امریکہ کے ساتھ تو خیر پاکستان کا کوئی موازنہ بنتا ہی نہیں ہے۔ بنتا تو انڈیا کے ساتھ بھی نہیں ہے، مثلا انڈیا کی صرف آئی ٹی کے متعلقہ ایکسپورٹس پاکستان کی کل ایکسپورٹس سے قریب قریب تین گنا ہیں اور کل ایکسپورٹس میں قریب قریب ایک اور دس کا تعلق ہے۔ اس لحاظ سے پاکستانی اشتہارات کا خرچ ایک ارب سالانہ سے زائد نہیں ہونا چاہیئے تھا جو کہ سوا تین ارب سالانہ ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کی حکومتیں ہر جائز کام کا بھی غلط استعمال کرتی ہیں۔ اخبارات کے پورے پورے صفحے صرف اپنے کارناموں کو بیان کرنے کے لیے وقف ہوتے ہیں، اور اخباروں اور الیکڑانک میڈیا کو یہ اشتہارات ایک طرح سے رشوت کے طور پر بھی دیے جاتے ہیں۔ ہم ایک غریب ملک ہیں، یہ اللے تللے افورڈ نہیں کر سکتے، یہ حکمران اگر اپنی جیب سے یہ سب کچھ کریں تو کس کافر کو اعتراض ہے، مسئلہ تو یہ ہے کہ ساری ہمارے ٹیکسوں کی رقوم ہیں۔
ہماری حکومت کو اس ٹیکنالوجی کے دور میں اپنے منصوبوں ، معلومات، یا وضاحتوں کی تشریح اپنی ویب سائٹس یا سوچل میڈیا کے ذریعے سے کرنا چاہیے جہاں سے وہ باقاعدہ ردعمل بھی حاصل کر سکیں گے۔ لیکن میڈیا کو یہ پیسے اپنے حق میں رکھنے کے لیے بھی دئیے جاتے ہیں۔ اس لیے حکومتوں کو اس طرح پیسے ضائع کرنے کی بجائے بامقصد جگہوں پر استعمال کرنا ہو گا۔
اس کے علاوہ کسی دوسرے ملک سے موازنہ کرنا سراسر فضول ہو گا۔ ہر ملک کے اپنے مسائل اور حالات ہوتے ہیں۔ جیسے انڈیا تو وہاں پر لوگوں کو ٹوائلٹ کے فوائد سمجھانے کے لیے بھی اشتہارات کا سہارہ لینا پڑتا ہے۔ ہمیں اس کے بغیر بھی پتا ہے۔ اس کے علاوہ وہاں کی آبادی کا تناسب ہم سے کئی گنا زیادہ ہے۔