کراچی، برطانوی دور کی یاد دلاتی قیمتی تعمیرات
جب برطانوی نوآبادیاتی حکمراں 1947میں یہاں سے روانہ ہوئے اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو حالات زیادہ ساز گار نہیں تھے، اس صورتحال میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں موجود برطانوی طرز تعمیر یا اس کے زیراثر تعمیراتی نمونوں پر بہت کم توجہ دی گئی۔
اور اب ستر برس بعد برطانوی تعمیرات کے یہ قیمتی نمونے ٹوٹ پھوٹ اور خستہ حالی کا شکار ہیں۔ ان میں سے بہت سے یا تو گرچکےہیں یا پھر انھیں پاکستان کے معاشی دارالحکومت میں موجود رئیل اسٹیٹ ڈیولپرز سے خطرات لاحق ہیں۔
کراچی بڑی تیزی کے ساتھ ایک میگا سٹی میں تبدیل ہوچکا ہے، اس حوالے سےمحققین کا کہنا ہے کہ انگلش عہد کی یہ تعمیرات اس دور کی مکمل عکاسی کرتی ہیں۔ان محققین کے مطابق ان عمارتوں کے اصل مالکان وہ لاکھوں مسلمان یا ہندو مہاجرین تھے جو فسادات کے دوران اپنا گھربار چھوڑ کر چلے گئے۔
کراچی کے تاریخی ورثے پر متعدد کتابوں کے مصنف اور اس حوالےسے تحقیق کرنے والے اختر بلوچ کا کہنا ہے کہ مٹی کا ہر بلاک ان تاریخی عمارتوں کو 1947میں چھوڑ کر جانے والوں کی مکمل کہانی بیان کرتا نظرآتا ہے کہ انھوں نے کتنی محبت اور چاہت سے انھیں تعمیر کیا تھا۔
انھوں نے مزید کہا کہ جب مجھ جیسے لوگوں کو اس تاریخی ورثے کے ساتھ روارکھے جانیوالےاس عدم توجہی پر مبنی سلوک کو دیکھ کر پشیمانی کا احساس ہوتا ہے تو پھر اس عمارت کو چھوڑ جانے والوں کے خاندان کاکوئی فرد جب کبھی کراچی آئے گا تو وہ کیا محسوس کرے گا؟
کراچی کی آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور 2017کےتخمینے کے مطابق تقریباً پونے دو کروڑ ہے جبکہ آزادی کے وقت اس کی آبادی چارلاکھ تھی۔ موجودہ عہد میں شہرمیں ایک ایک انچ جگہ بلڈنگ ڈیولپرز کے لیے انتہائی قیمتی ہوگئی ہے۔
جہانگیر کوٹھاری پریڈ جوبرطانوی عہد کی ایک شاندار یادگارہے لیکن اب اس کے اردگر د اوورپاس اور بلند وبالا عمارتوں نے اس کی انفرادیت کو گہنادیا ہے۔اس کے ساتھ تعمیر کی گئی چلنے کی خوبصورت جگہ اور برطانوی شاہی دور کے امپریل کسٹمز ہاوس اور دیگر تعمیرات کوگوکہ دوبارہ بحال کرنے کا کام کیا گیا ہے ۔تاہم اس قسم کے اقدامات بہت کم ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں اگر گرنے والی عمارتوں کا احاطہ کیا جائے تو وہ بہت زیادہ ہیں۔
تیزی سے بڑھتی ہوئی اربانائزیشن بالخصوص قدیم شہر میں جہاں کثیر المنزلہ رہائشی عمارتوں کی تعمیر زیادہ منافع بخش ہے وہاں بڑے پیمانے پر پرانی تعمیرات کو مہندم کیا گیا ہےلیکن کنکریٹ کی نئی تعمیرات کے ساتھ ساتھ برطانوی عہدکی ان عمارتوں کی باقیات اپنے ساتھ برتی جانیوالی عدم توجہی کااظہارکرتی اب بھی دیکھی جاسکتی ہیں ۔
اس حوالے سے کراچی کا علاقہ صدر ،برطانوی عہد کی تاریخی تعمیرات کا سب سے بڑا مرکز ہے جبکہ سندھ کے محکمہ آثار قدیمہ نے مشرقی ضلع میں واقع نوآبادیاتی دورکے جیل کو محفوظ ورثہ قراردیدیا ہے۔
اب تک 170عمارتوں یا جگہوں کو تاریخی ورثےمیں شامل کیا گیا ہے اور یہ عمل اب بھی جاری ہے۔سندھ ثقافتی ورثہ کا تحفظ ایکٹ 1994میں متعارف کروایاگیا تھا ، یہ ایکٹ تاریخی اہمیت کی حامل ،ان تعمیرات کو قانونی تحفظ فراہم کرتی ہے۔