سیما علی
لائبریرین
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی.
’’فرما دیجیے: میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (میری) قرابت (اور ﷲ کی قربت) سے محبت (چاہتا ہوں)‘‘
(الشوریٰ، 42: 23)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اہل بیت اطہار بالخصوص حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے شدید محبت فرماتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ فرمانِ خداوندی کے ذریعے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امت پر بھی محبت اہل بیت کو واجب و ضروری قرار دے رہے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ اور فضیلت و شان پر جو کچھ ارشاد فرمایا، کتب حدیث ان سے بھری پڑی ہیں۔ اس موقع پر ہم ان چند احادیث کا مطالعہ کریں گے جن کے ذریعے ہمیں نہ صرف حضرات حسنینِ کریمین رضی اللہ عنہما کے مقام و مرتبہ سے آگاہی ہوگی بلکہ ان سے محبت کی ضرورت و اہمیت کا پتہ ہی چلے گا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
هُمَا رَیْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْیَا.
(البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسین، 3/ 1371، الرقم: 3543)
’’(حسن اور حسین) گلشن دنیا میں میرے دو خوشبودار پھول ہیں‘‘۔
لفظ ’’ریحان‘‘ کے معانی:
لفظ ’’ریحانتان‘‘ کا معنی ہمیشہ ’’دو پھول‘‘ کیا جاتا ہے۔ غریب الحدیث کی کتب میں جب لفظ ’’ریحان‘‘ کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے پانچ معانی ملتے ہیں مگر عام طور پر شارحین حدیث نے اس کے ایک معنی ’’پھول‘‘ پر اکتفا کیا ہے۔ ان پانچ میں سے ایک معنی ایسا ہے جس نے مجھے ایمانی فرحت اور روحانی لذت دی ہے۔ آیئے پہلے ’’ریحان‘‘ کے ابتدائی چار معانی کے اسرار و رموز کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر آخری معنی پر بات کریں گے جو ایمانی و روحانی حلاوت کا باعث ہے۔
1۔ خوشبو دار پھول
’’ریحان‘‘ کا ایک معنی زمین سے اُگنے والی خوشبودار شے ہے۔ اس سے پھول کا معنی لیا گیا۔ اس معنی کے اعتبار سے بھی حدیثِ مبارک کا مفہوم واضح ہے۔ آقا علیہ السلام ہمیشہ جب بھی حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو اٹھاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو پکڑ کر سب سے پہلے سونگھتے تھے، پھر چومتے تھے اور چومنے کے بعد ان کو اپنے سینے سے لپٹا لیتے تھے۔
حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہہ
سُئِلَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم أَيُّ أَهْلِ بَیْتِکَ أَحَبُّ إِلَیْکَ قَالَ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ وَکَانَ یَقُولُ لِفَاطِمَةَ ادْعِي لِيَ ابْنَيَّ فَیَشُمُّهُمَا وَیَضُمُّهُمَا إِلَیْهِ.
جامع الترمذی، الرقم:3781
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا اہل بیت میں سے آپ کو کون زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسن اور حسین۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ j سے فرمایا کرتے تھے کہ میرے دونوں بیٹوں کو میرے پاس بلائو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو سونگھتے اور اپنے ساتھ چمٹالیتے‘‘۔
توجہ طلب بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو سونگھتے کیوں تھے؟ ان کو خوشبودار پھول قرار دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے جسموں سے وہ خوشبو آتی جو دنیا کے کسی بڑے سے بڑے خوشبودار پھول سے بھی نہیں آتی تھی۔ لہذا آقا علیہ السلام انہیں سونگھتے تھے۔
ذہن میں سوال آسکتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جسموں سے خوشبو آتی ہو؟ اس سوال کا پید اہونا بھی بڑے تعجب کی بات ہے، اس لئے کہ جب آقا علیہ السلام کے جسم اطہر سے خوشبو آتی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک سے خوشبو آتی تھی، حدیث کی کتابیں اور شمائل کی کتابیں ان احادیث صحیحہ کے ساتھ بھری پڑی ہیں کہ جس راستے سے آقا علیہ السلام گزر جاتے، لوگ آپ کو تلاش کرنے نکلتے تو راستے کی ہواؤں میں بکھری ہوئی خوشبو سے جان لیتے تھے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرف تشریف لے گئے ہیں۔ چنانچہ ان راستوں کو تلاش کر لیتے جس راستے کی ہوائوں میں آقا علیہ السلام کی خوشبو آرہی ہوتی۔ جدھر سے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گزر جاتے، وہاں کی ہوائیں بھی مہک اٹھتی تھیں۔۔
جسم اطہر تو جسم اطہر ہے، آقا علیہ السلام کے پسینہ مبارک میں بھی خوشبو تھی۔ صحاح ستہ میں کثیر احادیث ہیں کہ صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک کو نچوڑ کر شیشیوں میں جمع کرتے تھے اور بطور خوشبو استعمال کرتے۔ بیٹیوں کی شادی ہوتی تو شادی کے وقت انہیں جہیز میں دیتے اور اسے بطور خوشبو ان کے لباس میں لگاتے۔ ایک گھر والوں نے آقا علیہ السلام کے پسینہ مبارک شیشی میں بھر کر رکھا ہوا تھا اور ان کے گھر سے ہمیشہ خوشبو اٹھتی رہتی تھی، اہل مدینہ اس گھر کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو والا گھر کہا کرتے تھے۔
پس جب آقا علیہ السلام کے جسم اطہر سے نکلنے والے پسینے کا یہ عالم ہے کہ کائنات کی کوئی خوشبو اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی تو حسنین کریمین بھی تو آقا علیہ السلام کے جسم کا ٹکڑا ہیں، ان سے خوشبو کیوں نہیں آتی ہوگی۔
ایک صحابی آقا علیہ السلام کی مجلس میں بیٹھے تھے، آقا علیہ السلام نے کچھ تلاوت فرمائی اور ایک آیت کی تلاوت کرتے ہوئے مزاحاً محبت کے ساتھ اپنا منہ مبارک اس صحابی کے قریب کر دیا اور جھک کر اس کے منہ کے قریب آیت پڑھ دی۔ اس عمل سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہن مبارک کی ہوا اس صحابی کے منہ میں چلی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مرتے دم تک اس صحابی کے منہ سے خوشبو آیا کرتی تھی۔ ساری زندگی ایک بار اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہن مبارک کی ہوا میسر آجائے تو تا دم وفات اس صحابی کے منہ کی خوشبو نہیں گئی تو حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے جسموں کاعالم کیا ہوگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انہیں سونگھنا بلا وجہ تو نہیں ہوگا! جن پھولوں کی خوشبو نہ آتی ہو، انہیں تو ہم بھی نہیں سونگھتے، انہی پھولوں کو سونگھتے ہیں جن میں خوشبو ہوتی ہے۔ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے جسدین طیبین مشمومین کی خوشبو آقا علیہ السلام سونگھتے تھے۔
2۔ اولاد
’’ریحان‘‘ کا دوسرا معنی ’’اولاد‘‘ ہے۔ اپنے اطلاق کے اعتبار سے یہ معنی بھی واضح ہے۔ آقا علیہ السلام کے اپنے صاحبزادگان چھوٹی عمر میں ہی وفات پاگئے تھے، لہذا اللہ کو منظور یہ تھا کہ حسنین کریمن رضی اللہ عنہما کو آقا علیہ السلام کا نواسہ ہی نہیں بلکہ بیٹا بنایا جائے۔ اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں ’’ابنایا‘‘ ’’میرے بیٹے‘‘ بھی کہتے تھے۔ پوتے، نواسے، بیٹے سب اولاد ہیں۔
3۔ راحت
’’ ریحان‘‘ کا تیسرا معنی ’’راحت، چین و سکون‘‘ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ھُمَا رَیْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْیَا فرماکر واضح کردیا کہ اس دنیا میں یہی تو میری راحت ہیں، انہی دوسے مجھے راحت، سکون، چین اور میرے دل کو خوشی اور مسرت ہوتی ہے۔ اگر کوئی انہیں اذیت دے گا تو گویا مجھے اذیت دے گا۔ ارشاد فرمایا:
من أحبهما فقد أحبنی ومن أبغضهما فقد ابغضنی و من آذاهما فقد آذانی.
(احمد بن حنبل، المسند، 2/288، رقم 7863)
’’جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میری ذات کے ساتھ بغض رکھا اور جس نے ان کو اذیت دی اس نے میری جان کو اذیت دی‘‘
کثرت کے ساتھ اس معنی کی احادیث صحاح ستہ میں موجود ہیں کہ یہ میری راحتِ جان ہیں۔ جس طرح کوئی اپنے بیٹے، بیٹیوں، پوتے، پوتیوں، نواسے، نواسیوں سے بے پناہ محبت کرتا ہو تو وہ کہتا ہے کہ میں تو انہیں دیکھ دیکھ کر جیتا ہوں، میری زندگی کی راحت ہی یہ ہیں، میری تو خوشی ہی یہ ہیں۔ ہر انسان یہ احساسات رکھتا ہے۔ یہ چرند، پرند بھی احساسات رکھتے ہیں۔ پھر آقا علیہ السلام کے اندر رحمت اور محبت کے احساس ساری کائنات سے بڑھ کر ہیں، اس لئے فرما رہے ہیں کہ حسن و حسین میری راحتِ جان ہیں۔
4۔ رحمت
’’ریحان‘‘ کا چوتھا معنی رحمت ہے۔ اس معنی کا اطلاق مذکورہ حدیثِ مبارک پر یوں ہوتا ہے گویا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمارہے ہیں کہ جس طرح مجھے اللہ تعالیٰ نے وَمَآ اَرْسَلْنٰ۔کَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ کے فرمان کے ذریعے سارے جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا اور سارے جہانوں کے لئے رحمت میں ہوں، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے اس دنیا میں جو رحمت عطا کی ہے، وہ حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی شکل میں عطا کی ہے۔ یعنی اللہ نے مجھے حسن و حسین کی شکل میں رحمت کے دو پیکر عطا کئے ہیں۔
اس فرمان سے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی فضیلت اور کرامت کی طرف اشارہ ہے کہ جن دو شہزادوں کو آقا علیہ السلام اس گلشنِ دنیا میں اپنے لئے اللہ کی رحمت قرار دے رہے ہیں، اندازہ کریں کہ ان کی بزرگی، رتبہ، مقام، کرامت اور فضیلت کا عالم کیا ہوگا۔
آج بدقسمتی یہ ہے کہ ان کی فضیلت کا تذکرہ رفتہ رفتہ لوگوں کے دلوں سے اترتا جا رہا ہے۔ خارجیت نے لوگوں کا ایمان برباد کر دیا ہے۔میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے علماء جو آج سے بیس پچیس سال پہلے دس دس دن، دس دس راتیں ذکر حسین کرتے تھے، آج ان کی زبانوں کو تالے لگ گئے ہیں۔ وہ لوگ خارجیت کے اثر میں اتنے آگئے ہیں کہ اب امام حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کا ذکر کرنے کو شیعیت کہتے ہیں۔ اپنے اس عمل سے وہ ایمان سے خارج ہو رہے ہیں۔ وہ ہستیاں جن کے بارے آقا علیہ السلام یہ کہیں کہ یہ مجھ پر رحمت ہیں، اگر ہر لمحہ ان کا ذکر کریں تو آقا علیہ السلام کو کتنی خوشی ہوگی! جن کو آقا علیہ السلام نے اپنی جان کہا، ان سے پیار کریں اور تذکرے کریں تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کتنی راحت پہنچے گی۔۔
5۔رزق
مذکورہ چار معانی ’’ریحان‘‘ کے تھے اب اصل معنی کی طرف آرہا ہوں اور وہ یہ کہ ’’ریحان‘‘ کا ایک معنی رزق ہے۔ آقا نے فرمایا:
هُمَا رَیْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْیَا.
یعنی اس دنیا میں حسن و حسین میرا رزق ہیں جو اللہ نے مجھے عطا کیا۔
(ابن الاثیر الجزری، النہایة فی غریب الاثر، 2/28
’’ریحان کا اطلاق رحمت، رزق اور راحت پر ہوتا ہے‘‘۔
رزق کا حقیقی معنی و مفہوم:
اولاد پر ’’ریحان‘‘ کا اطلاق ہونے کا سبب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
وَبِالرِّزقِ سُمِّيَ الوَلَدُ رَیْحَانًا. (ایضاً)
اولاد کو رَیْحَان کہنے کی وجہ ہی یہ ہے کہ وہ ماں باپ کا رزق ہوتے ہیں۔
لسان العرب اور دیگر لغت کی کتب اٹھائیں تو رزق کی تعریف ہی یہ ہے کہ
اَلرِّزقْ الَّذِیْ یُنْتَفَعُ بِهِ.
(ابن منظور الافریقی، لسان العرب، 10/115)
’’رزق اُس شے کو کہتے ہیں جس سے نفع اور فائدہ پہنچے‘‘۔
جس شے سے نفع نہ پہنچے وہ رزق نہیں ہوتا۔ اولاد کو رَیْحَان کہنے کا سبب یہ ہے کہ اولاد ماں باپ کا رزق ہوتی ہے، ان کے کام آتی ہے، ان کا سہارا بنتی ہے اور ان سے ماں باپ کو نفع پہنچتا ہے۔
مثلاً میرے دونوں بیٹے ڈاکٹر حسن محی الدین اور ڈاکٹر حسین محی الدین مشن میں میرے سہارا بن گئے ہیں، میری ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا لیا ہے، مجھے اطمینان قلب ہوگیا۔ اگر یہ میرے مشن کی راہ پہ نہ چلتے اور اِن سے مجھے اور میرے مشن کو فائدہ نہ پہنچتا، یا کوئی اور راہ اپنا لیتے تو یہ میرا رزق نہ ہوتے کیونکہ مجھے ان سے نفع نہیں پہنچا۔ اگر میرے مشن کو آگے بڑھائیں، اس تحریک کو آگے پہنچائیں، اپنا رات دن منہاج القرآن کے لیے فنا کریں اور آقا علیہ السلام کی غلامی و محبت میں خرچ کریں تو پھر نہ صرف میری حقیقی اولاد بلکہ میرے تمام کارکنان و رفقا بھی میرا رزق ہیں کیونکہ ان سب سے مجھے نفع پہنچا۔ آپ میرے مشن کو سہارا دینے والے ہیں۔ گویا رزق وہ ہوتا ہے جس سے والدین کو نفع پہنچتا ہے۔
(ابوعبدالله بن ابی النصر الازدی، تفسیر غریب مافی الصحیحین البخاری و مسلم، 200)
رَیْحَانْ کا مطلب رزق ہوتا ہے اور اولاد کو بھی رَیْحَانْ اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ وہ رزق ہے جس سے والدین کو نفع پہنچتا ہے۔
(زمخشری، الفائق فی غریب الحدیث ، 1/185)
’’اللہ کی طرف سے جو رَیْحَانْ ہے وہ دئیے ہوئے رزق کو کہتے ہیں‘‘۔
حسنینِ کریمین رضی اللہ عنہما حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رزق کیسے ہیں؟
الغرض دیگر ائمہ جنہوں نے غرائب الحدیث پر کتب لکھیں انہوں نے ریحان کا معنی رزق لکھا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حسنین کریمین حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رزق کیسے ہوئے؟؟
وہ رزق اس لیے ہوئے کہ اِن سے آقا علیہ السلام کو نفع پہنچا۔ حضور علیہ السلام کے دین کو نفع پہنچا۔ صحیح بخاری اور دیگر کتب حدیث میں آیا ہے کہ آقا علیہ السلام نے ایک دفعہ امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کو اٹھایا، اپنی گود میں بٹھایا اور فرمایا:
اِبْنِیْ هَذَا سَیَّدٌ.
’’میرا یہ بیٹا سید ہے‘‘
(بخاری، الصحیح، 2/962، رقم 2557)
حسنینِ کریمین علیما السلام آقا علیہ السلام کے گلشن کے دو پھول
قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی.
’’فرما دیجیے: میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (میری) قرابت (اور ﷲ کی قربت) سے محبت (چاہتا ہوں)‘‘
(الشوریٰ، 42: 23)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اہل بیت اطہار بالخصوص حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے شدید محبت فرماتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ فرمانِ خداوندی کے ذریعے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امت پر بھی محبت اہل بیت کو واجب و ضروری قرار دے رہے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ اور فضیلت و شان پر جو کچھ ارشاد فرمایا، کتب حدیث ان سے بھری پڑی ہیں۔ اس موقع پر ہم ان چند احادیث کا مطالعہ کریں گے جن کے ذریعے ہمیں نہ صرف حضرات حسنینِ کریمین رضی اللہ عنہما کے مقام و مرتبہ سے آگاہی ہوگی بلکہ ان سے محبت کی ضرورت و اہمیت کا پتہ ہی چلے گا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
هُمَا رَیْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْیَا.
(البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسین، 3/ 1371، الرقم: 3543)
’’(حسن اور حسین) گلشن دنیا میں میرے دو خوشبودار پھول ہیں‘‘۔
لفظ ’’ریحان‘‘ کے معانی:
لفظ ’’ریحانتان‘‘ کا معنی ہمیشہ ’’دو پھول‘‘ کیا جاتا ہے۔ غریب الحدیث کی کتب میں جب لفظ ’’ریحان‘‘ کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے پانچ معانی ملتے ہیں مگر عام طور پر شارحین حدیث نے اس کے ایک معنی ’’پھول‘‘ پر اکتفا کیا ہے۔ ان پانچ میں سے ایک معنی ایسا ہے جس نے مجھے ایمانی فرحت اور روحانی لذت دی ہے۔ آیئے پہلے ’’ریحان‘‘ کے ابتدائی چار معانی کے اسرار و رموز کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر آخری معنی پر بات کریں گے جو ایمانی و روحانی حلاوت کا باعث ہے۔
1۔ خوشبو دار پھول
’’ریحان‘‘ کا ایک معنی زمین سے اُگنے والی خوشبودار شے ہے۔ اس سے پھول کا معنی لیا گیا۔ اس معنی کے اعتبار سے بھی حدیثِ مبارک کا مفہوم واضح ہے۔ آقا علیہ السلام ہمیشہ جب بھی حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو اٹھاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو پکڑ کر سب سے پہلے سونگھتے تھے، پھر چومتے تھے اور چومنے کے بعد ان کو اپنے سینے سے لپٹا لیتے تھے۔
حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہہ
سُئِلَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم أَيُّ أَهْلِ بَیْتِکَ أَحَبُّ إِلَیْکَ قَالَ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ وَکَانَ یَقُولُ لِفَاطِمَةَ ادْعِي لِيَ ابْنَيَّ فَیَشُمُّهُمَا وَیَضُمُّهُمَا إِلَیْهِ.
جامع الترمذی، الرقم:3781
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا اہل بیت میں سے آپ کو کون زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسن اور حسین۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ j سے فرمایا کرتے تھے کہ میرے دونوں بیٹوں کو میرے پاس بلائو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو سونگھتے اور اپنے ساتھ چمٹالیتے‘‘۔
توجہ طلب بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو سونگھتے کیوں تھے؟ ان کو خوشبودار پھول قرار دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے جسموں سے وہ خوشبو آتی جو دنیا کے کسی بڑے سے بڑے خوشبودار پھول سے بھی نہیں آتی تھی۔ لہذا آقا علیہ السلام انہیں سونگھتے تھے۔
ذہن میں سوال آسکتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جسموں سے خوشبو آتی ہو؟ اس سوال کا پید اہونا بھی بڑے تعجب کی بات ہے، اس لئے کہ جب آقا علیہ السلام کے جسم اطہر سے خوشبو آتی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک سے خوشبو آتی تھی، حدیث کی کتابیں اور شمائل کی کتابیں ان احادیث صحیحہ کے ساتھ بھری پڑی ہیں کہ جس راستے سے آقا علیہ السلام گزر جاتے، لوگ آپ کو تلاش کرنے نکلتے تو راستے کی ہواؤں میں بکھری ہوئی خوشبو سے جان لیتے تھے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرف تشریف لے گئے ہیں۔ چنانچہ ان راستوں کو تلاش کر لیتے جس راستے کی ہوائوں میں آقا علیہ السلام کی خوشبو آرہی ہوتی۔ جدھر سے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گزر جاتے، وہاں کی ہوائیں بھی مہک اٹھتی تھیں۔۔
جسم اطہر تو جسم اطہر ہے، آقا علیہ السلام کے پسینہ مبارک میں بھی خوشبو تھی۔ صحاح ستہ میں کثیر احادیث ہیں کہ صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک کو نچوڑ کر شیشیوں میں جمع کرتے تھے اور بطور خوشبو استعمال کرتے۔ بیٹیوں کی شادی ہوتی تو شادی کے وقت انہیں جہیز میں دیتے اور اسے بطور خوشبو ان کے لباس میں لگاتے۔ ایک گھر والوں نے آقا علیہ السلام کے پسینہ مبارک شیشی میں بھر کر رکھا ہوا تھا اور ان کے گھر سے ہمیشہ خوشبو اٹھتی رہتی تھی، اہل مدینہ اس گھر کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو والا گھر کہا کرتے تھے۔
پس جب آقا علیہ السلام کے جسم اطہر سے نکلنے والے پسینے کا یہ عالم ہے کہ کائنات کی کوئی خوشبو اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی تو حسنین کریمین بھی تو آقا علیہ السلام کے جسم کا ٹکڑا ہیں، ان سے خوشبو کیوں نہیں آتی ہوگی۔
ایک صحابی آقا علیہ السلام کی مجلس میں بیٹھے تھے، آقا علیہ السلام نے کچھ تلاوت فرمائی اور ایک آیت کی تلاوت کرتے ہوئے مزاحاً محبت کے ساتھ اپنا منہ مبارک اس صحابی کے قریب کر دیا اور جھک کر اس کے منہ کے قریب آیت پڑھ دی۔ اس عمل سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہن مبارک کی ہوا اس صحابی کے منہ میں چلی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مرتے دم تک اس صحابی کے منہ سے خوشبو آیا کرتی تھی۔ ساری زندگی ایک بار اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہن مبارک کی ہوا میسر آجائے تو تا دم وفات اس صحابی کے منہ کی خوشبو نہیں گئی تو حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے جسموں کاعالم کیا ہوگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انہیں سونگھنا بلا وجہ تو نہیں ہوگا! جن پھولوں کی خوشبو نہ آتی ہو، انہیں تو ہم بھی نہیں سونگھتے، انہی پھولوں کو سونگھتے ہیں جن میں خوشبو ہوتی ہے۔ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے جسدین طیبین مشمومین کی خوشبو آقا علیہ السلام سونگھتے تھے۔
2۔ اولاد
’’ریحان‘‘ کا دوسرا معنی ’’اولاد‘‘ ہے۔ اپنے اطلاق کے اعتبار سے یہ معنی بھی واضح ہے۔ آقا علیہ السلام کے اپنے صاحبزادگان چھوٹی عمر میں ہی وفات پاگئے تھے، لہذا اللہ کو منظور یہ تھا کہ حسنین کریمن رضی اللہ عنہما کو آقا علیہ السلام کا نواسہ ہی نہیں بلکہ بیٹا بنایا جائے۔ اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں ’’ابنایا‘‘ ’’میرے بیٹے‘‘ بھی کہتے تھے۔ پوتے، نواسے، بیٹے سب اولاد ہیں۔
3۔ راحت
’’ ریحان‘‘ کا تیسرا معنی ’’راحت، چین و سکون‘‘ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ھُمَا رَیْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْیَا فرماکر واضح کردیا کہ اس دنیا میں یہی تو میری راحت ہیں، انہی دوسے مجھے راحت، سکون، چین اور میرے دل کو خوشی اور مسرت ہوتی ہے۔ اگر کوئی انہیں اذیت دے گا تو گویا مجھے اذیت دے گا۔ ارشاد فرمایا:
من أحبهما فقد أحبنی ومن أبغضهما فقد ابغضنی و من آذاهما فقد آذانی.
(احمد بن حنبل، المسند، 2/288، رقم 7863)
’’جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میری ذات کے ساتھ بغض رکھا اور جس نے ان کو اذیت دی اس نے میری جان کو اذیت دی‘‘
کثرت کے ساتھ اس معنی کی احادیث صحاح ستہ میں موجود ہیں کہ یہ میری راحتِ جان ہیں۔ جس طرح کوئی اپنے بیٹے، بیٹیوں، پوتے، پوتیوں، نواسے، نواسیوں سے بے پناہ محبت کرتا ہو تو وہ کہتا ہے کہ میں تو انہیں دیکھ دیکھ کر جیتا ہوں، میری زندگی کی راحت ہی یہ ہیں، میری تو خوشی ہی یہ ہیں۔ ہر انسان یہ احساسات رکھتا ہے۔ یہ چرند، پرند بھی احساسات رکھتے ہیں۔ پھر آقا علیہ السلام کے اندر رحمت اور محبت کے احساس ساری کائنات سے بڑھ کر ہیں، اس لئے فرما رہے ہیں کہ حسن و حسین میری راحتِ جان ہیں۔
4۔ رحمت
’’ریحان‘‘ کا چوتھا معنی رحمت ہے۔ اس معنی کا اطلاق مذکورہ حدیثِ مبارک پر یوں ہوتا ہے گویا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمارہے ہیں کہ جس طرح مجھے اللہ تعالیٰ نے وَمَآ اَرْسَلْنٰ۔کَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ کے فرمان کے ذریعے سارے جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا اور سارے جہانوں کے لئے رحمت میں ہوں، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے اس دنیا میں جو رحمت عطا کی ہے، وہ حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی شکل میں عطا کی ہے۔ یعنی اللہ نے مجھے حسن و حسین کی شکل میں رحمت کے دو پیکر عطا کئے ہیں۔
اس فرمان سے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی فضیلت اور کرامت کی طرف اشارہ ہے کہ جن دو شہزادوں کو آقا علیہ السلام اس گلشنِ دنیا میں اپنے لئے اللہ کی رحمت قرار دے رہے ہیں، اندازہ کریں کہ ان کی بزرگی، رتبہ، مقام، کرامت اور فضیلت کا عالم کیا ہوگا۔
آج بدقسمتی یہ ہے کہ ان کی فضیلت کا تذکرہ رفتہ رفتہ لوگوں کے دلوں سے اترتا جا رہا ہے۔ خارجیت نے لوگوں کا ایمان برباد کر دیا ہے۔میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے علماء جو آج سے بیس پچیس سال پہلے دس دس دن، دس دس راتیں ذکر حسین کرتے تھے، آج ان کی زبانوں کو تالے لگ گئے ہیں۔ وہ لوگ خارجیت کے اثر میں اتنے آگئے ہیں کہ اب امام حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کا ذکر کرنے کو شیعیت کہتے ہیں۔ اپنے اس عمل سے وہ ایمان سے خارج ہو رہے ہیں۔ وہ ہستیاں جن کے بارے آقا علیہ السلام یہ کہیں کہ یہ مجھ پر رحمت ہیں، اگر ہر لمحہ ان کا ذکر کریں تو آقا علیہ السلام کو کتنی خوشی ہوگی! جن کو آقا علیہ السلام نے اپنی جان کہا، ان سے پیار کریں اور تذکرے کریں تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کتنی راحت پہنچے گی۔۔
5۔رزق
مذکورہ چار معانی ’’ریحان‘‘ کے تھے اب اصل معنی کی طرف آرہا ہوں اور وہ یہ کہ ’’ریحان‘‘ کا ایک معنی رزق ہے۔ آقا نے فرمایا:
هُمَا رَیْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْیَا.
یعنی اس دنیا میں حسن و حسین میرا رزق ہیں جو اللہ نے مجھے عطا کیا۔
- علامہ ابن اثیر النہایہ فی غریب الحدیث و الاثر (2:28 میں ریحان کے تحت بیان کرتے ہیں کہ
(ابن الاثیر الجزری، النہایة فی غریب الاثر، 2/28
’’ریحان کا اطلاق رحمت، رزق اور راحت پر ہوتا ہے‘‘۔
رزق کا حقیقی معنی و مفہوم:
اولاد پر ’’ریحان‘‘ کا اطلاق ہونے کا سبب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
وَبِالرِّزقِ سُمِّيَ الوَلَدُ رَیْحَانًا. (ایضاً)
اولاد کو رَیْحَان کہنے کی وجہ ہی یہ ہے کہ وہ ماں باپ کا رزق ہوتے ہیں۔
لسان العرب اور دیگر لغت کی کتب اٹھائیں تو رزق کی تعریف ہی یہ ہے کہ
اَلرِّزقْ الَّذِیْ یُنْتَفَعُ بِهِ.
(ابن منظور الافریقی، لسان العرب، 10/115)
’’رزق اُس شے کو کہتے ہیں جس سے نفع اور فائدہ پہنچے‘‘۔
جس شے سے نفع نہ پہنچے وہ رزق نہیں ہوتا۔ اولاد کو رَیْحَان کہنے کا سبب یہ ہے کہ اولاد ماں باپ کا رزق ہوتی ہے، ان کے کام آتی ہے، ان کا سہارا بنتی ہے اور ان سے ماں باپ کو نفع پہنچتا ہے۔
مثلاً میرے دونوں بیٹے ڈاکٹر حسن محی الدین اور ڈاکٹر حسین محی الدین مشن میں میرے سہارا بن گئے ہیں، میری ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا لیا ہے، مجھے اطمینان قلب ہوگیا۔ اگر یہ میرے مشن کی راہ پہ نہ چلتے اور اِن سے مجھے اور میرے مشن کو فائدہ نہ پہنچتا، یا کوئی اور راہ اپنا لیتے تو یہ میرا رزق نہ ہوتے کیونکہ مجھے ان سے نفع نہیں پہنچا۔ اگر میرے مشن کو آگے بڑھائیں، اس تحریک کو آگے پہنچائیں، اپنا رات دن منہاج القرآن کے لیے فنا کریں اور آقا علیہ السلام کی غلامی و محبت میں خرچ کریں تو پھر نہ صرف میری حقیقی اولاد بلکہ میرے تمام کارکنان و رفقا بھی میرا رزق ہیں کیونکہ ان سب سے مجھے نفع پہنچا۔ آپ میرے مشن کو سہارا دینے والے ہیں۔ گویا رزق وہ ہوتا ہے جس سے والدین کو نفع پہنچتا ہے۔
- امام ابو عبد اﷲ بن ابی نصر الازدی تفسیر غریب ما فی الصحیحین البخاری ومسلم میں بیان کرتے ہیں کہ
(ابوعبدالله بن ابی النصر الازدی، تفسیر غریب مافی الصحیحین البخاری و مسلم، 200)
رَیْحَانْ کا مطلب رزق ہوتا ہے اور اولاد کو بھی رَیْحَانْ اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ وہ رزق ہے جس سے والدین کو نفع پہنچتا ہے۔
- علامہ زمخشری غریب الحدیث پر اپنی کتاب ’الفائق‘ میں لکھتے ہیں کہ:
(زمخشری، الفائق فی غریب الحدیث ، 1/185)
’’اللہ کی طرف سے جو رَیْحَانْ ہے وہ دئیے ہوئے رزق کو کہتے ہیں‘‘۔
حسنینِ کریمین رضی اللہ عنہما حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رزق کیسے ہیں؟
الغرض دیگر ائمہ جنہوں نے غرائب الحدیث پر کتب لکھیں انہوں نے ریحان کا معنی رزق لکھا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حسنین کریمین حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رزق کیسے ہوئے؟؟
وہ رزق اس لیے ہوئے کہ اِن سے آقا علیہ السلام کو نفع پہنچا۔ حضور علیہ السلام کے دین کو نفع پہنچا۔ صحیح بخاری اور دیگر کتب حدیث میں آیا ہے کہ آقا علیہ السلام نے ایک دفعہ امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کو اٹھایا، اپنی گود میں بٹھایا اور فرمایا:
اِبْنِیْ هَذَا سَیَّدٌ.
’’میرا یہ بیٹا سید ہے‘‘
(بخاری، الصحیح، 2/962، رقم 2557)
حسنینِ کریمین علیما السلام آقا علیہ السلام کے گلشن کے دو پھول