جاسمن
لائبریرین
ایک غزل برائے اِصلاح
آواز دوں تو بند ہیں رستے سبھی یہاں
چلنے لگوں تو ملتے نہیں پاؤں کے نشاں
منزل تلک تو آنکھ کی بینائی ساتھ تھی
منزل ملی تو ہوئی ہیں محسوس کرچیاں
لوگوں نے تجھ سے پہلے مجھے دیں عقیدتیں
رُسوا ہوئے تو کھول دیں سب ہی نے کھڑکیاں
آؤ تو کبھی چاہنے والوں کے شہر میں
دِل کی ہر گلی میں ملے تم کو کہکشاں
ہے مرد ہی کا راج یہ انصاف تو نہیں
آدم کے ساتھ حوّا بھی اُتری تھی کل یہاں
سمجھی تھی راہِ حق میں تنہا ہوں دوستو
رستے پہ جب چلی تو ملے خون کے نشاں
وہ آ چکا ہے جاسمن لیکن ابھی تلک
باقی ہیں مری ذات کی قاتل اداسیاں
آواز دوں تو بند ہیں رستے سبھی یہاں
چلنے لگوں تو ملتے نہیں پاؤں کے نشاں
منزل تلک تو آنکھ کی بینائی ساتھ تھی
منزل ملی تو ہوئی ہیں محسوس کرچیاں
لوگوں نے تجھ سے پہلے مجھے دیں عقیدتیں
رُسوا ہوئے تو کھول دیں سب ہی نے کھڑکیاں
آؤ تو کبھی چاہنے والوں کے شہر میں
دِل کی ہر گلی میں ملے تم کو کہکشاں
ہے مرد ہی کا راج یہ انصاف تو نہیں
آدم کے ساتھ حوّا بھی اُتری تھی کل یہاں
سمجھی تھی راہِ حق میں تنہا ہوں دوستو
رستے پہ جب چلی تو ملے خون کے نشاں
وہ آ چکا ہے جاسمن لیکن ابھی تلک
باقی ہیں مری ذات کی قاتل اداسیاں