہ عزت عطا فرمائی اور الله تعالیٰ نے آپ کے دشمنوں کے نام ونشان کو نیست ونابود کر دیا اور ان کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا ہے۔
اس سورت سے ہمیں ایک اہم سبق ملتا ہے کہ اگر ہم کوئی کار خیر دیکھیں، تو ہمیں چاہیئے کہ ہم اس کار خیر میں تعاون کریں اور ہر ممکن طریقہ سے اس کار خیر کو پھیلائیں۔ اگر ہم ایسا کریں گے، تو ہمارا بھی اس کار خیر میں حصہ ہوگا۔
اس کے بر خلاف اگر ہم اس کار خیر پر اعتراض کریں گے اور اس کے لوگوں پر تنقید کریں گے اور ان کو روکنے کی کوشش کریں گے تو ہم عاص بن وائل وغیرہ کی طرح ہوں گے، جنہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو روکنے کی کوشش کی اور اپنا دین پھیلانے کی وجہ سے آپ کو طعنہ دیا ہے۔
اگر ہم عاص بن وائل وغیرہ کی پیروی کریں گے جو آپ صلی الله علیہ وسلم کے دشمن تھے، تو اس کی طرح ہمارا نام ونشان بھی مٹ جائےگا۔
لیکن اگر ہم سنّت نبوی کی پیروی کریں گے اور ہر ممکن طریقہ سے دین اور سنّت کی اشاعت کرنے والوں کا تعاون کریں گے، تو الله تعالیٰ ہمارا نام ہماری وفات کے بعد بھی زندہ رکھیں گے اور ہمارے اچھے کاموں کو پوری دنیا میں پھیلائیں گے۔