آج کی حدیث

سیما علی

لائبریرین
بندے کی دُعاء اُس وقت تک قُبول ہوتی رہتی ہے جب تک کہ وہ گناہ یا صلہ رحمی کے خلاف دُعاء نہ کرے ، اور جب تک وہ جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرے
،صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا ، جلد بازی کرنا کیا ہے ؟ اے اللہ کے رسول ،
تو اِرشاد فرمایا
جلد بازی) یہ کہنے لگے کہ میں نے دُعاء کی ، اور دُعاء کی لیکن مجھے( اپنی دُعاء کی) قُبولیت ہوتی ہوئی دِکھائی نہیں دیتی،پس پھر وہ حسرت کا شِکار ہو جاتاہے اور دُعاء کرنا چھوڑ دیتا ہے

صحیح مُسلم /حدیث/7112کتاب الذِکر و الدُعاء والتوبہ /باب25،
 

سیما علی

لائبریرین
بخاري و مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے ابو موسی الأشعري روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "نیک اور برے دوست کی مثال مشک ساتھ رکھنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے (جس کے پاس مشک ہے اور تم اس کی صحبت میں ہو) وہ اس میں سے تمہیں کچھ تحفہ کے طور پر دے گا یا تم اس سے خرید سکو گے یا (کم از کم) تم اس کی عمدہ خوشبو سے تو محظوظ ہو ہی سکو گے اور بھٹی دھونکنے والا یا تمہارے کپڑے (بھٹی کی آگ سے) جلا دے گا یا تمہیں اس کے پاس سے ایک ناگوار بدبودار دھواں پہنچے گا -"
(صحیح البخاري 2101 & 5534، صحيح مسلم 262
 

سیما علی

لائبریرین
´ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوغسان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوحازم نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، انہوں نے بتلایا کہ` ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ پڑھتے، پھر دوپہر کی نیند لیا کرتے تھے۔(صحیح بخاری۔ باب نمبر11۔حدیث نمبر940)
 

سیما علی

لائبریرین
ZBvn8z1.png
 

سیما علی

لائبریرین
عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: لَا يُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّي أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ.

متفق علیہ

حضرت انس رضي الله عنه سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اُس کے والد (یعنی والدین)، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہو جاؤں۔
 

سیما علی

لائبریرین
صحیح مسلم: مقدمہ صحیح مسلم (باب: رسول اللہﷺ پر جھوٹ بولنے کے بارے میں سختی)

مترجم: ١. پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری (دار السلام)
ابو بکر بن ابی شیبہؒ، نیز محمد بن مثنیٰؒ اور ابن بشارؒ نے کہا: ہم سے محمد بن جعفرؒ (غندر) نے شعبہؒ سے حدیث بیان کی، انہوں نے منصورؒ سے، انہوں نے ربعی بن حراشؒ سے روایت کی کہ انہوں نے حضرت علیؓ سے سنا، جب وہ خطبہ دے رہے تھے:کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھ پر جھوٹ نہ بولو! بلاشبہ جس نے مجھ پر جھوٹ بولا وہ جہنم میں داخل ہو گا۔‘‘
 

سیما علی

لائبریرین
قال رسول اللہ ﷺ :

یقیناً اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملےگا۔ پس جس کی ہجرت(ترک وطن) دولت دنیاحاصل کرنےکےلیےہو یا کسی عورت سےشادی کی غرض ہو۔ پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کےلیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سےاس نے ہجرت کی ہے۔

(بخاری ،۰۱)
 

سیما علی

لائبریرین
صحيح بخاري حدیث نمبر:5

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَبِي عَائِشَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: " لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ سورة القيامة آية 16، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَالِجُ مِنَ التَّنْزِيلِ شِدَّةً، وَكَانَ مِمَّا يُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَأَنَا أُحَرِّكُهُمَا لَكُمْ كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَرِّكُهُمَا، وَقَالَ سَعِيدٌ: أَنَا أُحَرِّكُهُمَا كَمَا رَأَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يُحَرِّكُهُمَا، فَحَرَّكَ شَفَتَيْهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ { 16 } إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْءَانَهُ { 17 } سورة القيامة آية 16-17، قَالَ: جَمْعُهُ لَهُ فِي صَدْرِكَ وَتَقْرَأَهُ، فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْءَانَهُ سورة القيامة آية 18، قَالَ: فَاسْتَمِعْ لَهُ وَأَنْصِتْ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ سورة القيامة آية 19، ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا أَنْ تَقْرَأَهُ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ إِذَا أَتَاهُ جِبْرِيلُ اسْتَمَعَ، فَإِذَا انْطَلَقَ جِبْرِيلُ قَرَأَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا قَرَأَهُ ".
موسیٰ بن اسماعیل نے ہم سے حدیث بیان کی، ان کو ابوعوانہ نے خبر دی، ان سے موسیٰ ابن ابی عائشہ نے بیان کی، ان سے سعید بن جبیر نے انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کلام الٰہی «لا تحرك به لسانك لتعجل به‏» الخ کی تفسیر کے سلسلہ میں سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزول قرآن کے وقت بہت سختی محسوس فرمایا کرتے تھے اور اس کی (علامتوں) میں سے ایک یہ تھی کہ یاد کرنے کے لیے آپ اپنے ہونٹوں کو ہلاتے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا میں اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جس طرح آپ ہلاتے تھے۔ سعید کہتے ہیں میں بھی اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جس طرح ابن عباس رضی اللہ عنہما کو میں نے ہلاتے دیکھا۔ پھر انہوں نے اپنے ہونٹ ہلائے۔ (ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا) پھر یہ آیت اتری کہ اے محمد! قرآن کو جلد جلد یاد کرنے کے لیے اپنی زبان نہ ہلاؤ۔ اس کا جمع کر دینا اور پڑھا دینا ہمارا ذمہ ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں یعنی قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جما دینا اور پڑھا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ پھر جب ہم پڑھ چکیں تو اس پڑھے ہوئے کی اتباع کرو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں (اس کا مطلب یہ ہے) کہ آپ اس کو خاموشی کے ساتھ سنتے رہو۔ اس کے بعد مطلب سمجھا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ پھر یقیناً یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ آپ اس کو پڑھو (یعنی اس کو محفوظ کر سکو) چنانچہ اس کے بعد جب آپ کے پاس جبرائیل علیہ السلام (وحی لے کر) آتے تو آپ (توجہ سے) سنتے۔ جب وہ چلے جاتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس (وحی) کو اسی طرح پڑھتے جس طرح جبرائیل علیہ السلام نے اسے پڑھا تھا۔
 

سیما علی

لائبریرین
مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ” الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ ؛ لا یَظْلِمُہُ ، وَلا یَخْذُلُہُ ، وَلا یَحْقِرُہُ ، بِحَسْبِ امْرِءٍ مِنْ الشَّرِّ أَنْ یَحْقِرَ أَخَاہُ الْمُسْلِمَ ، رَواہُ مُسلِمٌ

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور رسالت ماب ﷺنے ارشادفرمایا :مسلمان ، مسلمان کابھائی ہے۔نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اس کو ظلم میں سونپتا ہے ، نہ اس کو رسوا کرتا ہے ،نہ اس کوحقیر جانتا ہے ۔ کسی شخص کے بدبخت ہونے کے لیے اتنا ہے کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔

( اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے)

:تخریج الحدیث

(صحیح مسلم: رقم ٢٥٦٤۔ طبع مؤسسۃ الرسالۃ)

(مسند امام احمد: رقم ٧٧٢٧۔ طبع مؤسسۃ الرسالۃ)

(السنن الکبرٰی للبیہقی : ج٦ص٩٢۔ طبع دارالنوادر بےروت)

:شرح الحدیث

:ارشاد باری تعالیٰ ہے

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوْا وَاذْکُرُوْا بِنِعْمَتِ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ اِخْوَانًا

(آل عمران:١٠٣)

اوراللہ کی رسی مضبوط تھام لو سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا (فرقوں میں نہ بٹ جانا)اور اللہ کااحسان اپنے اوپر یاد کروجب تم میں دشمنی تھی اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ کردیا تو اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی ہوگئے۔

: نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ

(الحجرات : ١٠)

مسلمان ،مسلمان کا بھائی ! تو اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرواور اللہ سے ڈرو کہ تم پہ رحمت ہو
 

سیما علی

لائبریرین
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی“ ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف ۱۲۴۷۷، ۱۲۵۴۷)، الحدیث أخرجہ: صحیح البخاری/الجہاد ۱۰۹ (۲۹۵۷)، الأحکام ۱ (۷۱۳۷)، صحیح مسلم/الإمارة ۸ (۸۱۳۵)، سنن النسائی/البیعة ۲۷ (۴۱۹۸)، مسند احمد (۲/۲۴۴، ۲۵۲، ۲۷۰، ۳۱۳، ۳۴۲، ۴۱۶، ۴۶۷) (صحیح) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے حدیث نمبر: ۲۸۵۹)
 

سیما علی

لائبریرین
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي مَنْصُورِينَ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ ".
قرہ بن ایاس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں سے ایک گروہ کو ہمیشہ قیامت تک اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل رہے گی ۱؎، اور جو اس کی تائید و مدد نہ کرے گا اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا“۔

تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/کتاب الفتن ۲۷ (۲۱۹۲)، ۵۱ (۲۲۲۹)، (تحفة الأشراف: ۱۱۰۸۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۴۳۶ ۴/۹۷، ۱۰۱) (صحیح)
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا ،اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے برابر کونسی عبادت ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس کی طاقت نہیں رکھتے،پھر انھوں نے پوچھا دو یا تین باراور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر بار یہی فرماتے تھے کہ تم اس کی طاقت نہیں رکھتے۔آخر تیسری بار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والےکی مثال ایسی ہے جیسے کوئی روزے دار ہو کر نماز میں کھڑا رہے اللہ تعالی ٰ کی آیتوں کا مطیع ہونہ روزے سے تھکے نہ نماز سے یہاں تک کہ لوٹے مجاہد جہاد سے(حدیث شریف 4869 صفہ نمبر157جلد5 مسلم شریف)
 

سیما علی

لائبریرین
ایک صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اسلام کی کون سی حالت افضل ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کہ ( اللہ کی مخلوق کو ) کھانا کھلاؤ اور سلام کرو، اسے بھی جسے تم پہچانتے ہو اور اسے بھی جسے نہیں پہچانتے۔ (صحیح بخاری ،حدیث نمبر ٦٢٣٦)
 

سیما علی

لائبریرین
"قربت کے حق کو پامال کرنے والا اوراپنے برتاؤ میں رشتوں ناطوں کا لحاظ نہ رکھنے والا جنت میں نہیں جائے گا"۔

(بخاری،باب اثم القاطع،حدیث نمبر:۵۵۲۵، شاملہ، موقع الإسلام)
______________________________ _________________ _
پھر اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خاص تعلیم اور تاکید یہ ہے کہ اگر بالفرض تمہاراکوئی قرابت دار تمہاراحق قرابت ادانہ کرے تو اس کی قرابت کا حق تم اس صورت میں بھی ادا کرتے رہو،چنانچہ آنحضرتﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا کہ:
______________________________ _________________ _
"تمہاراجوعزیز قریب تم سے بے تعلقی اوربے مروتی برتے اور قرابت کا حق ادانہ کرے ،توتم اس سے بے تعلقی مت برتو،اپنی طرف سے تم اس کی قرابت کا حق اداکرتے رہو"۔

(مسند احمد،حدیث عقبۃ بن عامر رضی اللہ عنہ،حدیث نمبر:۱۶۶۹۶، شاملہ، موقع الإسلام)
 

سیما علی

لائبریرین
ترجمہ از داؤد راز
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے باپ نے اور ان سے سہل رضی اللہ عنہ نے کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بنی ہوئی حاشیہ دار چادر آپ کے لیے تحفہ لائی۔ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے (حاضرین سے) پوچھا کہ تم جانتے ہو چادر کیا؟ لوگوں نے کہا کہ جی ہاں! شملہ۔ سہل رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں شملہ (تم نے ٹھیک بتایا) خیر اس عورت نے کہا کہ میں نے اپنے ہاتھ سے اسے بنا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنانے کے لیے لائی ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کپڑا قبول کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اس وقت ضرورت بھی تھی پھر اسے ازار کے طور پر باندھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو ایک صاحب (عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ یہ تو بڑی اچھی چادر ہے ‘ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پہنا دیجئیے۔ لوگوں نے کہا کہ آپ نے (مانگ کر) کچھ اچھا نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی ضرورت کی وجہ سے پہنا تھا اور تم نے یہ مانگ لیا حالانکہ تم کو معلوم ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا سوال رد نہیں کرتے۔عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ خدا کی قسم! میں نے اپنے پہننے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ چادر نہیں مانگی تھی۔ بلکہ میں اسے اپنا کفن بناؤں گا۔ سہل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہی چادر ان کا کفن بنی۔

صحیح بخاری ،کتاب الجنائز ،حدیث نمبر : 1277

اشعار

مانگیں گے ، مانگے جائیں گے ، منہ مانگی پائیں گے
سرکار میں نہ لا ہے نہ حاجت اگر کی ہے


واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحا تیرا
نہیں، سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
امام احمد رضا خان
 

سیما علی

لائبریرین
صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ

ایمان کے احکام و مسائل


74- باب الإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَوَاتِ وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ:
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمانوں پر تشریف لے جانا (یعنی معراج) اور نمازوں کا فرض ہونا۔

حدیث نمبر: 411

حدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا حماد بن سلمة ، حدثنا ثابت البناني ، عن انس بن مالك ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ " اتيت بالبراق وهو دابة ابيض، ‏‏‏‏‏‏طويل فوق الحمار، ‏‏‏‏‏‏ودون البغل يضع حافره عند منتهى طرفه، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ فركبته حتى اتيت بيت المقدس، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ فربطته بالحلقة التي يربط به الانبياء، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ ثم دخلت المسجد فصليت فيه ركعتين، ‏‏‏‏‏‏ثم خرجت، ‏‏‏‏‏‏فجاءني جبريل عليه السلام بإناء من خمر، ‏‏‏‏‏‏وإناء من لبن، ‏‏‏‏‏‏فاخترت اللبن، ‏‏‏‏‏‏فقال جبريل:‏‏‏‏ اخترت الفطرة، ‏‏‏‏‏‏ثم عرج بنا إلى السماء، ‏‏‏‏‏‏فاستفتح جبريل، ‏‏‏‏‏‏فقيل:‏‏‏‏ من انت؟ قال:‏‏‏‏ جبريل، ‏‏‏‏‏‏قيل:‏‏‏‏ ومن معك؟ قال:‏‏‏‏ محمد، ‏‏‏‏‏‏قيل:‏‏‏‏ وقد بعث إليه؟ قال:‏‏‏‏ قد بعث إليه ففتح لنا، ‏‏‏‏‏‏فإذا انا بآدم فرحب بي، ‏‏‏‏‏‏ودعا لي بخير، ‏‏‏‏‏‏ثم عرج بنا إلى السماء الثانية، ‏‏‏‏‏‏فاستفتح جبريل عليه السلام، ‏‏‏‏‏‏فقيل:‏‏‏‏ من انت؟ قال:‏‏‏‏ جبريل، ‏‏‏‏‏‏قيل:‏‏‏‏ ومن معك؟ قال:‏‏‏‏ محمد، ‏‏‏‏‏‏قيل:‏‏‏‏ وقد بعث إليه؟ قال:‏‏‏‏ قد بعث إليه ففتح لنا، ‏‏‏‏‏‏فإذا انا بابني الخالة عيسى ابن مريم ويحيى بن زكرياء صلوات الله عليهما، ‏‏‏‏‏‏فرحبا ودعوا لي بخير، ‏‏‏‏‏‏ثم عرج بي إلى السماء الثالثة، ‏‏‏‏‏‏فاستفتح جبريل، ‏‏‏‏‏‏فقيل:‏‏‏‏ من انت؟ قال:‏‏‏‏ جبريل، ‏‏‏‏‏‏قيل:‏‏‏‏ ومن معك؟ قال:‏‏‏‏ محمد صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏قيل:‏‏‏‏ وقد بعث إليه؟ قال:‏‏‏‏ قد بعث إليه ففتح لنا، ‏‏‏‏‏‏فإذا انا بيوسف عليه السلام، ‏‏‏‏‏‏إذا هو قد اعطي شطر الحسن، ‏‏‏‏‏‏فرحب ودعا لي بخير، ‏‏‏‏‏‏ثم عرج بنا إلى السماء الرابعة، ‏‏‏‏‏‏فاستفتح جبريل عليه السلام، ‏‏‏‏‏‏قيل:‏‏‏‏ من هذا؟ قال:‏‏‏‏ جبريل، ‏‏‏‏‏‏قيل:‏‏‏‏ ومن معك؟ قال:‏‏‏‏ محمد، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ وقد بعث إليه؟ قال:‏‏‏‏ قد بعث إليه ففتح لنا، ‏‏‏‏‏‏فإذا انا بإدريس، ‏‏‏‏‏‏فرحب ودعا لي بخير، ‏‏‏‏‏‏قال الله عز وجل ورفعناه مكانا عليا سورة مريم آية 57، ‏‏‏‏‏‏ثم عرج بنا إلى السماء الخامسة، ‏‏‏‏‏‏فاستفتح جبريل، ‏‏‏‏‏‏قيل:‏‏‏‏ من هذا؟ قال:‏‏‏‏ جبريل، ‏‏‏‏‏‏قيل:‏‏‏‏ ومن معك؟ قال:‏‏‏‏ محمد، ‏‏‏‏‏‏قيل وقد بعث إليه؟ قال:‏‏‏‏ قد بعث إليه ففتح لنا، ‏‏‏‏‏‏فإذا انا بهارون عليه السلام، ‏‏‏‏‏‏فرحب ودعا لي بخير، ‏‏‏‏‏‏ثم عرج بنا إلى السماء السادسة، ‏‏‏‏‏‏فاستفتح جبريل عليه السلام، ‏‏‏‏‏‏قيل:‏‏‏‏ من هذا؟ قال:‏‏‏‏ جبريل، ‏‏‏‏‏‏قيل:‏‏‏‏ ومن معك؟ قال:‏‏‏‏ محمد، ‏‏‏‏‏‏قيل:‏‏‏‏ وقد بعث إليه؟ قال:‏‏‏‏ قد بعث إليه ففتح لنا، ‏‏‏‏‏‏فإذا انا بموسى عليه السلام، ‏‏‏‏‏‏فرحب ودعا لي بخير، ‏‏‏‏‏‏ثم عرج إلى السماء السابعة، ‏‏‏‏‏‏فاستفتح جبريل، ‏‏‏‏‏‏فقيل:‏‏‏‏ من هذا؟ قال:‏‏‏‏ جبريل، ‏‏‏‏‏‏قيل ومن معك؟ قال:‏‏‏‏ محمد صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏قيل:‏‏‏‏ وقد بعث إليه؟ قال:‏‏‏‏ قد بعث إليه ففتح لنا، ‏‏‏‏‏‏فإذا انا بإبراهيم عليه السلام مسندا ظهره إلى البيت المعمور، ‏‏‏‏‏‏وإذا هو يدخله كل يوم سبعون الف ملك، ‏‏‏‏‏‏لا يعودون إليه، ‏‏‏‏‏‏ثم ذهب بي إلى السدرة المنتهى، ‏‏‏‏‏‏وإذا ورقها كآذان الفيلة، ‏‏‏‏‏‏وإذا ثمرها كالقلال، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ فلما غشيها من امر الله ما غشي تغيرت، ‏‏‏‏‏‏فما احد من خلق الله يستطيع ان ينعتها من حسنها، ‏‏‏‏‏‏فاوحى الله إلي ما اوحى، ‏‏‏‏‏‏ففرض علي خمسين صلاة في كل يوم وليلة، ‏‏‏‏‏‏فنزلت إلى موسى عليه السلام، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ ما فرض ربك على امتك؟ قلت:‏‏‏‏ خمسين صلاة، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ ارجع إلى ربك فاساله التخفيف، ‏‏‏‏‏‏فإن امتك لا يطيقون ذلك، ‏‏‏‏‏‏فإني قد بلوت بني إسرائيل وخبرتهم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ فرجعت إلى ربي، ‏‏‏‏‏‏فقلت:‏‏‏‏ يا رب، ‏‏‏‏‏‏خفف على امتي، ‏‏‏‏‏‏فحط عني خمسا، ‏‏‏‏‏‏فرجعت إلى موسى، ‏‏‏‏‏‏فقلت:‏‏‏‏ حط عني خمسا، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ إن امتك لا يطيقون ذلك، ‏‏‏‏‏‏فارجع إلى ربك فاساله التخفيف، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ فلم ازل ارجع بين ربي تبارك وتعالى، ‏‏‏‏‏‏وبين موسى عليه السلام، ‏‏‏‏‏‏حتى قال:‏‏‏‏ يا محمد، ‏‏‏‏‏‏إنهن خمس صلوات كل يوم وليلة، ‏‏‏‏‏‏لكل صلاة عشر، ‏‏‏‏‏‏فذلك خمسون صلاة ومن هم بحسنة، ‏‏‏‏‏‏فلم يعملها، ‏‏‏‏‏‏كتبت له حسنة، ‏‏‏‏‏‏فإن عملها، ‏‏‏‏‏‏كتبت له عشرا، ‏‏‏‏‏‏ومن هم بسيئة فلم يعملها، ‏‏‏‏‏‏لم تكتب شيئا، ‏‏‏‏‏‏فإن عملها، ‏‏‏‏‏‏كتبت سيئة واحدة، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ فنزلت حتى انتهيت إلى موسى عليه السلام، ‏‏‏‏‏‏فاخبرته، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ ارجع إلى ربك فاساله التخفيف، ‏‏‏‏‏‏فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏فقلت:‏‏‏‏ قد رجعت إلى ربي حتى استحييت منه ".

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے سامنے براق لایا گیا۔ اور وہ ایک جانور ہے سفید رنگ کا گدھے سے اونچا اور خچر سے چھوٹا اپنے سم وہاں رکھتا ہے، جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے (تو ایک لمحہ میں آسمان تک جا سکتا ہے) میں اس پر سوار ہوا اور بیت المقدس تک آیا۔ وہاں اس جانور کو حلقہ سے باندھ دیا۔ جس سے اور پیغمبر اپنے اپنے جانوروں کو باندھا کرتے تھے (یہ حلقہ مسجد کے دروازے پر ہے اور باندھ دینے سے معلوم ہوا کہ انسان کو اپنی چیزوں کی احتیاط اور حفاظت ضروری ہے اور یہ توکل کے خلاف نہیں) پھر میں مسجد کے اندر گیا اور دو رکعتیں نماز کی پڑھیں بعد اس کے باہر نکلا تو جبرئیل علیہ السلام دو برتن لے کر آئے ایک میں شراب تھی اور ایک میں دودھ میں نے دودھ پسند کیا۔ جبرئیل علیہ السلام ہمارے ساتھ آسمان پر چڑھے (جب وہاں پہنچے) تو فرشتوں سے کہا: دروازہ کھولنے کیلئے، انہوں نے پوچھا کون ہے؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا: جبرئیل ہے۔ انہوں نے کہا: تمہارے ساتھ دوسرا کون ہے۔؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے پوچھا: کیا بلائے گئے تھے۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا: ہاں بلائے گئے ہیں، پھر دروازہ کھولا گیا ہمارے لئے اور ہم نے آدم علیہ السلام کو دیکھا، انہوں نے مرحبا کہا اور میرے لئے دعا کی بہتری کی۔ پھر جبرئیل علیہ السلام ہمارے ساتھ چڑھے دوسرے آسمان پر اور دروازہ کھلوایا، فرشتوں نے پوچھا: کون ہے۔ انہوں نے کہا: جبرئیل۔ فرشتوں نے پوچھا: تمہارے ساتھ دوسرا کون شخص ہے؟ انہوں نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں فرشتوں نے کہا: کیا ان کو حکم ہوا تھا بلانے کا۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا: ہاں ان کو حکم ہوا ہے، پھر دروازہ کھلا تو میں نے دونوں خالہ زاد بھائیوں کو دیکھا یعنی عیسیٰ بن مریم اور یحییٰ بن زکریا علیہم السلام کو ان دونوں نے مرحبا کہا اور میرے لئے بہتری کی دعا کی پھر جبرئیل علیہ السلام ہمارے ساتھ تیسرے آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا۔ فرشتوں نے کہا: کون ہے؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا: جبرئیل۔ فرشتوں نے کہا: دوسرا تمہارے ساتھ کون ہے۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے کہا: کیا ان کو پیغام کیا گیا تھا بلانے کے لئے؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا: ہاں ان کو پیغام کیا گیا تھا پھر دروازہ کھلا تو میں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھا اللہ نے حسن (خوبصورتی) کا آدھا حصہ ان کو دیا تھا۔ انہوں نے مرحبا کہا مجھ کو اور نیک دعا کی پھر جبرئیل علیہ السلام ہم کو لے کر چوتھے آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا فرشتوں نے پوچھا: کون ہے؟ کہا: جبرئیل۔ پوچھا: تمہارے ساتھ دوسرا کون ہے۔؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں فرشتوں نے کہا: کیا بلوائے گے ہیں؟ جبرئیل نے کہا: ہاں بلوائے گئے ہیں، پھر دروازہ کھلا تو میں نے ادریس علیہ السلام کو دیکھا، انہوں نے مرحبا کہا اور اچھی دعا دی مجھ کو، اللہ جل جلالہ نے فرمایا: ہم نے اٹھا لیا ادریس کو اونچی جگہ پر (تو اونچی جگہ سے یہی چوتھا آسمان مراد ہے) پھر جبرئیل علیہ السلام ہمارے ساتھ پانچویں آسمان پر چڑھے۔ انہوں نے دروازہ کھلوایا۔ فرشتوں نے پوچھا: کون؟ کہا جبرئیل۔ پوچھا تمہارے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے کہا: کیا بلائے گئے ہیں۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا ہاں بلوائے گئے ہیں، پھر دروازہ کھلا تو میں نے ہارون علیہ السلام کو دیکھا انہوں نے مرحبا کہا اور مجھے نیک دعا دی۔ پھر جبرئیل علیہ السلام ہمارے ساتھ چھٹے آسمان پر پہنچے اور دروازہ کھلوایا فرشتوں نے پوچھا کون ہے؟ کہا: جبرئیل۔ پوچھا اور کون ہے تمہارے ساتھ؟ انہوں نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے کہا: کیا اللہ نے ان کو پیغام بھیجا آ ملنے کیلئے؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا: ہاں بھیجا، پھر دروازہ کھلا تو میں نے موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا، انہوں نے کہا: مرحبا اور اچھی دعا دی مجھ کو، پھر جبرئیل علیہ السلام ہمارے ساتھ ساتویں آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا فرشتوں نے پوچھا: کون ہے؟ کہا: جبرئیل، پوچھا: تمہارے ساتھ اور کون ہے؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے پوچھا: کیا وہ بلوائے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں بلوائے گئے ہیں۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا وہ تکیہ لگائے ہوئے تھے اپنی پیٹھ کا بیت المعمور کی طرف (اس سے یہ معلوم ہوا کہ قبلہ کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھنا درست ہے) اور اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے جاتے ہیں جو پھر کبھی نہیں آتے پھر جبرئیل علیہ السلام مجھ کو سدرۃ المنتہیٰ کے پاس لے گئے۔ اس کے پتے اتنے بڑے تھے جیسے ہاتھی کے کان اور اس کے بیر جیسے قلہ (ایک بڑا گھڑا جس میں دو مشک یا زیادہ پانی آتا ہے) پھر جب اس درخت کو اللہ کے حکم نے ڈھانکا تو اس کا حال ایسا ہو گیا کہ کوئی مخلوق اس کی خوبصورتی بیان نہیں کر سکتی پھر اللہ جل جلالہ نے ڈالا میرے دل میں جو کچھ ڈالا اور پچاس نمازیں ہر رات اور دن میں مجھ پر فرض کیں جب میں اترا اور موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انہوں نے پوچھا: تمہارے پروردگار نے کیا فرض کیا تمہاری امت پر۔ میں نے کہا: پچاس نمازیں فرض کیں۔ انہوں نے کہا: پھر لوٹ جاؤ اپنے پروردگار کے پاس اور تخفیف چاہو کیونکہ تمہاری امت کو اتنی طاقت نہ ہو گی اور میں نے بنی اسرائیل کو آزمایا ہے اور ان کا امتحان لیا ہے۔ میں لوٹ گیا اپنے پروردگار کے پاس اور عرض کیا: اے پروردگار! تخفیف کر میری امت پر اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں گھٹا دیں۔ میں لوٹ کر موسٰی علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا کہ پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے مجھے معاف کر دیں۔ انہوں نے کہا: تمہاری امت کو اتنی طاقت نہ ہو گی تم پھر جاؤ اپنے رب کے پاس اور تخفیف کراؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اس طرح برابر اپنے پروردگار اور موسٰی علیہ السلام کے درمیان آتا جاتا رہا یہاں تک کہ اللہ جل جلالہ نے فرمایا: اے محمد! وہ پانچ نمازیں ہیں، ہر دن اور ہر رات میں اور ہر ایک نماز میں دس نماز کا ثواب ہے، تو وہی پچاس نمازیں ہوئیں (سبحان اللہ! مالک کی کیسی عنایت اپنے غلاموں پر ہے کہ پڑھیں تو پانچ نمازیں اور ثواب ملے پچاس کا) اور جو کوئی شخص نیت کرے کام کرنے کی نیک، پھر اس کو نہ کرے تو اس کو ایک نیکی کا ثواب ملے گا اور جو کرے تو دس نیکیوں کا اور جو شخص نیت کرے برائی کی پھر اس کو نہ کرے تو کچھ نہ لکھا جائے گا اور اگر کر بیٹھے تو ایک ہی برائی لکھی جائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر میں اترا اور موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا۔ انہوں نے کہا: پھر جاؤ اپنے پروردگار کے پاس اور تخفیف چاہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اپنے پروردگار کے پاس بار بار گیا یہاں تک کہ میں شرما گیا اس سے۔“
 

سیما علی

لائبریرین
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ، قَالَ: " كَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا لَمْ يَعْدُهُ وَلَمْ يُقَصِّرْ دُونَهُ ".
ابو جعفر کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنتے تو نہ اس میں کچھ بڑھاتے، اور نہ ہی کچھ گھٹاتے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۷۴۴۲، ومصباح الزجاجة: ۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۸۲)، سنن الدارمی/المقدمة ۳۱ (۳۲۷) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی وہ حدیث کی روایت میں حد درجہ محتاط تھے، الفاظ کی پوری پابندی کرتے تھے، اور ہوبہو اسی طرح روایت کرتے جس طرح سنتے۔
 
Top