میں نے اسے کئی بار ڈاؤنلوڈ کرتے کرتے چھوڑا ہے پر ڈاؤنلوڈ نہیں کی۔The Raid: Redemption کا انگریزی ورژن دیکھا۔ بنیادی طور پر یہ ایک انڈونیشین مووی ہے۔ ایک پولیس ٹیم شہر کے ایک بڑے جرائم کے بادشاہ کو ختم یا گرفتار کرنے کے لیئے اس کے اڈے جو کہ ایک تیس منزلہ عمارت ہے پر ریڈ کرتی ہے لیکن یہ ریڈ کئی جانوں کے ضیاع کا باعث بنتی ہے۔ ادھر سے پولیس کے لوگ گرتے ہیں تو وہاں سے جرائم پیشہ بھی گاجر مولی کی طرح کٹتے ہیں۔ فلم کا مین واچ پوائنٹ فلم میں گن فائیٹ کے ساتھ ساتھ بہترین قسم کی جسمانی فائیٹ بھی ہے۔ کُل ملا کر ایک اچھی فلم ثابت ہوئی۔
ٹی وی سیریز کا ایک سیزن دیکھا تھا ۔ اس سے زیادہ نہ دیکھ سکاLe Femme Nikita دیکھی۔فرانسیسی زبان میں تھی اس لیے انگلش سب ٹائٹلز لگا کر دیکھنی پڑی۔کہانی ایک عورت کے گرد گھومتی ہے جو ایک ڈکیٹی کے دوران ایک پولیس آفیسر کو مار دیتی ہےاور پکڑی جاتی ہے بعد میں اسے اچھے طریقے سے ٹرین کیا جاتا ہے۔اور پھر وہ فرانسیسی حکومت کیلیے کرائے کے قاتل کا کام کرنے لگ جاتی ہے۔
اسی نام کی ایک ٹیلی ویژن سیریز بھی ہے جو اس فلم سے انسپائر ہو کر بنائی گئی ہے۔
ایک درمیانی سی فلم ہے
کیسا تھا؟ٹی وی سیریز کا ایک سیزن دیکھا تھا ۔ اس سے زیادہ نہ دیکھ سکا
بس گزارے لائق۔ اتنا مزا نہیں آیا تھا ۔ البتہ پہلی دو اقساط مزے دار تھیں۔کیسا تھا؟
میں نے دیکھی ہوئی ہے یہ فلماوکے چاچا مقبول حسین عرف حسیب نذیر گِل
چاکلیٹ :۔ فلم ایک پر سکون گاؤں کی ہے جہاں ایک خانہ بدوش عورت اپنی بیٹی کے ساتھ وہاں رہنے آتی ہے اور گاؤں میں ہلچل سی مچ جاتی ہے
گاؤں کا نمبردار اور پادری اس کے خلاف ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ چرچ نہیں جاتی
وہ چاکلیٹ کی دوکان کھولتی ہے ، مگر نمبر دار کے کیے گئے پراپیگنڈے کی وجہ سے کوئی اس کی دوکان پر آنا تو دور اس سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا
پھر فلم میں ہیرہ (جونی ڈیپ) کی انٹری ہوتی ہے، وہ ایک خانہ بدوش ملاح ہوتا ہے۔ اسے بھی گاؤں کی کسی بھی دوکان سے کوئی چیز نہیں ملتی، سب اسے دھتکار دیتے ہیں۔ مگر چاکلیٹ والی اسے بلا کر اس کی مہمان نوازی کرتی ہے۔ آہستہ آہستہ گاؤں والے جاننے لگتے ہیں کہ یہ تو دراصل بہت اچھی عورت ہے، اور یوں وہ گاؤں میں پہلی بار ایک پارٹی کرتے ہیں۔کچھ دن بعد پھر ایک ڈانس پارٹی ہوتی ہے۔ گاؤں کا نمبر دار سمجھتا ہے کہ میرا اثر ورسوخ کم ہو تا جا رہا ہے۔ وہ جونی ڈیپ کی کشتیوں کو آگ لگوا دیتا ہے اور اسے گاؤں سے جانے پر مجبور کر دیتا ہے۔
لیکن جیسا کہ ہیپی اینڈ ہوتا ہے ہر کہانی کا۔ اس فلم میں گاؤں کے بورنگ لوگ خوش باش اور ہلا گلا کرنے لگ جاتے ہیں ، اور گاؤں پہلے جیسا بورنگ نہیں رہتا۔ جونی ڈیپ لوٹ آتا ہے ۔ اور پھر شادی
یار اتنے بڑے ہیرو کے نام سے مجھے پکار رہے ہو۔بہت شکریہاوکے چاچا مقبول حسین عرف حسیب نذیر گِل
چاکلیٹ :۔ فلم ایک پر سکون گاؤں کی ہے جہاں ایک خانہ بدوش عورت اپنی بیٹی کے ساتھ وہاں رہنے آتی ہے اور گاؤں میں ہلچل سی مچ جاتی ہے
گاؤں کا نمبردار اور پادری اس کے خلاف ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ چرچ نہیں جاتی
وہ چاکلیٹ کی دوکان کھولتی ہے ، مگر نمبر دار کے کیے گئے پراپیگنڈے کی وجہ سے کوئی اس کی دوکان پر آنا تو دور اس سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا
پھر فلم میں ہیرہ (جونی ڈیپ) کی انٹری ہوتی ہے، وہ ایک خانہ بدوش ملاح ہوتا ہے۔ اسے بھی گاؤں کی کسی بھی دوکان سے کوئی چیز نہیں ملتی، سب اسے دھتکار دیتے ہیں۔ مگر چاکلیٹ والی اسے بلا کر اس کی مہمان نوازی کرتی ہے۔ آہستہ آہستہ گاؤں والے جاننے لگتے ہیں کہ یہ تو دراصل بہت اچھی عورت ہے، اور یوں وہ گاؤں میں پہلی بار ایک پارٹی کرتے ہیں۔کچھ دن بعد پھر ایک ڈانس پارٹی ہوتی ہے۔ گاؤں کا نمبر دار سمجھتا ہے کہ میرا اثر ورسوخ کم ہو تا جا رہا ہے۔ وہ جونی ڈیپ کی کشتیوں کو آگ لگوا دیتا ہے اور اسے گاؤں سے جانے پر مجبور کر دیتا ہے۔
لیکن جیسا کہ ہیپی اینڈ ہوتا ہے ہر کہانی کا۔ اس فلم میں گاؤں کے بورنگ لوگ خوش باش اور ہلا گلا کرنے لگ جاتے ہیں ، اور گاؤں پہلے جیسا بورنگ نہیں رہتا۔ جونی ڈیپ لوٹ آتا ہے ۔ اور پھر شادی
بندہ بن یارچھوٹاغالبؔ
بس ایک فلم کا ہی تجزیہ پیش نہیں کرنا بلکہ جب بھی کوئی فلم دیکھو فورا یہاں پر آکر اندراج کرنا ہے اور ہاں ساتھ میں پوسٹر یا IMDB کا لنک ضرور دے دیا کرو۔
نام بھی انگلش میں لکھا کرو تاکہ ڈھونڈنے میں آسانی رہے
کیمرہ مین اکیلا ہی یہ کام نہیں کرتا۔اس میں تو بہت لوگوں کا خون پسینہ شامل ہوتا ہے کیوں شہزاد وحید بھائی؟رائز آف دی پلانیٹ آف دی ایپس
یہ چمپینزی ہیرو کی فلم ہے
سائیڈ ہیرو وہ سپائیڈر مین فلم میں جو پیٹر پارکر کا دوست تھا "ہیری" وہ ہے
فینٹاسی فلم ہے
ایک دوائی بناتے ہیں دماغی مریضوں کیلئے "ایلز 112"
وہ چمپینزی پر ٹیسٹ کرتے ہیں۔ ایک چمپینزی کا دماغ تیز ہو جاتا ہے
مگر ایک غلط فہمی کی وجہ سے سب کو مارنا پڑتا ہے۔ اس کا پیدا ہونے والا بچہ ڈاکٹر گھر لے جاتا ہے
وہاں پل کر جوان ہو جاتا ہے۔ 3 سال بعد وہ پہلی بار جنگل جاتا ہے۔وہاں اسے احساس ہوتا ہے کہ میں انسانوں سے مختلف ہوں
وہ اپنی ماں کا پوچھتا ہے۔ تو ڈاکٹر کو سچ بتانا ہی پڑتا ہے۔ ایک آدمی کی انگلی چبانے کے جرم میں اسے جانوروں کے جیل جانا پڑتا ہے۔
اس کا پالنے والا س سے جھوٹ بولتا ہے کہ آ کے لے جاؤں گا۔ وہ کافی دن انتظار کرتا ہے مگر آخر کار پکا ارادہ کر لیتا ہے واپس نہ جانے کا۔
اور وہاں کے تمام چمپینزیوں کو اپنے ساتھ ملا کر اپنی عقل کے سہارے جیل سے نکال لے جاتا ہے۔ پورے شہر میں تباہی مچا دیتے ہیں۔
سٹی گیٹ پل پر بندروں اور انسانوں کی آخری لڑائی ہوتی ہے۔ اور بندر ہر رکاوٹ توڑ کر جنگل میں پہنچ جاتے ہیں
فلم بہت بہت زبردست اور شاندار بنائی ہے۔ کیمرہ مین کو واقعی داد ملنی چاہیے